یونانی نشہ عروج پر

597

پچھلے دنوں سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پہنچنے کے دوسرے دن میں اپنے کزن جاوید کے ساتھ مرکزی بازار کی جانب گیا۔ کیونکہ اُس کا کام بازار سے منسلک ہے اس لیے ہم وہاں خاصی دیر رہے۔ شام ڈھلے واپسی پر ہمارا گزر ایک ایسی گلی سے ہوا جہاں ایک درجن کے قریب نوجوان آگ کے گرد گھیرا بنائے بیٹھے تھے۔ ان میں میرے قریبی رشتے دار بھی تھے، اس لیے میں ان کے پاس جا پہنچا۔ جوں جوں شام گہری ہورہی تھی، سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سردی کے باعث آگ کے قریب کھڑے رہنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ مجھے ان نوجوانوں کے ساتھ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ جاوید نے مجھے اس جگہ سے نکلنے کا اشارہ کردیا۔ میں اپنے ان رشتے داروں سے ایک عرصے کے بعد صرف چند لمحوں کے لیے ہی ملا تھا اس لیے جاوید کی جانب سے کیا جانے والا اشارہ مجھے کچھ عجیب سا لگا۔ خیر، ہم دونوں وہاں سے نکل پڑے۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ میں نے جاوید سے گلہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’ایسا کیا ہوا جو تم نے مجھے ان لوگوں سے ملنے تک نہ دیا؟‘‘
اس نے فوراً معذرت کرتے ہوئے کہا:’’اصل وجہ وہ نہیں جو تم سوچ رہے ہو، بلکہ میں نے تم کو وہاں سے چلنے کا اشارہ اس لیے کیا تھا کہ وہ لوگ نشہ کررہے تھے۔‘‘
میں نے کہا: ’’یار تم مجھے کس چکر میں ڈال رہے ہو! وہ تو وہاں آگ میں ہاتھ تاپ رہے تھے۔‘‘
کہنے لگا: ’’یہ کوئی نیا چکر نہیں، اور نہ ہی وہ لوگ آگ کے گرد حصار بناکر کوئی چلہ کھینچ رہے تھے۔ یہ سب نشے کے عادی ہیں، واری لگا رہے تھے۔‘‘
’’واری لگا رہے تھے! کیا مطلب؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ اپنی اپنی باری پر چرس سے بھری سگریٹ کے کش لگا رہے تھے، رات گہری ہوتے ہی یہ شیشے کا نشہ بھی کرتے ہیں۔‘‘
’’اب یہ شیشہ کہاں سے آگیا؟‘‘
’’شیشہ کے بارے میں کون نہیں جانتا! ہمارے معاشرے میں یہ نشہ عروج پر ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ جتنے بھی نوجوان وہاں موجود تھے، اُن سے اگر پوچھا جائے تو کہیں گے یہ مضر صحت نہیں، جبکہ ایک گھنٹہ شیشہ پینا 200 سگریٹ پینے کے مترادف ہے، جس سے اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ میرے تجربے میں ہے کہ لگاتار شیشہ پینے سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے اور پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کاخطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اب تو ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں شیشہ بار بھی کھل چکے ہیں جو زیادہ تر پوش علاقوں میں واقع ہیں۔ بیشتر شیشہ بارز میں پرائیویٹ کمرے بھی بنائے گئے ہیں، جہاں نوجوانوں کو نشہ آور اشیاء فراہم کی جاتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ آئس اور دیگر منشیات کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ چونکہ اکثر شیشہ پینے والے آگ میں چلم کو ملاکر چرس اور ہیروئن بھی پیتے ہیں،اس لیے نشے کا عادی شخص دردناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی موت صرف اُس کی نہیں بلکہ اُس کی خوشیوں کی، خواہشات کی، تمنائوں کی بھی موت ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے کی لعنت کو نہ صرف اپنا رہے ہیں بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔‘‘
ہاں ہاں، میں ان تمام باتوں سے اچھی طرح واقف ہوں اور شیشہ کے بارے میں بھی خوب جانتا ہوں، مجھے تو تمہاری جانب سے ان نوجوانوں کے بارے میں کی جانے والی باتوں پر حیرت ہے، مجھے یقین نہیں کہ وہ ایسا کررہے تھے۔‘‘
’’میں سچ کہہ رہا ہوں اسی لیے میں نے تم کو وہاں سے نکلنے کا اشارہ کیا۔ انہیں تو اپنی عزت کا خیال نہیں، کم سے کم تمہاری عزت کا تو خیال ہونا چاہیے۔‘‘
’’اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو واقعی ان نوجوانوں کا محلے میں اس طرح سے اکٹھے ہوکر نشہ کرنا اچھی بات نہیں۔ یہ تو انتہائی خطرناک ہے، بلکہ محلے والوں کے لیے تو زہر قاتل صورتِ حال ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے میں اہلِ محلہ کی جانب سے کوئی ردعمل کیوں نہیں آتا؟‘‘
’’نشے کی عادت اچھی بات نہیں، یہ ہم کہتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک سب اچھا ہے۔ تمباکو نوشی، شیشہ، چرس اور شراب نوشی ایک طرف… یہاں کے نوجوانوں نے تو اب ایک نئی قسم کا یونانی نشہ ایجاد کرلیا ہے جو معجون کی صورت میں دستیاب ہے، یعنی ایک مشہور کمپنی کی تیار کردہ معجون، جو کہ نزلہ، کھانسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے، آج کل نوجوان اسے نشے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ سو روپے سے ڈیڑھ سو روپے کے درمیان دستیاب ہونے والی اس معجون کو کھانے والا شخص سارا دن ٹُن رہتا ہے۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے اس نشے کے عادی افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مانگ میں اضافے کے باعث یہ معجون بازار سے غائب ہوجاتی ہے۔ اور جہاں تک اہلِ محلہ کے ردعمل کا تعلق ہے تو ایسی صورت میں محلے والے بھی کیا کریں! شروع شروع میں اعتراض کیا گیا، لیکن دوسری جانب سے مزاحمت کی گئی۔ یہ لوگ اکٹھے ہوکر لڑتے ہیں، اس لیے ان سے کوئی شریف آدمی نہیں الجھتا۔ لوگ اپنی عزت کی خاطر ان کے منہ نہیں لگتے۔ ظاہر ہے جو اپنی جان ہتھیلی پہ لیے گھوم رہے ہوں اُن کے متھے کون لگے گا! یہی وجہ ہے کہ انہیں ان کے حال پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘
’’یار تمہارے شہر میں اس قدر کھلے عام نشہ کیا جا رہا ہے، اس پر حکومت خاص طور پر پولیس اور انتظامیہ کچھ نہیں کرتی؟‘‘
’’نشے کے عادی تو سارے ملک میں ہیں، بلکہ اس زہر کو اپنے جسم میں اتارنے والوں کی تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں تک منشیات فروشوں، نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والوں، یا پھر دیگر جرائم میں ملوث افراد کے خلاف پولیس کی کارروائی کا تعلق ہے تو ان کی کارکردگی کا اندازہ میرے ساتھ ہونے والے واقعے کو سن کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ ماہ ایک تقریب سے واپسی پر نوسرباز خواتین کی جانب سے تھانے میں دی جانے والی زیادتی کی درخواست پر مجھے پولیس نے گرفتار کرلیا۔ میرے خلاف اس جھوٹی درخواست میں جو مؤقف اختیار کیا گیا وہ سوائے کہانی کے کچھ نہ تھا۔ میں چونکہ بے قصور تھا اس لیے مستقل مزاحمت کرتا رہا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کہیں بھی، کسی کے بھی سامنے پیش ہونے کو تیار تھا، جبکہ پولیس افسران کی جانب سے مسلسل مجھے ان نوسرباز خواتین کو کچھ رقم ادا کرکے اپنی عزت بچانے کا مشورہ دیا جاتا رہا، جبکہ میں غیر جانب دارانہ تحقیقات مکمل کرکے جھوٹا الزام لگانے والی خواتین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی کارروائی کرنے پر زور دیتا رہا، لیکن میری ایک نہ سنی گئی۔ آخر میں کب تک لڑتا؟ ایک رات حوالات میں بند رہ کر دماغ ٹھکانے پر آگیا۔ صبح ان نوسرباز خواتین نے ایک لاکھ روپے لے کر اپنی درخواست واپس لے لی، یوں میری جان چھوٹی۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، بلکہ یہ خواتین آئے دن کاروباری شخصیات سے اسی طریقۂ واردات کے تحت لاکھوں روپے لوٹتی ہیں۔ ظاہر ہے کوئی بھی شریف آدمی اپنی عزت بچانے کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے! یہ ساری کارروائی نہ صرف پولیس کے علم میں ہے بلکہ رقم کے لین دین میں وہ اپنا بھرپور کردار بھی ادا کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میری داستان سننے کے بعد پولیس کی کارکردگی تم پر عیاں ہوچکی ہوگی۔‘‘
’’یار جاوید تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ قابلِ مذمت ہے۔ پولیس کے کردار پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ جو ناانصافی ہوئی اُسے چھوڑو، میں نے اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ یہاں اپنا واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور نوجوانوں میں نشے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے پولیس و انتظامیہ کی جانب دیکھنے کے بجائے ہمیں خود اقدامات کرنے ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک منشیات کے استعمال کو بڑھاوا دینے والے اسباب و محرکات کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا، اُس وقت تک اس مسئلے کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، اور جب تک زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کردار ادا نہیں کریں گے،اُس وقت تک اس سنگین صورتِ حال پر قابو پانا مشکل ہے۔میں تو کہتا ہوں اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے پوری قوم کو یکجا ہوکر کردار ادا کرنا ہوگا۔ والدین اور اساتذہ بچوں کی تربیت اور نگرانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں، ان پر پوری نگاہ رکھنی ہوگی اور انہیں منشیات کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ، اور ان جیسے دیگر اقدامات فوری طور پر کرنا ہوں گے۔ کیوں کہ اگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو اس لت سے نجات نہ دلائی تو پھر انہیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘
………
جاوید حکومتی اداروں خصوصاً محکمہ پولیس کی ناقص کارکردگی کے باعث نوجوان نسل میں نشہ آور اشیاء کے بڑھتے ہوئے رجحان پر انتہائی رنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ بات بھی ٹھیک ہے، جس ملک کے ادارے اپنے نوجوانوں کو منشیات جیسی لعنت سے محفوظ نہ رکھ سکیں ایسے میں یہ کسی ایک جاوید کی نہیں بلکہ 22کروڑ عوام کے دل کی آواز ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نوجوان نسل کو منشیات کی رو میں بہہ جانے سے بچانے اور منشیات کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں اور اس کی خفیہ فروخت کرنے والوں کے لیے سخت سے سخت سزائیں تجویز کرے۔ یہ دھندا صرف بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ختم کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ برائی کا خاتمہ صرف اور صرف ڈنڈے کے زور پر ہی ہوسکتا ہے۔

حصہ