شوہر دل بہار

361

اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے

حضرات جس طرح دنیا میں بندروں کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں اسی طرح شوہروں کی اقسام بھی کچھ کم نہیں ہیں… آپ حیران ہوں گے کہ میں شوہر کے ساتھ بندر کا قافیہ کیوں کر لے آیا تو میرے معزز قارئین کرام! ’شوہر‘ اور ’ بندر‘۔ یہ دونوں الفاظ صرف ہم قافیہ ہی نہیں بلکہ ان دونوں کے دیگر معاملات میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے مشہور فلسفی ڈارون نے اپنے مشاہدات اور تحقیق کی بنا پر ہی تو کہا تھا کہ ’انسان پہلے بندر تھا‘۔بس اس سے تھوڑی سی بھول ہوگئی یا اس نے تکلف سے کام لیا ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اپنی بیوی کا پاس رہا ہو، ورنہ صاف لفظوں میں کہہ دیتا کہ ’’شوہر پہلے بندر تھا‘‘
’’شوہر پہلے بندر تھاـ‘‘۔ یہ نکتہ وہی نکتہ داں سمجھ سکتا ہے جس کی بطور شوہر رسمِ تاج پوشی ادا ہو چکی ہو۔ آئیے ہم شوہروں کی اقسام پر بحث کرتے ہیں۔ تو قارئین کرام سب سے پہلے ان شوہرات کا ذکر ِخیر کرتے ہیں جو اپنی بیگمات کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ لیجیے صاحب ایک مماثلت تو اسی وقت سامنے آگئی… بندر بھی اپنے آقا کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ لفظ شوہرات پڑھ کر یقیناً آپ چونک گئے ہوں گے، دھیرج رکھیں میں اس کی وضاحت کیے دیتا ہوں اگر بیگم کی جمع بیگمات ہوسکتی ہے تو شوہر کی جمع شوہرات کیوں نہیں ہو سکتی ،اس طرح سے ہماری لغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ بھی ہوسکتاہے۔
مندرجہ بالا تحریر میں لفظ اشارہ استعمال ہوا ہے یہ محاورے والا اشارہ ہے اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ادھر بیگمِ گل بہار نے اشارہ کیا اور ادھر شوہرِ دل بہار نے کتھک ڈانس شروع کر دیا… اشاروں سے مراد بیگم کا فرمانبردار ہونا اور بیگم کی فرماں روائی کا قائل ہونا ہے جس طرح کا بھی فرمان صادر ہو وہ واجبُ الاِذعان ہے ۔ رہ گئے خاندان اور دوست احباب تو انہیں کہنے دیجیے… جو یہ کہتے ہیں… ’’تم نے بیگم کو بہت سر پہ بٹھا رکھا ہے‘‘ بھئی ہماری بیگم، ہماری مرضی …اب ہم بیگم کو سر پہ بٹھائیں یا چارپائی پر وہ کون ہوتے ہیں ہمارے معاملاتِ دل شاد میں مداخلتِ دل خراش کرنے والے۔ کسی کے خانگی معاملات میں مداخلت کرنا ایک غیر اخلاقی اور غیر مہذّبانہ فعل ہے‘ ہر کسی کو اس سے گریز کرنا چاہیے۔
اگر کسی والدین کی ایک ہی بیٹی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ شادی کے بعد بھی بیٹی ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی رہے تو انہیں ایک عدد گھر داما د درکار ہوتا ہے۔ بس مذکورہ بالا شوہروں کا مسکن اُس امیرزادی کا گھر ہوتا ہے۔ مجھے اس وقت مرزا عاصی اخترشدّت سے یاد آرہے ہیں۔ موصوف اپنا تلخ مگر شیریں تجربہ اس طرح بیا ن کرتے ہیں…۔

ہم نے سسرال میں قیام کیا
زندگی بھر کچن میں کام کیا

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر جس گھر میں قیام پذیر ہوتا ہے وہ گھر اور اس کے اندر کا سازوسامان بیوی اپنے ساتھ جہیز میں لاتی ہے۔ لہٰذا ا ب شوہرِ محترم پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی تابع داری اسی طرح کرے جس طرح ہمارے حکمرانِ ذی شان IMF کی تابع داری کرکے اپنے باوفا ہونے کا بیّن ثبوت دیتے ہیں۔ چاہے قوم جائے بھاڑ میں آقائوں کو خوش رکھنا ان کا اوّلین فرض ہوتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی حُسن و جمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اور شوہرِ دل دادہ اپنی دل ربا کے سامنے ہر وقت سرِ تسلیم خم کرنے کو تیار رہتا ہے کیا دن کیا رات کیا سردی کیا گرمی‘ بیوی کی ایک آواز پر لبّیک کہنا اس کا شیوہ ہوتا ہے۔ اور اگر خدانخواستہ بیگم صاحبہ کسی بات پر ناراض ہوگئیں تو شوہر کے لیے قیامت سے کم نہیں ہے‘ وہ ہر جتن کرے گا اسے منانے کے لیے چاہے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ صبح سویرے آفس جانے سے قبل اپنا ناشتہ خود تیار کرنا اور بیگم صاحبہ جو اس وقت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہوتی ہیں ان کا ناشتہ تیار کرکے کھانے کی میز پر باقاعدگی سے سجانا… اس کے بعد آفس جانا… یہ ان شوہرِ فرماں بردار کا وتیرۂ خاص ہوتا ہے۔
سب کہاں …کچھ شاعر حضرات بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کام کاج ان سے ہوتا نہیں سارا دن گھر میں پڑے سگریٹ کا دھواں اڑاتے اور شعر کہتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی مشاعرے کا دعوت نامہ مل گیا تو وہاں سے جو رقم حاصل ہوتی ہے اس سے ان کا سگریٹ اور پان با آسانی آ جاتا ہے چولہا ٹھنڈا رہتا ہے بیوی گرم رہتی ہے ہر وقت گھر میں شور بپا رہتا ہے بیوی ان پر حاوی رہتی ہے اس کی ہر بات مانتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی کام کاج نہیں کریں گے صرف شاعری کریں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔ خالد عرفان نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے

میری بیوی آج پھر مجھ پر ہوئی ہے تعنہ زن
بھاڑ میں جائے یہ تیری شاعری یہ تیرا فن

ابھی میرا مضمون یہیں تک پہنچا تھا کہ اندر زنان خانے سے ایک آواز آئی ’’اجی سنتے ہیں‘ کہاں غائب ہیں کب سے ڈھونڈ رہی ہوں‘‘ گویا میں شوہر نہ ہوا بلّی کا بچّہ ہوگیا جسے اس قدر اہتمام سے ڈھونڈا جارہا ہے۔ تو حضرات اس وقت حالات کچھ سازگار نظر نہیں آرہے ہیں لہٰذا میں اپنا مضمون اسی جگہ اختتام پذیر کرتا ہوں۔ اگر زندگی رہی اور حالات سازگار رہے تو انشاء اللہ اگلی ملاقات میں شوہروں کی دوسری اقسام پر بحث کی جائے گی تب تک کے لیے اجازت دیجیے…
میرے لیے دعائے خیر کرنا نہ بھولیے گا۔ اللہ حافظ۔

حصہ