خیرالدین باربروسا

289

ڈاکٹر ارشد مقبول
(دوسرا اور آخری حصہ)

عیسائی حکمران اس ذلت آمیز شکست پر تلملا اٹھے۔ اپنی اس ہار کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے الجزائر کے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔
اسپین کا شکست خوردہ بادشاہ ہر حال میںسلطنت ِعثمانیہ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جرمنی اور اٹلی کے عیسائی حکمرانوں کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا۔ اس طرح اس نے ایک بہت بڑا بحری بیڑہ تیار کیا اور ترکی کی جانب روانہ ہو گیا۔ پچھلی جنگ کے تلخ تجربے نے اسے ہوشیار کر دیا تھا۔ اس نے ہر اول دستے کے ہر جہاز کے عرشے پر اور مستول کے ساتھ مسلمان قیدیوں کو باندھ دیا۔ وہ مسلمانوں کی تیر اندازی اور آتشیں پتھروں کی بوچھاڑ سے بہت خائف تھا۔ مسلمان قیدیوں کو جہاز پر باندھ کر وہ چاہتا تھا کہ باربروسا کی فوج کو تیر برسانے اور پتھر پھینکنے سے باز رکھ سکے اور آسانی سے خلیج باسفورس میں داخل ہو جائے۔
باربروسا کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ تیروں اور آتشیں پتھروں سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے اس نے اپنے سپاہیوں کو تیر اندازی سے روک دیا اور اپنے دو ناکارہ جہازوں کو آگ لگا کر دشمن کے بحری بیڑے کی جانب دھکیل دیا۔ ہوا خاصی تیز تھی اور اس کا رُخ بھی دشمن کی جانب تھا، اس لیے جلتے ہوئے جہاز تیزی سے دشمن کی جانب بڑھنے لگے۔ باربروسا کی اس چال سے عیسائی فوج میں کھلبلی مچ گئی۔ عیسائی بحری بیڑے کا امیرالبحر گھبرا گیا، وہ باربروسا کا مقصد نہ سمجھ سکا۔ اسی افراتفری میں اس نے اپنے جہازوں کو رُخ بدلنے کا حکم دے دیا۔
باربروسا اسی وقت کے انتظار میںتھا۔ اس نے اس لمحے سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ابھی دشمن جلتے ہوئے جہازوں کی زد سے نکلا بھی نہ تھا کہ باربروسا نے دونوں جانب سے بھرپور حملہ کر دیا۔ عیسائی فوج اس چانک حملے سے حواس باختہ ہوگئی۔ مسلمان سپاہی تلواریں سونت کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کرتے ہوئے عیسائیوں کے جہازوں پر کود گئے۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ بجائے مقابلہ کرنے کے عیسائیوں کو جان کے لالے پڑ گئے اور گھبرا کر انہوں نے سمندر میں چھلانگیں لگانا شروع کردیں۔ باقی ماندہ فوج کو باربروسا کے سپاہیوں نے چن چن کر ختم کرنا شروع کردیا۔ زبردست جانی نقصان کے بعد عیسائی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔
مکمل فتح حاصل کرتے ہی باربروسا نے تمام مسلمان قیدیوں کو رہائی دلوائی۔ انہی قیدیوں میں وہ بوڑھی عورت بھی تھی جس کی نصیحت نے باربروسا کی زندگی بدل دی تھی۔ وہ باربروسا کو ڈاکو کے بجائے مسلمان امیر البحر کی حیثیت میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے دعائیں دینے لگی۔ تمام مسلمانوں کو باربروسا نے بحفاظت وطن روانہ کر دیا۔

حصہ