محمد صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معیشت دان

1296

پاکستان سمیت پوری دنیا میں اس وقت سب سے بڑا بحران معیشت کا ہے۔ کورونا کی وجہ سے دنیا کی معیشت دائو پر لگی ہوئی ہے۔ کسی کی ختم، کسی کی جزوی متاثر اور کسی کی بحالی کی جانب گامزن ہورہی ہے مگر مسائل ابھی بھی بہت ہیں۔ اقوام معاشی مسائل کے حل کے لیے سابقہ ادوار میں کچھ اقدامات سے بھی رہنمائی لیتی ہیں۔۔۔ ایسے ہی ایک ایسی شخصیت کہ جس کا ہر شعبہ زندگی سے متعلق سیرت کو نہ صرف مخالفین نے تسلیم کیا بلکہ فالو کرتے ہوئے اپنے مسائل کا حل بھی پایا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر شعبے کی طرح ایک بہترین معیشت دان بھی تھے، ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ہم یقینا معاشی بحرانوں سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل انسانی معاشرہ ظلمات کی پستیوں میں گرا پڑا تھا۔ طاقتور ہر چیز پر حاوی اور کمزور کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ قانون طاقت کے تابع تھا۔ معاشرے میں معیشت کے لیے کوئی خاص اصول مرتب نہ ہوئے تھے۔ دنیائے عرب میں معیشت کے لیے سب سے زیادہ انحصار تجارت پر تھا۔ کچھ ظالم وجابر قبائل لوٹ کھسوٹ سے بھی پرہیز نہ کرتے۔امن و سلامتی صرف حرمت والے مہینوں میں ہی نصیب ہوتا۔ جوا اور کسادبازاری عام تھی۔ سود وبا کی طرح پھیل چکا تھا۔ صعنت وحرفت کے میدان میں عرب ساری دنیا سے پیچھے تھے جو چند صنعتیں قائم تھیں، وہ حیرہ، یمن اور شام سے متصل علاقوں میں تھیں۔ البتہ عرب خواتین سارا سال سوت کاتتیں تھیں۔
یہ لوگ جو بھی کماتے ان کا زیادہ تر مال لڑائیوں، جنگ وجدل میں خرچ ہوجاتا تھا اور خود یہ لوگ مفلوک الحال ہی رہتے۔ کسمپرسی و فقر و فاقہ ان کی ذاتِ کا حصہ رہتا۔ معیشت کی اس اندھیر نگری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چراغ کے مانند روشن ہوئے کہ چند برسوںمیں عرب نے معیشت کے میدان میں اس قدر ترقی کی کہ دینے والے، مال جھولیوں میں بھر کر پھرتے لیکن لینے والا کوئی نہ آتا۔
اس مبارک ہستی نے بچپن میں ہی معیشت کے میدان میں قدم رکھ دیا اور بکریاں چرانا شروع کر دیں کیونکہ والد کا سایہ پیدائش سے قبل ہی سر سے اٹھ چکا تھا۔ بطور میراث کوئی خاص جائداد نہیں ملی تھی۔ تھوڑا عرصہ دادا کی کفالت میں رہے۔ دادا کی وفات کے بعد چچا کی کفالت میں آ گئے۔ چچا کا کنبہ بڑا اور آمدن کم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلام نے کم عمری میں ہی چچا کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا اور معاشی معاون بن کر یہ ثابت کر دیا کہ جب انسان خود کمانے کے قابل ہو جائے تو وہ دوسروں پر بوجھ نہ بننے ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا، کسی شخص نے کبھی نہیں کھایا‘‘، (البخاری)۔
بکریاں چرانا عرب میں عار نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ رواج تھا۔ یہ دوسری حکمتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں کامیاب معیشت کا فلسفہ بھی سکھاتا ہے۔ بکریاں چرانے والے شخص میں جفا کشی، تحمل و بردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں انسان کو ایک کاروباری شخصیت بننے کے لیے اپنے اندر مذکورہ صفات پیدا کرنا لازمی ہے۔ بکریاں چرانا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے۔ اس طرح معیشت کے راستے میں ہوشیاری اور بیدار مغزی سے کام لینا ہوگا کہ کہیں وہ تمہیں بے ایمانی اور حرام کی طرف نہ اکسائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت سیکھنے کے لیے اپنا پہلا تجارتی سفر بچپن میں اپنے چچا کے ساتھ ملک شام کی طرف کیا لیکن راستے میں میسرہ نامی راہب کے کہنے پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر، آپ کے چچا نے واپس بھیج دیا۔ ملک شام کی طرف دوسرا سفر بطور تاجر، حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی تجارتی اسفار کیے۔ ان میں اپنے اخلاق کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق دیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو گئے کہ لوگوں میں آپ صادق وامین کے لقب سے پہچانے جانے لگے۔
تجارتی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل حمیدہ امت کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی شرکاء سے لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرتے، بحث و تکرار سے اجتناب برتتے، ایفائے عہد کی پاسداری کا خیال رکھتے، مال کی خوبی کے ساتھ خامی سے بھی آگاہ فرماتے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف فریضہ رسالت کی طرف مبذول کر دی۔ کیونکہ بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قسم کی معاشی مشغولیت کا تذکرہ نہیں ملتا۔ البتہ دین کے دیگر شعبوں کی طرف رہنمائی کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں رہنمائی فرمائی۔ اس میدان میں کامیابی کے ساتھ گزر جانے والوں کو جہاں بشارتیں سنائیں تو وہاں اس کے چور ڈاکووں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر سیدھی راہ پر لوٹ آئے کی طرف متوجہ بھی کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو ایک حصہ عبادات کے بارے میں اور باقی تین حصے معاملات کے بارے میں ہدایات واحکام ملیں گے۔ حضرت رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول سب سے زیادہ اچھی کمائی کون سی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور وہ تجارت جس میں تاجر بے ایمانی اور جھوٹ سے کام نہیں لیتا۔ (الحدیث)۔
صالح تاجر کے اجرو ثواب کے بارے میں بشارت دی کہ ’’سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا‘‘۔
تجارت میں سود ایسی چیز ہے جو برکت کو بھی ختم کردیتا اور کبائر گناہ کا بھی مرتکب ٹھہراتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مسلمان پر لعنت نہ کی لیکن سود لینے اور کھانے والے پر، سود دینے اور کھلانے والے پر اور اس کے لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ،یہاں تک کہ سود کو زنا سے بھی زیادہ سخت قبیح فعل قرار دیا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آئے تو انصار کے یہاں صدیوں سے آباد ہونے کے باوجود، معیشت یہودیوں کے کنٹرول میں تھی۔ انصار محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کرنے کے باوجود مفلوک الحال اور یہودیوں کے سودی قرضوں میں جھکڑے ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی نظام ختم کر کے انہیں سود سے نجات دلائی اور مدینہ کے بازار کی ترتیب اسلامی طرز پر بنیاد رکھی۔ جدید معاشی اصول وضع کیے۔ یہاں تک کہ دور حاضر کی معیشت کی کامیابی بھی انہی اصولوں کی بنا پر ہے۔
مسلمانوں پر کسی قسم کا کوئی لگان نہ تھا۔ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بازار میں اپنی چیزیں براہِ راست فروخت کرتے۔ اس طرح انہیں اپنی محنت کا معقول معاوضہ ملتا۔ قیمتیں مقرر کرنے سے منع فرما دیا کیونکہ اس سے ذخیرہ اندوزی کا راستہ کھلتا ہے۔ ذخیرہ اندوز قیمتیں بڑھنے کے انتظار میں اجناس یا مال روک لیتا ہے۔ پھر مہنگے داموں فروخت کرتاہے اور لوگ مہنگے داموں بھی خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا بلکہ وقت پر بازار میں لاتا ہے تو وہ اللّہ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہے اسے اللہ رزق دے گا اور جو شخص ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ لعنت کا مستحق ہے، (ابن ماجہ)۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا’’جو شخص قیمتیں بڑھانے کے لیے 40 روز تک ذخیرہ اندوزی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے لا تعلق اور اللہ اس سے لا تعلق ہو گیا۔ (الحدیث)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی امور میں مال کا عیب چھپانے سے منع فرما دیا۔ دھوکا دینے والوں کو مسلمانوں کی فہرست سے خارج کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کی خریدوفروخت کو بھی حرام قرار دیا تاکہ معاشرے میں غلاظت نہ پھیلے۔ کاروبار کو مشکل بنانے والے قبیح فعل سود کو عملی طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ خرید وفروخت سونے، چاندی ،اور اجناس کے بدلے میں کرنے کا رواج دیا۔ یہ کاغذی کرنسی تو یہودیوں کا چھوڑا ہوا سوشہ ہے جو دوسروں کے ہاتھوں میں بے مول کاغذ کے ٹکڑے پکڑا کر ، خود سونے، چاندی اور اجناس پر قابض ہیں۔ معیشت کے میدان میں مسلمانوں کو دوبارہ بام عروج تک پہنچنے کے لیے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وضع کردہ قوانین کو ہی اپنا نا ہوگا۔

حصہ