اس وقت ملک میں اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں اسلامی نظام نافذ ہو نا چاہیے‘ اس لیے اس مسئلے پر مزید بحث و مباحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اب تو سوال یہ ہے کہ اس نظام کو کون نافذ کرے گا؟ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے سب اس بات کی مدعی ہیں کہ یہ مبارک کام وہ برسرِ اقتدار آکر سر انجام دے ڈالیںگی۔ ان میں ایسے پُرجوش دعوے دار بھی ہیں جو چند مہینے سے لے کر چوبیس گھنٹے کی مدت تک اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں‘ لیکن انہی اعلانات سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ مسلمان صدیوں سے اسلامی نظام کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ ایسا ہی منہ کا نوالہ ہوتا تو مسلمانوں کو صدیوں تک اس کا انتظار کرنے کی ضرورت نہ پڑتی‘ اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ضروری ہوجاتا ہے کہ آیا ہماری سیاسی پارٹیاں اسلامی نظام کا کوئی تصور رکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ اور رکھتی ہیں تو ان میں اس کے نفاذ کی صلاحیت موجود ہے یا نہیں؟ اس مسئلے پر بہت گہرائی میں غوروفکر کی ضرورت ہے تاکہ ہم ہر تیز رو کے ساتھ تھوڑی دیر چلنے کے بجائے واقعی اپنے راہبروں کو پہچان سکیں۔ پچھلے چند برسوں میں جو تجربات ہمارے سامنے آئے ہیں‘ ان کا تجزیہ کیا جائے تو ہم بہت کچھ صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ قومی اتحاد کی تحریک کے آخری دنوں میں پیپلزپارٹی نے بھی اسلامی نظام کے قیام کا دعویٰ کیا تھا اور اس سلسلے میں فوری طور پر چند اقدامات بھی کرائے تھے‘ لیکن پیپلزپارٹی کا خمیر جن عناصر سے اٹھا تھا اور سات سالہ دورِ حکومت میں اس کا جو کردار رہا تھا‘ اُسے دیکھتے ہوئے عوام نے پیپلزپارٹی کے دعوے پریقین نہیں کیا اور اس کے تمام اعلانات اور اقدامات کو مسترد کیا۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد صورتِ حال یہ پیدا ہوئی کہ خود مارشل لا حکومت نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کر دیا اور قومی اتحاد کے علاوہ ایک اور قوت پیدا ہو گئی جو قوم کے نصب العین کو پورا کرنے کی مدعی بن گئی۔ اتفاق سے مارشل لا حکومت کی سربراہی ایک ایسے فرد کے ہاتھ میں تھی جن کے اسلامی رجحانات عوام کو معلوم تھے چنانچہ صدر ضیا الحق کی شخصیت کے ذریعے مارشل لا حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ اسلامی نظام کے سلسلے میں جو کچھ کہہ رہی تھی عوام نے اسے سنجیدہ سمجھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ خود قومی اتحادکو یہ کہنے کی زحمت نہ ہوئی کہ مارشل لا حکومت اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے۔ چنانچہ قومی اتحاد کو مارشل لا حکومت سے دستِ تعاون دراز کرنا پڑا اور اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ مارشل لا حکومت اور قومی اتحاد مقصد کی حد تک ایک دوسرے کے ہم نوا اور ہم خیال ہیں۔ صدر ضیا الحق نے بہت جلد ایسے اقدامات شروع کر دیے جنہیں عوام نے پسندیدگی سے دیکھا اور قومی اتحاد نے بھی انہیں سراہا‘ لیکن دراصل یہ سب کچھ ایک سراب سے زیادہ نہ تھا۔ صدر ضیا الحق کو ان کے اخلاصِ نیت کا ثواب جو کچھ ملے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی عبوری حکومت اس قابل نہیں تھی کہ اس بارِ گراں کو اپنے کاندھوں پر اٹھا سکتی۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ مارشل لا حکومت کے پاس اسلامی نظام کا کوئی واضح تصور موجود نہیں تھا‘ دوسرے وہ اس کے طریقۂ کار سے بھی ناواقف تھی۔
تیسری سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مارشل لا حکومت یہ کام انہی لوگوں کے ذریعے لینا چاہتی تھی جو اسے سابقہ حکومت کے کُل پرزوں کی حیثیت سے ملے تھے۔ مختصر لفظوں میں اسلامی نظام کی نیت تو موجود تھی لیکن وہ اسباب موجود نہیں تھے جو عملی نتیجہ برآمد کرتے ہیں۔ چنانچہ مارشل لا حکومت نے جو اقدامات کیے وہ وقتی واہ واہ کے باوجود مؤثر ثابت نہیں ہوئے اور بہت جلد عوام نے محسوس کر لیا کہ مارشل لا حکومت کے نسخے اس کے درد کا درماں نہیں بن سکتے ہیں اب نظریں لوٹ پھر کر پھر قومی اتحاد کی طرف جانے لگیں‘ لیکن اس دوران یہ المیہ ظہور پذیر ہو چکا تھا کہ قومی اتحاد‘ جو بھٹو کے زوال کا سبب بنا تھا اور عوامی توقعات کی ایک مضبوط دیوار بن کر ابھرا تھا‘ اُس میں شگاف پڑنے شروع ہوگئے‘ یہاں تک کہ اینٹیں لڑھک لڑھک کر الگ ہونے لگیں اور ایک بنی بنائی عمارت ڈھ کر رہ گئی۔ ہم ٹھیک اسی حالت میںہیں جب ہمارے سامنے یہ سوال موجود ہے کہ اسلامی نظام کو کون نافذ کر سکتا ہے اور وہ کون سی قوت ہے جس پر ہم اس مقصد کے لیے اعتبار کرسکیں اور اسے اپنی توقعات کا مرکز بنا سکیں۔
اسلامی نظام کون نافذ کرے گا؟ یہ سوال ایک مخصوص پس منظر میں اٹھایا گیا ہے اور اس مقصد اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ ملک کی ان تمام سیاسی پارٹیوں میں جو اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کرتی ہیں‘ اخلاصِ نیت سے قطع نظر وہ کون سی پارٹی ہے جو اسلامی نظام کرنے کی اہلیت رکھتی ہے جس طرح ایک چیز کے بہت سے امیدواروں میں ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ کون سا امیدوار وہ شرائط بہتر سے بہتر طور پر پوری کرتا ہے جو اس چیز کے حصول کے لیے لازمی ہیں۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں کے بارے میں بھی ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کون سی پارٹی اسلامی نظام کے نفاذ کی زیادہ سے زیادہ شرطیں پوری کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں پہلے یہ معلوم کرنا ہوگا کہ وہ کون سی شرائط ہیں جن کے بغیر کوئی پارٹی اسلامی نظام نافذ نہیں کرسکتی چاہے وہ کتنی ہی مخلص کیوں نہ ہو اور چاہے کتنے ہی جوش و خروش سے کام نہ لے اور پھر اس کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ کون سی پارٹی کس حد تک ان شرائط کو پورا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چینی اشتراکی انقلاب کے بانی مائوزے تنگ نے اشتراکی انقلاب کی تین شرطیں بیان کیں (1) اشتراکی پارٹی جو اشتراکی فلسفے کے تحت قائم کی جائے۔ (2) اشتراکی قیادت جو اشتراکی فلسفے کی تعبیر و تفسیر وقت کے تقاضوں کے مطابق کر سکیں۔ (3) پارٹی کے اراکین جو اشتراکی قیادت اور اشتراکی فلسفے کے تحت انقلاب برپا کر سکیں اور انقلاب کے بعد انقلاب کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے سکیں۔
مائوزے تنگ کے نزدیک یہ اجزا اشتراکی انقلاب کی لازمی شرائط ہیں جن میں سے کسی ایک کی عدم موجودگی انقلاب برپا کرنے کے عمل کو ناممکن بنا سکتی ہے۔ ہمیں بھی اسلامی انقلاب کی لازمی شرائط کا تعین کرنا پڑے گا اور اپنے فیصلے کی بنیاد ان شرائط کی تکمیل پر رکھنی پڑے گی۔ مولانا مودودیؒ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے پہلی لازمی شرط اسلام کا علم ہے۔ ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہونے چاہئیں جو اسلام کے حقیقی رویے سے واقف ہوں‘ اس کے اصول و عقائد کا تفصیلی علم رکھتے ہوں اور پھر اس کے ساتھ ان میں ایسی بصیرت وضع کرسکیں جو زندگی کے ہر شعبے کو اسلام کے سانچے میں ڈھال دے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اسلامی انقلاب کی دوسری ضرورت ایسے لوگ ہیں جو اپنی سیرت اور کردار کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات کا نمونہ ہوں اور ان کی سیرت کو مختلف آزمائشوں کے ذریعے جانچا پرکھا گیا ہو اور درست پایا گیا ہو۔ گویا مولانا کے نزدیک اسلامی انقلاب کی کم از کم شرطیں تین ہیں۔
-1 اسلامی انقلاب کا پروگرام۔
-2 وہ قیادت جو اسلام کا مکمل علم رکھتی ہو‘ اپنے زمانے کے تقاضوں سے واقف ہو اور اسلام کو اپنے حالات کے تقاضوں کے اندر رہ کر نافذ کر سکے۔
-3 اسلامی پارٹی کے اراکین جو اسلامی سیرت اور کردار رکھتے ہوں اور اسلام کے لیے کام کرنے کے جوش و جذبے سے سرشار ہوں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر نظریاتی انقلاب کے لیے چار اجزا کی یک جائی کی ضرورت ہے۔(1) نظریہ (2) فعال اور نظریاتی اسلحے سے لیس قیادت (3) فرد کا احساسِ ذمے داری (4) اپنے زمانے کا شعور۔ اب ان شرائط کی روشنی ہی میں ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ کون سی پارٹی وہ نظریاتی انقلاب برپا کر سکتی ہے جو ہمارا مقصد ہے؟ ہم نے پچھلے صفحات میں کہا تھا کہ فوجی حکومت اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی اور اس کی وجہ اخلاصِ نیت کی کمی نہیں تھی بلکہ ان لازمی اجزا کی عدم موجودگی۔ صدر ضیا الحق اسلام سے گہری اور شدید محبت رکھتے ہیں‘ مگر وہ نظریاتی طور پر پوری طرح سیاسی نہیں تھے۔ انہیں اسلام کے انقلابی تقاضوں کا علم نہیں تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس زمانے میں اسلام کے نفاذ کا طریقۂ کار کیا ہے۔ دوسرے خود ایک فوجی عہدے دار ہونے کی وجہ سے وہ ایک ایسے نظام کا حصہ تھے جو اسلام کی انقلابی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا تھا۔ تیسرے ان کے پیچھے کوئی ایسی پارٹی نہیں تھی جس کے ذریعے وہ انقلاب کے عمل کو بروئے کار لاسکیں۔ گویا نظریاتی انقلاب کی چاروں لازمی شرائط میں سے کوئی ایک بھی موجود نہیں تھی۔ نتیجہ لازماً وہی نکلنا چاہیے تھا جو نکلا۔ انہوںنے اخلاصِ نیت کے ساتھ چند اقدامات کیے اور مختلف و متضاد عناصر کی مدد سے اسلامی نظام کے نفاذ کی کوشش کی‘ لیکن حاصل ایک طرح مایوسی کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔ فوجی حکومت کی طرح پیپلزپارٹی بھی اس عظیم مقصد کے حاصل کرنے کے مؤقف میں نہ کبھی تھی نہ آج ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگی۔ اس کی وجہ بھی اسلامی انقلاب کے عناصرِ چہارگانہ سے اس کی محرومی ہے۔ نیز پیپلزپارٹی تو اپنے اقتدار کے آخری زِمانے کے سوا کبھی اسلامی نظام کے نفاذ کی مدعی نہیں رہی‘ اس لیے اس کا تجزیہ ہی غیر ضروری ہے‘ لیکن اس سے پہلے بلکہ قیامِ پاکستان کی تحریک اور قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں مسلم لیگ سے یہ توقع ضرور کی جاتی تھی کہ وہ حصول پاکستان کے حقیقی مقصد کو پورا کرے گی‘ لیکن جیسا کہ تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ امید ایک سراب سے زیادہ نہ تھی۔ چنانچہ مسلم لیگ یہ توقع کبھی پوری نہیں کر سکی‘ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ یہ پارٹی نظریاتی پارٹی نہیں تھی اور نظریاتی انقلاب کی کسی بھی شرط کو پورا نہیں کرتی۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں اسلامی نظام کی توقع کس سے کی جاسکتی ہے اورکس سے نہیں؟
قومی اتحاد سے جو جماعتیں الگ ہوئی ہیں وہ قومی اتحاد میں رہتے ہوئے اسلامی نظام کے مشترک مقصد پر متفق ہیں‘ لیکن ان کا علیحدہ علیحدہ تجزیہ کیا جائے تو ان کی جزوی تصویر اس ملکی تصویر سے بہت مختلف نظر آتی ہے جو قومی اتحاد کے اندر رہ کر بنتی تھی۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ان میں سے سب سے کم زور پارٹی این ڈی پی ہے جو اسلامی انقلاب کی کسی بھی شرط کو پورا نہیں کرتی بلکہ اپنے اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے ایسے عناصر پر مشتمل ہے جو اسلامی انقلاب کے راستے میں رکاوٹ ہی بن سکتے ہیں‘ ممد و معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ جہاں تک اسلامی نظام کے نفاذ کا تعلق ہے‘ عوام کو اس پارٹی سے کوئی توقع نہیں اور یہ پارٹی خود بھی اپنی علیحدہ حیثیت میں ایسی کوئی توقع پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے۔ قومی اتحاد سے الگ ہونے والوں میں دوسری پارٹی تحریک استقلال ہے۔ یہ جماعت اپنی ساخت اور سیاسی ڈھانچے کے اعتبار سے مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کا ایک ملا جلا مرکب ہے اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس قسم کی ایک پارٹی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ کسی صورت میں بھی اسے ایک نظریاتی پارٹی نہیں کہہ سکتے اور اس لیے یہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرح نظریاتی انقلاب کی کسی بھی شرط پر پوری نہیں اتری‘ نہ اس کے پاس کوئی نظریاتی پروگرام ہے‘ نہ نظریاتی قیادت‘ نہ نظریاتی کارکن۔ ممکن ہے یہ پارٹی مغربی ممالک کی جمہوری پارٹیوں کی طرح ایک غیر ترقیاتی پروگرام کو پورا کر سکتی ہو‘ لیکن اس سے اسلامی نظام کے نفاذ کی توقع عبث ہے۔ اسلامی نظام اس کا مقصد اور اس کا بنیادی محرک عمل نہیں ہے بلکہ وہ اسے صرف ایک سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس کا زیادہ سے زیادہ مقصد اسلام کا نام لے کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہے۔ اب رہ گی جمعیت علمائے پاکستان۔ ہماری بدقسمتی سے جو پارٹیاں قومی اتحاد سے الگ ہوگئی ہیں‘ میں ان میں اسلامی نظام کے نقطۂ نظر سے سب سے زیادہ اس پارٹی کو اہمیت دیتا ہوں۔ جہاں تک اسلامی انقلاب کی نظریاتی بنیاد کا تعلق ہے‘ یہ پارٹی ایک مضبوط حیثیت کی مالک ہے۔ زیادہ واضح لفظوں میں یہ علما کی پارٹی ہے جو اسلام کا کماحقہ علم رکھتے ہیں اور مذہبی اعتبار سے عوام پر ان کا اتنا گہرا اثر ہے کہ شاید کسی اور مذہبی جماعت کا نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پارٹی اسلامی انقلاب کی پہلی شرط پوری کرتی ہے۔ یعنی اس کے پاس اسلامی انقلاب کی نظریاتی یا مقتضیا تی اساس موجود ہے۔ دوسرے مرحلے پر اس کے پاس ایک فعال قیادت بھی ہے جو نظریاتی طور پر مسلح ہونے کے علاوہ عوام کو متحرک بھی کر سکتی ہے‘ لیکن اس قیادت میں ایک نقص ہے کہ نظریاتی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود سیرت اور کردار کے اعتبار سے اس پارٹی کی قیادت مشتبہ نظر سے دیکھی جاتی ہے اور بہت کم لوگ یقین رکھتے ہیں کہ چندافراد کو چھوڑ کر اس قیادت کے تمام لوگ اسلامی صالحیت کے کڑے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ پارٹی کی ساخت کے اعتبار سے مسلم لیگ‘ تحریک استقلال اور دوسری پارٹیوں کی طرح یہ بھی کوئی نظریاتی پارٹی نہیں ہے‘ یعنی اس کے کارکن اسلامی سیرت و کردار کی شرائط سے کئی درجہ دور ہیں جس کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پارٹی اپنی قیادت کو چھوڑ کر اسلامی انقلابی سیرت کی مالک ہے۔ تیسری سب سے بڑی یہ ہے کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ اس کی روایتی تعبیر سے واقف ہونے کے باوجود اس کے انقلابی تقاضوں کا علم نہیں رکھتی اور نہیں جانتی کہ عہدِ حاضر میں اسلامی انقلاب کی تحریک اور اسلامی نظام کی تعمیر کے لیے کن عناصر کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پارٹی اسلام کو تو جانتی ہے مگر اپنے زمانے کا کوئی شعور نہیں رکھتی اور جس طرح مسجد کے کٹھ ملا تعلیم یافتہ طبقے کی نفسیاتی‘ ذہنی‘ جذباتی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے اور ان کی فہم کے مطابق ان کی زبان میں گفتگو نہیں کرسکتے۔ اسی طرح یہ پارٹی اسلام عہد حاضر میں پیش کرنے اور عمل میں لانے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ مختصر لفظوں میں اس پارٹی کے پاس اسلامی انقلاب کی دو شرطیں موجود ہیں ۔ نظریاتی بنیاد اور فعال قیادت، مگر مزید دو شرطیں یعنی اس انقلاب کو برپا کرنے والے کارکن اور اسلام کی انقلابی تعبیر موجود نہیں، چناچہ اس کا مقصد یعنی اسلامی نطام کے دوسرے مدعیوں سے مختلف نہیں ہے۔ یہ پارٹی برسرِ اقتدار آ جائے تو اسلامی نظام کو نہ سرف نافذ نہیں کر سکے گی بلکہ شاید آئندہ بھی اس کے امکان کو کم سے کم تر کر دے گی ، کیوں کہ عوام ایک تجربے کے ناکام ہونے کے بعد مسلسل نا کام تجربات کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے ۔