سسٹر امینہ
ایک زمانہ تھا کہ میں اتوار کا دن آرام کرنے کے بجائے کسی سنڈے اسکول میں بچوں کو عیسائیت کے اسباق پڑھاتی تھی۔ آج اللہ کے کرم سے میں اتوار کا دن اسلامک سنٹروں میں گزارتی ہوں اور وہاں مسلمان بچوں کو دینی تعلیم دینے کے علاوہ دیگر مضامین بھی پڑھاتی ہوں۔ لاس اینجلس میں مختلف مقامات پر مختلف نوعیت کی نمائشوں، کانفرنسوں اور مجالس مذاکرات کا اہتمام کر کے غیر مسلموں تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ میں نے آپ لوگوں کو تبدیلی مذہب کے لیے نہیں بلایا، بلکہ اس لیے زحمت دی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں اسلام سے کیوں وابستہ ہوں، زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ اور انسان اور اللہ کا باہمی تعلق کیا ہے؟ میں بحمد للہ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔
یہ بھی اللہ ہی کی توفیق ہے کہ میں نے مختلف مقامات پر مسلم وومن اسٹڈی سرکل قائم کیے ہیں، جن میں غیر مسلم خواتین بھی آتی ہیں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ اسی امریکا میں آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے عورتوں کی باقاعدہ خرید و فروخت ہوتی تھی اور ایک عورت کو گھوڑے سے بھی کم قیمت پر یعنی ڈیڑھ سو روپے میں خریدا جا سکتا تھا۔ بعد کے ادوار میں بھی عورت کو باپ یا شوہر کی جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ ملتا تھا، حتیٰ کہ اگر وہ شادی کے موقع پر ایک لاکھ ڈالر شوہر کے گھر میں لے جاتی اور چند ہی ماہ بعد طلاق حاصل کرنا پڑتی تو وہ ساری رقم شوہر کی ملکیت قرار پاتی تھی۔ تعلیم کے مواقع بھی اسے میسر نہ تھے۔ اور اس ایٹمی و سائنسی دور میں بھی صورت حال یہ ہے کہ امریکا میں عملاً عورت دوسرے درجے کی شہری ہے۔ وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے، مگر معاوضہ ان سے کم پاتی ہے، وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ پندرہ برس کی کم عمر کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے اور اسے خود ملازمت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہمہ وقت گھیرے رکھتا ہے اور طلاق کے بعد جو یورپین زندگی کا لازمہ بن گئی ہے، نہ والدین اور نہ بھائی اس کا غم بانٹتے ہیں۔ بچوں کی ذمہ داری بھی اس کے سر پڑتی ہے اور سابق شوہر بچوں کا بمشکل تیس فی صد خرچ برداشت کرتے ہیں، یعنی پچاس ڈالر ماہوار کے حساب سے ادا کرتے ہیں، جس سے ایک بچے کا جوتا خریدنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
میں خواتین کو بتاتی ہوں کہ اس کے برعکس اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے خواتین کو جو حقوق عطا کیے تھے، اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بحیثیت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں اسے خاص احترام اور حقوق حاصل ہیں۔ باپ، خاوند، بھائیوں اور بیٹوں کی جائیداد سے اسے حصہ ملتا ہے اور طلاق کی صورت میں اولاد کی کفالت کا ذمہ دار شوہر ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر خاوند کی حیثیت کے مطابق اسے معقول رقم (یعنی مہر) کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ خاوند کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھے اور اس کی غلطیوں کو معاف کرے اور اس باپ کے لیے جنت میں اعلیٰ ترین انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے، جو اپنی بچیوں کی محبت اور شفقت سے پرورش کرتا اور ان کی دینی تربیت کر کے انھیں احترام سے رخصت کرتا ہے اور اس اعزاز کی تو کہیں ادنیٰ سی بھی مثال نہیں ملتی کہ ماں کے قدموں میں جنت قرار دی گئی ہے اور باپ کے مقابلے میں اسے تین گنا واجب الاحترام قرار دیا گیا ہے۔
میں جب یہ تقابلی موازنہ کرتی ہوں تو امریکی عورتوں کے منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے ہیں۔ وہ تحقیق کرتی ہیں ، مطالعہ کرتی ہیں اور جب انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ میں صحیح بات کرتی ہوں اور واقعتاً اسلام نے عورت کو غیر معمولی حقوق و احترام عطا کیا ہے، تو وہ اسلام قبول کر لیتی ہیں، چنانچہ اللہ کا شکر ہے کہ اب تک میرے ذریعے سے تقریباً چھ سو امریکی خواتین دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکی ہیں۔
خواتین میں تبلیغ کے ساتھ ساتھ میرا ہدف شعبہ تعلیم ہے، جس کے نصابات میں اسلام کے بارے میں طرح طرح کے اعتراضات و الزامات ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی جاوبے جا اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے، چنانچہ میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس تکلیف دہ صورت حال کی اصلاح کرنی چاہیے، اس کے لیے میں اکیڈمی آف ریلی جیس سائنس کے کار پردازوں سے ملی، یہی لوگ نصابات اور ٹی وی پروگراموں میں اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے اصرار کے ساتھ ان سے بحث مباحثہ کیا اور انھیں قائل کیا کہ اگر نشان دہی کر دی جائے تو وہ متعلقہ حصوں کی اصلاح کر دیں گے، چنانچہ میں نے مسلمان والدین کو توجہ دلائی۔ امریکا میں مختلف قسم کی انجمنوں سے رابطہ قائم کیا اور انھیں آمادہ کیا کہ وہ بچوں کی نصابی کتب میں غلط اور قابل اعتراض باتوں کی نشان دہی کریں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اسلامک فاؤنڈیشن (IFOD) کا قیام عمل میں آیا، جس کے تحت نصابی کتابوں میں اسلام کے خلاف منفی اور قابل اعتراض مواد کی نشان دہی کی جاتی ہے، اسی طرح امریکا کی یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون یہودی، عیسائی اور ہندو پڑھاتے ہیں۔ ہم نے IFOD کی وساطت سے یہ مطالبہ کیا کہ اسلامیات کی تدریس پر صرف مسلمان اساتذہ کا تقرر کیا جائے، مجھے امید ہے کہ ان شاءاللہ ہم یہ مطالبہ منظور کرا لیں گے۔
آخر میں یہ خوش کن خبر بھی سناتی جاؤں کہ میرا وہ خاندان جس نے میرا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا تھا، اللہ کے فضل سے اس کے بیش تر افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ میرے والد جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھے، مسلمان ہو چکے ہیں اور والدہ ، سوتیلے والد، دادی، دادا اور خاندان کے کئی دیگر افراد بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ میرا وہ بیٹا جو اپنے عیسائی باپ کے پاس رہتا تھا اور جس کی مذہبی تربیت عیسائیت کے عین مطابق بڑے اہتمام سے ہو رہی تھی، ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا : ”ممی! اگر میں اپنا نام تبدیل کر کے فاروق رکھ لوں تو آپ کے نزدیک کیسا رہے گا؟” میں پہلے حیرت اور پھر مسرت کے بے پناہ احساس سے سرشار ہو گئی، میں نے اسے گلے سے لگا لیا، پیار کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے فوراً ہی کلمہ پڑھ لیا۔ فاروق اب بھی باپ کی تحویل میں ہے، مگر راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔ میری وہ بہن جو مجھے پاگل سمجھتی تھی، ایک تقریب میں اس نے میری تقریر سنی، تو بے اختیار تعریف کرنے لگی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ وہ بھی ایک روز دائرۂ اسلام میں آ جائے گی۔یہ بھی اللہ کی عنایت ہے کہ امریکا میں رہتے ہوئے باپردہ زندگی گزار رہی ہوں۔ اس ملک میں چہرے پر نقاب ڈال کر ادھر ادھر جانا تو ممکن ہی نہیں کہ اس سے بے شمار مشکلات آڑے آتی ہیں، تاہم چہرے اور ہاتھوں کے سوا میں سارے جسم کو ڈھیلے لباس میں مستور رکھتی ہوں، تاہم اس میں بھی قدم قدم پر تعصب اور تنگ نظری کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک مرتبہ میں اسی لباس میں ایک بینک میں گئی تو جب تک وہاں موجود رہی، بینک کا گن مین میرے سر پر رائفل تانے کھڑا رہا۔ ایک پی ایچ ڈی خاتون ملازمت کے لیے منتخب ہوئی مگر اسے پہلے روز ہی اس لیے فارغ کر دیا گیا کہ وہ حجاب میں تھی۔ اس نوعیت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ ایک بار میں نے ریڈیو پر بچوں کا پروگرام کیا، اسے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، مگر تقریب سے ایک روز قبل جب کمیٹی کے ارکان سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے مجھے اسلامی لباس میں دیکھا تو کمال ڈھٹائی سے انھوں نے ایوارڈ منسوخ کر دیا۔بہرحال یہ ہے امریکا کا ماحول اور یہ ہیں وہ رکاوٹیں، جن میں رہ کر مجھے تبلیغ دین کا کام کرنا پڑ رہا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت عطا کرے اور میں آخر وقت تک نہ صرف خود ایمان و یقین سے سرشار رہوں، بلکہ یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچاتی رہوں۔
…٭…
فروری 1990ء میں محترمہ امینہ انٹرنیشنل یونین آف مسلم وومن کی عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان تشریف لائیں اور یہاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات‘ لاہور کالج برائے خواتین کنیرڈ کالج‘ کالج فارم ہوم اینڈ سوشل سائنسز اور اسلام آباد کے مختلف تعلیمی اداروں میں خطاب فرمایا۔ انہوں نے خواتین کو تکرار کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی کہ حجاب میں عورت کی عزت و احترام ہے اور عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے بچوں کی پرورش ہے۔ انہوں نے بڑے دکھ سے کہا ’’میں سمجھتی تھی کہ پاکستان کا معاشرہ اسلامی رنگ میں رنگا ہوگا‘ مگر افسوس کہ یہاں ائر پورٹ پر اترتے ہی مجھے مردوں کے عجیب و غریب روّیے سے دوچار ہونا پڑا۔ وہ عورتوں کو جس انداز میں بے باکی کے ساتھ گھورتے ہیں اس طرح تو امریکا کے لادین معاشرے میں بھی نہیں ہوتا۔ پھر یہاں کی خواتین یورپین عورتوں کی نقالی میں ماڈرنزم اختیار کرنے کی بڑی شوقین ہیں۔ میں انہیں انتباہ کرتی ہوں کہ یورپ کے معاشرے کی تقلید نہ کریں۔ وہاں کی خواتین آزادی اور برابری کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکیں۔ انہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں مردوں سے مسابقت کا انداز اختیار کیا اور نسوانیت کو ترک کرکے مردوں کی روش اپنا لی۔ نتیجہ یہ کہ آج یورپ میں عورت سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں۔ وہ فحاشی اور عدم تحفظ کے گہرے گڑھے میں گر گئی ہے اور جو کچھ اس کے پاس تھا وہ بھی کھو دیا ہے۔ آج عالم یہ ہے کہ گھر کو قید خانہ سمجھ کر دفتروں کی زندگی اپنانے کے نتیجے میں اسے صبح ہی صبح تیزی کے ساتھ گاڑیوںکا تعاقب کرنا پڑتا ہے اور ٹریفک کے بے پناہ رش میں دو‘ دو گھنٹےکی بھاگ دوڑ کے بعد اپنے دفتر میں پہنچتی ہے۔ وہاں دن بھر نوکرانی کی طرح کام کرنا پڑتا ہے اور اپنے باس (Boss) کے اشارۂ ابرو پر ہر طرح کا ناگوار کام بھی کرتی ہے۔ شام کو دوبارہ ٹریفک کے سیلاب کا مقابلہ کرکے گھر آتی ہے تو تھکاوٹ سے اس قدر نڈھال اور زندگی سے اتنی بے زار ہوتی ہےکہ اپنے ننھے پیارے بچے کی بات کا جواب تک نہیں دے سکتی۔ امریکی خواتین کے بچے ڈے کیئر سینٹروں میں پلتے ہیں جہاں وہ عدم توجہ کاشکار رہتے اور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ وہاں انہیں سادھو ازم اور جادوگری کا زہر پلایا جاتا ہے‘ ان پر مجرمانہ حملے ہوتے ہیں اور والدین کی شفقت اور خاندانی زندگی سے محروم ہو کر وہ بچپن ہی میں منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ بے شمار نو‘ دس سال کی عمر میں خود کشی تک کر لیتے ہیں۔ پبلک اسکولوں میں فیل ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایڈز اور ہم جنسی عام ہے اور امریکا کی بعض ریاستوں میں تو ہم جنسی کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ پڑھاپے میں والدین شدید کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ جونہی ایک خاتون کی عمر 35 سال سے تجاوز کرتی ہے‘ اسے اس طرح نظر انداز کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ درگور ہو کر نفسیاتی مریض بن جاتی ہے۔ چنانچہ امریکا میںذہنی امراض کے اسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ غرض وہاں عورتوں کو سکون حاصل ہے نہ بچوں کو نہ بوڑھوں کو۔ پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پاکستانی خواتین اور مرد حضرات اس معاشرے کو آئیڈیل کیوں سمجھتے ہیں اور وہی اطوار کیوں اختیار کر رہے ہیں جنہوں نے امریکی اور یورپی سماج کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔‘‘