دُنیابھرمیں ناظرین پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی معروف ترک ڈرامہ سیریل ’دریلیش ارتغرل ‘ ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت سے کچھ آگے ہی بڑھتی جا رہی ہے۔یہاں تک کہ پاکستان میں تو بچے بھی اب اس سیریز کی اپنے طور پیروڈی بنا بنا کر یو ٹیوب پر مالی مقبولیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔اسٹار وائنز کے نام سے تین لڑکوں نے خاصی مقبولیت پائی ہے ، سیریز کے سب سے مقبول منگول کردار ’نویان‘ کے کردار کو لیکر ۔ اس کے علاوہ فن فِن والے دو نوجوانوں نے بھی اس کی پیروڈی میں خوب مقبولیت پائی۔آپ اس سے اندازہ کریں کہ ارتغرل سیریز کے کرداروں کا کئی سال پرانا ترکی کے کسی شو میں دیئے گئے انٹرویو کو ہی صرف ترجمہ کر کے 6ماہ قبل انتہائی خراب ڈبنگ کے ساتھ ڈالا گیا لیکن اس کے باوجود وہ کوئی 3.5ملین ویوز کے قریب پہنچ گیا۔4ماہ قبل اے آر وائی پر آن لائن لیا گیا ایک انٹرویو بھی اب تک 4ملین ویوز لے چکا ہے ۔بس یہ جان لیں کہ ارتغرل ایسا موضوع ہے کہ جس پر ہر منجن فروخت ہو رہا ہے۔ اس ماہ سیریز کے مرکزی کردار اینگن التان کے پاکستان کے مختصر ترین دورے پر آنے والے ایونٹس کی تمام ویڈیوز بھی اسی طرح بھر پور مقبول رہیں یہاں تک کہ ٹاپ ٹرینڈ پر بھی آگئیں۔بہر حال یہ تو چلتا رہے گا، ہوا یہ کہ ترکی میں خلافت عثمانیہ کی تاریخ کے ڈرامائی سلسلے کو سیریز کے مصنف و پروڈیوسر نے اب ’کرولوش عثمان‘ کے عنوان سے آگے بڑھایا ہے۔ ہر سال نومبر تا اپریل کے درمیان ایک سیزن 2014سے باقاعدہ نشر ہو رہا ہے ۔اِس وقت ترتیب کے مطابق ترکی سے ساتواں سیزن نشر ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں اردو ڈبنگ کرکے قومی چینل پر اس وقت دوسرے سیزن کا اختتام ہے۔ تازہ سیزن کی قسط میں ارتغرل کی باقاعدہ موت کے مناظر پر دلی افسوس و دکھ کا احساس ٹوئٹر ٹرینڈ کی صورت سوشل میڈیا پر بھی دِکھائی دیا۔باقاعدہ موت اس لیے کیونکہ ماضی میں بھی ارتغرل کو شہید کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن ارتغرل غازی کو تاریخی روایات کی روشنی میں بڑھاپے و بیماری کے باعث اپنے ہی قبیلے میں آخری سانسیں لیتا دکھایاگیا۔سیریز ڈائریکٹر نے ہمیشہ کی طرح انتقال و شہداء کے جنازوں کے تمام مناظر میں ایسا رنگ ، ایسا ماحول پیش کیا کہ کوئی آنکھ تر ہوئے بغیر نہ ر ہ سکی ۔ملک کے معروف نشریاتی ادارے نے سرخی لگائی کہ ’ سوشل میڈیا آنسوؤں میں ڈوبا رہا جیسے ہی انہوں نے ارتغرل کو الوداع کہا ۔ناظرین کے مطابق یہ سیریز کی سب سے زیادہ جذباتی قسط تھی اور ہونی بھی چاہیے تھی۔سیریز کے پروڈیوسر مہمت بوزداغ نے بھی ایک ٹوئیٹ کی اور ایک ہیش ٹیگ کے ساتھ بارعب تصویر لگائی جو پاکستان میں بھی ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ بن گئی ۔ اسی طرح کئی گھنٹے ارتغرل غازی کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔لوگ ارتغرل کو خراج تحسین پیش کرتے رہے ، کوئی مزار کی تصویر، کوئی پرانی تصاویر، کوئی ایکشن مناظر ، کوئی موت کے مناظر ، کوئی ترانوں کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتا نظر آیا۔ اکثریت نے یہی کہاکہ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ پسندیدہ کردار ، یا میری زندگی کا سب سے پسندیدہ کردار، غازی سلطان ، دل ٹوٹ گیا یہ منظر دیکھ کر، شاندار دور کا خاتمہ ہوا وغیرہ۔ یہی نہیں بلکہ اسی ہفتہ ترکی میں زیر زمین بہت بڑا سونے کا خزانہ ملا جس کی مالیت کوئی 6ارب ڈالر بتائی گئی ۔اب اس میں مزے دار بات یہ ہوئی کہ یہ سارا خزانہ ارتغرل غازی کے پہلے شہر ’سوگت‘ سے نکلا( بحوالہ اخباری رپورٹس)۔یہ شہر ہی سلطنت عثمانیہ کا پہلا دار الخلافہ تھا۔اب یہ بھی مختلف رپورٹس میں آیا کہ وہ خزانہ والی جگہ ارتغرل غازی کے مزار کے قریب ہی ملی ہے ۔بہر حال اتنا مواد بھی کافی تھا سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ کے لیے اور وہی ہوا۔اب آتے ہیں اصل مسئلہ کی طرف اور وہ یہی سامنے آیا کہ تا حال وژن اور مشن سے خالی الذہن نوجوانوں کی کثرت ہے سوشل میڈیا پر جو بھیڑ چال کا شکار ہے ۔اتنا بڑا مقصد ، اتنا بڑا ڈرامہ ، اتنے ڈھیر سارے اثرات کے باوجود مجھے کہیں بھی اُس مقصد یعنی زمین پر اللہ کے نظام کی جدو جہد والی بات نہیں نظر آئی۔ایسا کیوں ہوا مطلب سیریز کی مقبولیت کی بات کرونگا ۔ ایسا نہیں کہ ایکشن فلمیں یا ڈرامے اس سے قبل نہیں بنے ۔ بھارت میں خصوصاً جنوبی بھارتی فلمیں تو ایکشن میں ہالی ووڈ کو بھی مات دے دیتی ہیں ۔ ہالی ووڈ ویسے خود کیا کم ہے ۔مگر جان لیں کہ جو کام ارتغرل نے کیا وہ ان میں سے کوئی نہیں کر سکتا ۔ اس کی وجہ صرف لڑائی کا مقصد ہے ۔مقصد کا فرق اتنا وسیع اور اثر انگیز ہے کہ ’الحق اللہ ‘ اور ’اللہ اکبر‘ کی صدائیں سارا کام کر دیتی تھیں۔جتنے چاہے سیکولر ہو ں ، اسکے مناظر بجھی ہوئی راکھ کے ڈھیر سے بھی چنگاری نہیں شعلہ بھڑکادیتے ہیں ۔ اس میں ہونے والی پر لڑائی کا تعلق ہمارے ماضی، ہماری دینی روح سے جڑا ہوا تھاپھر یہی نہیں اُن کرداروں کی زندگیاں بھی اُس سے جڑی ہوئی تھیں اس لیے وہ سب اندر ہی اندر اترتے چلے گئے۔اب یہ موقع تھا اُن تمام دینی جماعتوں ، گروہوں، افراد کے لیے جو سوشل میڈیا کو کچھ سمجھتی ہیں کہ وہ اس میںاپنا حصہ ملالیتیں۔ لوہا گرم تھا، لوگ سننا چاہتے تھے، اتفاق سے ان ٹرینڈز کے پیچھے کوئی تھا بھی نہیں، خالص عوامی رد عمل تھا، اس سیریز میں اتنا مواد ہے با آسانی بات سمجھانے کے لیے کہ شاید کئی کتابوں میں وہ نہ مل سکے۔سرداری کے لیے مشورے سے قبل ارتغرل کا بیٹوں سے کیے گئے سوالات و جوابات میں سے عثمان کا جواب ہی ایک بڑا سبق آموز ، عملی جواب تھا۔ گیہاتو اور آیا نکولا کے درمیان آخری مکالمہ بلکہ صرف یہ ڈائیلاگ ’کہ تم یہاں رہ سکتے ہو کیونکہ تم مسلمان نہیں ہو‘ یہ جملہ نہیں بلکہ پوری ایک تاریخ سکھانے اور مسلمانوں کی ہیبت و اقامت دین کے تصور سمجھانے کے لیے موثر تھا۔قطب ابدال ہوں، ابن العربی یا شیخ ادیبالی یا سفید داڑھی والوں کے مکالمے سب ایک پوری تربیتی ڈوز رکھتے ہیں ۔مگر افسوس ہو اکہ کئی ٹرینڈز بنے لیکن ایسا کچھ شیئر نہ ہوسکا۔ کچھ اچھے مکالموں کی پوسٹیں ضرور بنیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جو لوگ اس کام کو عملاً اس وقت کسی نہ کسی شکل میں کر رہے ہیں وہ اس سیریز سے لا علم ہیں ۔
اس ہفتہ بانی پاکستان قائد اعظم علیہ رحمہ کا یوم پیدائش ان کے پیغام اور تصورات کی ترویج اور پاکستان کو سیکولر قرار دینے والوں کی نفی کرتا گزرا۔ ساتھ ہی کرسمس کی مبارکبادیں بھی ٹرینڈ لسٹ میں شامل تھیں۔ایسے میں کینیڈا میں انتقال کر جانے والی حقوق انسانی کی کارکن کریمہ بلوچ کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ کریمہ پاکستان سے جان بچا کر کینیڈا میں جا کر پناہ لی ہوئی تھیں، کچھ دن قبل غائب ہوئیں پھر گھر میں لاش ملی تھی ، کینیڈین حکام نے اسے قتل نہیں قرار دیا۔جماعت اسلامی نے کورونا کی دوسری لہر میں 2ہفتوں کے لیے تمام اجتماعات پر از خود پابندی کا اعلان کیا تھا۔ اس کی تکمیل کے بعد اب گجرانوالہ میں جلسہ کا اعلان کیا تو حکومت کی جانب سے اجازت کا مسئلہ سامنے آگیا ۔اس پر جماعت اسلامی نے اپنے آپ کو حقیقی اپوزیشن قرار دیکر ٹرینڈ بھی چلایا۔پی ڈی ایم بدستور اپنے مظاہروں ، جلسوں میں مصروف رہی ہے ۔ روزانہ سوشل میڈیا پر بھی یہ جنگ چلتی رہی۔ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن یا جمعیت علماء اسلام کے اہم رہنماؤں مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمدکے بیانات نے بھی ہلچل مچائی اور جے یو آئی نے خوب شور مچایا۔اس میں پی ڈی ایم کی بات تو اپنی جگہ مگر اسرائیل والا موضوع زبردستی کھولا گیا تھا جو کسی کی سمجھ نہیں آیا۔اسرائیل کے حوالے سے مستقل سوشل میڈیا پر باتیں جاری رہیں جیسا کہ خاموش ذہن سازی کی جا رہی ہو۔
سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور تحریک لبیک کی جانب سے مستقل فرانسیسی سفیر کو باہر نکالنے اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی جانب ٹرینڈ کی صورت توجہ دلائی جاتی رہی ۔اس بار یہ ہوا کہ فرانسیسی سفیر مارک نے فرانس میں قتل ہونے والے ملعون پیٹی کی تصویر کوٹوئیٹ کیا جس کو فرانسیسی صدر مکرون نے ری ٹوئیٹ کر کے اپنی مہر ثبت کی جس پر مزید اشتعال پیدا ہوا۔عوام کا بے شرم حکمرانو سے مطالبہ رہا کہ مالی مفادات کو اور تجارتی معاہدوں کو اتنا بڑھ کر مت جانو۔ ابھی تک اس ایشو پر باقی سب کی خاموشی ہے۔ ایسے میں اس ناموس رسالت ﷺ والے پہلو پر کراچی کے نوجوانوں نے ایک اور سمت ایک کوشش کی اور اس ہفتہ سماجی میڈیا پر جاری کیا۔ انہوں نے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک 40سیکنڈ کی اشتہاری ویڈیو سے پیغام دینے کی کوشش کی ۔ فرانس کی جانب سے جو کوشش کی گئی وہ سراسر ظلم ہے ، جرم ہے، زیادتی ہے ، اس لیے اِسی کمیونیکیشن ٹول کو استعمال کر کے ایک انتہائی حساس اور جذباتی پیغام دیا گیا۔ اس ویڈیو میں اردو، عربی، فرانسیسی، انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ دُنیا بھر تک بات پہنچانے کے مقصد کو پورا کیا گیا۔نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کو کسی قسم کی بے ادبی کا نشانہ بننے کا عمل کسی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہی ہے اور رہے گا ۔ اس پر احتجاج و بائیکاٹ سمیت تمام کام جاری ہیں ہونے بھی چاہیے ۔ان نوجوانوں نے سیرت رسول ﷺ کا ایک اور پہلو تمام انسانیت کو یہ بتا کر سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کوئی بھی کسی قسم کی شبیہہ کوئی نہیں بنا سکتا نا بنانی چاہیے ۔ سیرت رسول ﷺ کو دل کی ، ایمان کی یقین کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے اور عمل کی دنیا میں لانا چاہیے ۔اللہ کرے یہ بات ہر مسلم، غیر مسلم کی سمجھ آجائے۔nn