موسم سارے ہی انسان کے فائدے کے لیے ہیں، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی موسم سے آپ کو خوش نظر نہیں آئیں گے۔ بارش ہو تب بھی وہ برا بھلا کہیں گے۔ نہ ہو تب بھی۔ خوشی اور شکر ان کی زبان سے آپ کو سننے کے لیے نہیں ملے گا۔ آپ کا بھی ایسے افراد سے واسطہ پڑا ہوگا۔ دنیا میں کسی بھی چیز کے وجود کا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک سبب رکھا ہے۔ مثلاً بارش کا ایک سبب اور مقصد ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا اور نقصان برداشت کرنا انسان کی صلاحیت یا کوتاہی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح گرمی، سردی، بہار، خزاں کے اسباب ہیں۔ انہیں برا بھلا کہنا جائز نہیں ہے۔ ایک حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’آدم کا بیٹا زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں زمانہ ہوں، رات و دن کو میں ہی پھیرتا ہوں‘‘۔ سرد موسم میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوجاتی ہیں، سورج کی زمین سے قربت و دوری کے سبب درجہ حرارت کی تبدیلی ہوتی ہے جس سے ہوا کے دباؤ میں تبدیلی آتی ہے۔ ملکِ عزیز میں موسمِ سرما نومبر سے فروری تک رہتا ہے۔ پاکستان پر اللہ کا خاص احسان ہے کہ اس کے باشندے ایک سال میں چار موسموں گرمی، سردی، بہار اور خزاں سے مستفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موسموں کی تبدیلی میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد کا سامان رکھا ہے۔ اس لیے اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اس وقت سردی کا موسم جوبن پر ہے، دسمبر تو اس معاملے میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے۔ شاعر حضرات سرد موسم کو اپنی شاعری سے گرم رکھتے ہیں۔ ساغر خیامی کی ایک نظم کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
آگ چھونے سے بھی ہاتھوں میں نمی لگتی تھی
سات کپڑوں میں بھی کپڑوں کی کمی لگتی تھی
کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں کی قیامت توبہ
آٹھ دن کر نہ سکے لوگ حجامت توبہ
سخت سردی کے سبب رنگ تھا محفل کا عجیب
ایک کمبل میں گھسے بیٹھے تھے دس بیس غریب
جس طرح موسم گرما کی آمد پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے، ایسے ہی سردیوں میں بھی چند احتیاطی تدابیر سے بہت سی بیماریوں کو اپنے قریب آنے سے روکا جاسکتا ہے۔ سردی کا شکوہ کرنے کے بجائے گرم کپڑے پہنیں، خاص کر اپنے بزرگوں اور بچوں کو سردی سے بچائیں۔ ورزش کرنے سے بھی سردی میں کمی ہوجاتی ہے۔ اگر زیادہ سردی ہو تو پانی نیم گرم کرکے پیا جائے، لیکن پیا لازمی جائے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بدلتے موسم میں ڈاکٹر کے کلینک میں نزلہ، زکام، سردی، بخار، کھانسی،گلے میں خراش، نمونیا وغیرہ جیسے امراض کے شکار افراد کا رش بڑھ جاتا ہے، جن میں اکثریت بچوں اور بزرگوں کی ہوتی ہے۔
پاکستان کے بالائی اور میدانی علاقوں میں برف باری اور سرد ہواؤں کا راج ہے، شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں برف باری جاری ہے۔ صاحبِ ثروت خاندان اور سیاح قیمتی گرم کپڑوں اور خوراک و دیگر وسائل کے ساتھ اس موسم سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔کچھ لوگ صرف انتہائی سرد موسم میں سیر و تفریح کے لیے برف باری سے مزین علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سردی کا موسم آتے ہی بازاروں میں گرم کپڑوں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ ایک طرف جہاں بہت سے لوگ گرم کپڑوں کی خریداری میں مصروف نظر آتے ہیں، وہیں دوسری طرف بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو گرم کپڑوں کی خریداری کرنے سے محروم ہے، اور اپنی غربت اور بے بسی پر آنسو بہا رہی ہے۔ کورونا جیسی عالمی وبا، اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ ایسے ہیں جو آج بھی فاقہ کشی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس صورت حال میں وہ کیسے اپنے آپ کو سردی سے بچائیں گے، اپنے بچوں کے لیے کیسے گرم کپڑے خریدیں گے؟ چھوٹے کچے گھروں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے غریب خاندان ہیٹر چلاسکتے ہیں نہ انگیٹھی۔ مہنگائی کے باعث لنڈا کے پرانے گرم کپڑے خریدنا بھی ان کے لیے محال ہے۔ بچے اور بزرگ شدید ٹھنڈ برداشت نہیں کرپاتے۔ سرد موسم میں امراض قلب، کورونا، نمونیا و دیگر بیماریوں کی وجہ سے اموات کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
ملک کے دور دراز پہاڑی، میدانی اور دشوار گزار علاقوں میں جہاں عام طور پر اہلِ خیر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی، وہاں الخدمت کے رضاکار منظم طریقے سے مخیر حضرات کے تعاون سے غریب خاندانوں میں گرم کپڑوں کی تقسیم کو ممکن بناتے ہیں۔ گزشتہ لاک ڈاؤن، بارش و سیلاب کی صورت حال میں الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے ملک بھر میں غریب خاندانوں کی جس طرح دادرسی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سرد موسم میں بھی الخدمت کے ہزاروں رضاکار مخیر حضرات کے تعاون سے کراچی، اندرونِ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختون خوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ضرورت مند لوگوں کو ونٹر پیکیج فراہم کررہے ہیں۔ وہ برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑی سلسلے ہوں یا میدانی علاقے، یا صحرا… الخدمت کے رضاکار ضرورت مندوں کو انتہائی مشکل حالات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔
بعض دولت مند نمود و نمائش کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جس کے پاس دولت ہے وہ گرمیوں میں ایرکنڈیشنڈ کمروں میں رہتا ہے اور باہر نکل کر اس کی خوبیوں اور اپنی فراوانیوں کا خوب تذکرہ کرتا ہے۔ سردیوں میں قیمتی کپڑے زیب تن کرکے خوب نمائش کرتا ہے، دوسرے لوگ جو ان تمام سہولیات سے محروم ہیں اور ان چیزوں کا انتظام نہیں کرسکتے اسے اُن کا ذرّہ برابر خیال نہیں رہتا، لیکن جب ایک غریب انسان کسی دوسرے کو اپنے سے بھی زیادہ غربت میں مبتلا دیکھتا ہے تو اسے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہماری زندگی قدرے غنیمت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کا خیال کریں، اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو غریبوں کا بھی خیال رکھیں۔ یہی مذہبِ اسلام کی تعلیم بھی ہے، اس سے منہ موڑ نے والا ہرگز مومن نہیں ہوسکتا۔
فی الحال سردی کا موسم ہے، اور یہ موسم بھی نیکیاں کمانے کا ذریعہ ہے۔ جہاں ہم اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لیے گرم کپڑوں کی خریداری کریں وہیں اپنے آس پاس مالی طور پر کمزور افراد پر ضرور ایک نظر دوڑائیں، اور ان کے لیے بھی سردیوں سے بچنے کا انتظام کریں۔ اس طرح سردیوں کے موسم کو نیکی کا ذریعہ بنائیں۔ جب ہم خود اس طرح کا راستہ اختیار کریں تبھی حکومت و انتظامیہ سے بھی مطالبہ کرسکتے ہیں کہ شہر کے اندر ایسے انتظامات کیے جائیں کہ مسافروں کو شدید سردی سے بچنے میں آسانی ہو، وہ رات کے کسی حصے میں اچانک کوئی پریشانی لاحق ہونے پر بلاجھجھک اپنی رات گزار سکیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
مسلم معاشرے میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کا حوالہ دے کر نہ جانے کتنی فیکٹریاں، ملٹی نیشنل کمپنیاں، بڑے بڑے میڈیا ٹائیکون اپنے ملازمین کی چھانٹی کرتے ہیں، دکانوں پر کام کرنے والوں پر چھانٹی کی تلوار لٹکی رہتی ہے، اساتذہ و مدرسین کو ایک جھٹکے میں مدارس سے، درس گاہ سے سبک دوش کردیا گیا جو نو، دس ہزار روپے تنخواہ میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اپنے کنبے کی کفالت کررہے تھے۔ جبکہ دوسری طرف سرکاری ملازمین ہیں، سال بھر لاک ڈاؤن رہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، ان کو اسّی نوّے ہزار تنخواہ گھر بیٹھے ملتی رہے گی، ان سے نہ کسی کو چندہ مانگنے کی ہمت ہے اور نہ ہی انہیں کچھ کہنے کی ہمت ہے، تو یہاں پر بھی حق کمزوروں کا ہی مارا گیا۔ لاپروائی، بے حسی، بے بسی کا بول بالا ہے۔ کوئی غریب بھوکا مرجائے، سردی سے مرجائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ نشے کا عادی رہا ہوگا۔ کوئی پریشان حال ہے تو اس پر کام چوری کا الزام عاید کردیا جاتا ہے۔ یہ کسی کی غربت اور لاچاری کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے! یہی وجہ ہے کہ رات میں کتنے لوگ فٹ پاتھ پر اخبار بچھاکر سوجاتے ہیں، اپنے ٹھیلے اور رکشے پر اپنے جسم کے بوسیدہ کپڑوں میں لپٹ کر سوجاتے ہیں، لیکن کوئی کچھ دیتا ہے تو وہ لینے سے کتراتے ہیں۔
الخدمت جیسے فلاحی ادارے اور مخیر حضرات ہیں جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ہم غریبی کا خاتمہ نہیں کرسکتے لیکن خفیہ طریقے سے مستحق لوگوں کی امداد کرکے اللہ و رسولؐ کی خوشنودی ضرور حاصل کرسکتے ہیں۔ اور یہی جوش اور جذبہ ہر ایک کے اندر ہونا چاہیے، بالخصوص مسلمانوں کے اندر سب سے زیادہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ مذہب اسلام میں زکوٰۃ کا نظام ہے اور زکوٰۃ کے نظام کے باوجود بھی کوئی بھوکا مرے تو واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کی جارہی ہے، بلکہ اس کی اہمیت و فضیلت کو ایک مخصوص مقام تک محدود کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کے اصل حقدار اس مخصوص و عظیم الشان سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔
nn