قائد اؑظم محمد علی جناح سے ایک ملاقات

214

بچّو! میں آپ کو اپنے بچپن کا ایک واقعہ سناتی ہوں اور پھر قائداعظم سے ملاقات بھی کرائوں گی۔
ایک مرتبہ میں اپنی ایک دیرینہ دوست اور اس کے گھر والوں کے ساتھ مزار قائد کی سیر کے لیے گئی۔ سیر کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کیونکہ اُس وقت میں قائداعظم کے مزار کو ایک سیر کرنے والی جگہ ہی سمجھتی تھی اور بچپن ہو یا لڑکپن۔ سیر کا تصور ہی بڑا دل کش ہوتا ہے۔ اس لئے میں بھی بہت خوش تھی۔
اچھا میں آپ کو یہ بتاتی چلوں کہ میری اُس دوست کے والد کا تعلق پاکستان ایئرفورس سے تھا ہم اُس وقت ایئرفورس کی ایک بڑی ٹرک پر سوار تھے۔ میں اپنی دوست سے خوش گپیوں میں مصروف تھی کہ اچانک گاڑی رُک گئی۔ پتہ چلا کہ قائداعظم کا مزار آگیا ہے۔ میں بے صبری کے ساتھ ٹرک سے اُتری اور تیزی سے اندر جانے لگی جبکہ میری دوست، اُس کے والد اور دوسرے گھر والے وہیں صدر دروازے پر ہی رُک گئے۔ میں نے مڑ کر دیکھا وہ اپنے اپنے جوتے اُتاررہے تھے۔ میں نے حیرت سے اندر کی جانب دیکھتے ہوئے سوچا ابھی تو مزار کا احاطہ ہی شروع ہوا ہے۔ اصل مزار کافی اندر ہے مگر مجھے کچھ پوچھنے کی مہلت نہ ملی کیونکہ میری دوست کے ابو نے ایک شاپر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’بیٹی جوتے اس میں ڈال کر ہاتھ میں پکڑلیں‘‘۔ انکل ہم جوتے اتار کے اتنی دُور ننگے پیر چلیں گے؟ وہ شروع گرمیوں کی ایک دوپہر کا آغاز تھا مگر فرش ابھی سے گرمائش پھینک رہا تھا۔ انہوں نے مسکراکر مجھے دیکھا اور شفقت بھرے لہجے میں کہا’’جب کسی بزرگ ہستی سے ملنے جاتے ہیں تو ادب کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں‘‘، بزرگ ہستی؟ میں کچھ نہ سمجھی اور بول پڑی ’’مگر یہ تو قائداعظم ہیں‘‘، انکل کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھاگئی اور آنکھوں میں عقیدت کی ہلکی سی نمی تیرنے لگی ’’قائداعظم ایک بہت بڑی بزرگ ہستی ہیں‘‘ اُن کے لہجے میں اتنا یقین تھا کہ وہ یقین میرے دل میں اُترتا چلاگیا، بالکل ایسے، جیسے کہ زمین میں بیج بویا جاتا ہے اور پھر اس بیج میں سے ایک ننھی کونپل پھوٹتی ہے اور دھیرے دھیرے وہ ننھی کونپل ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
میری عمر کی منزلیں جیسے جیسے بڑھتی گئیں میرے یقین کا پودا بھی بڑھتا گیا۔’’قائداعظم ایک بزرگ ہستی ہیں‘‘ اس یقین کا تناور درخت میرے سر پر اپنی شفقت کا سایہ پھیلاتا چلا گیا… اور پھر… میرا قائداعظم سے ایک رابطہ استوار ہوتا چلاگیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ میرے آفس کا راستہ قائد کے مزار کے سامنے سے گزرتا تھا، جب بھی مجھے وقت ملتا میں قائد کے مزار پر حاضری کے لیے چلی جاتی۔ دھیرے دھیرے مجھے لگا قائد کے مزار پر جانا اتفاق یا عادت نہیں ہے۔ بلکہ میرا جانا ایسے تھا جیسے کسی نے میری ڈیوٹی لگا دی ہو۔ یا پھر کوئی میرا منتظر ہو۔ بالکل ایسے جیسے گھر کے بڑے بوڑھے آپ کے گھر واپس آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ لہٰذا میں نے تواتر سے جانا شروع کر دیا پھر میں اور قائد کا مزار ایک دوسرے سے مانوس ہوتے چلے گئے۔ ہیرو کی کہانی لکھنے کا خیال آیا تو کتابیں اٹھا کر میں قائد کے مزار کے احاطہ میں لگے درختوں کے سائے میں جا بیٹھتی اور گھنٹوں سکون سے لکھتی رہتی۔
بچو ! ایک دن کیا ہوا کہ لکھتے لکھتے میں نے سر اٹھایا تو سامنے کے برآمدے میں قائد اعظم کو پروقارانداز میں ٹہلتے دیکھا ۔ وہ سگار پیتے ہوئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے جیسے کچھ سوچ رہے ہوں، ارے میں تو ہکاّ بکاّ رہ گئی دوپہر کا وقت تھا مزار پر اکا دکا لوگ ہی آ جا رہے تھے حیرت ہے کہ کسی نے بھی قائد کو دیکھ کر رکنے یا بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر مجھے تو جیسے پر لگ گئے تیز تیز قدم اٹھاتی سیڑھیاں چڑھتی قائد کے قریب جا کھڑی ہوئی وہ ٹہلتے ٹہلتے رک گئے میں نے خوشی سے بے حال ہوتے ہوئے ادب سے آہستگی سے سر جھکا کر سلام کیا قائد نے سر کو ہلاتے ہوئے جواب دیا اور سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا قائد کے گرد رعب اور دبدبے کا ایک ایسا ہالہ تھا کہ بات کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی ۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا بس اپنی صحافیانہ عادت سے مجبور ہو کر جلدی سے سر جھکا کر درخواست کر ڈالی۔ قائد اعظم مجھے آپ کا انٹرویو کرنا ہے۔ میرا انٹرویو؟ انہوں نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ جی قائد آپ کا انٹرویو، میں نے ہمت جمع کر کے کہا۔ اب اس کی کیا ضرورت ہے میرے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں آپ انہیں دیکھ لیں۔ قائد نے حسب عادت دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔ قائد میں موجودہ دور کے پاکستانی بچوں کے لیے آپ کا انٹرویو کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے دیکھا بچوں کے نام پر قائد کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ میں نے مزید ہمت کی۔ قائد پاکستان کے بچے آپ سے اور اس ملک پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیںمگر انہیں مناسب رہنمائی نہیں مل رہی ہے اور پھر یہ کہ وہ سچی باتیں جاننا چاہتے ہیں آپ کے بارے میں کافی متضاد باتیں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ آپ کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہیں۔
اچھا!!قائد کے لبوں پر ہلکی سے مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’اگر بچوں کے لیے انٹرویو کرنا ہے تو تم آجائو…کل صبح آجائو۔میں ایک دم خوش ہوگئی۔’’کہاں قائد؟ اور کتنے بجے…؟ ویسے تو اب میں وقت کی قید سے آذاد ہوچکا ہوں مقام بھی میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، لیکن تمہاری آسانی کے لیے کل صبح نو بجے… اسی جگہ… جہاں تم ہر وقت بیٹھتی ہو… بہت بہت شکریہ۔ میرا خوشی سے بُرا حال تھا۔ قائد کا انٹرویو؟ اُف! میرے لیے کس قدر اعزاز کی بات تھی۔
رات بے چینی سے گزری… نیند میری آنکھوں سے کوسوں دُور تھی اور اُسکی وجہ خوشی کے ساتھ ساتھ دانت کا شدید درد تھا۔صبح ہوتے ہوتے دانت کا درد اتنا بڑھ گیا کہ میرے لئے منہ کھولنا دُشوار ہوگیا، سوچا قائد سے معذرت کرلوں… پھر سوچا پتہ نہیں قائد کے پاس موبائل بھی ہے کہ نہیں میں نے تواُن سے نمبر بھی نہیں مانگا۔ صبح چونکہ دیر سے اُٹھی اس لئے بھاگم بھاگ تیار ہوکر مزار پہنچی ۔ دیکھا تو میری مخصوص بنچ پر قائداعظم پہلے سے موجود ہیں۔ اُن کے چہرے پر ناراضی اور غصّہ تھا، ظاہر ہے میرے دیر سے پہنچنے پر۔
میں نے جاتے ہی معذرت کی اور بتایا کہ رات بھر دانت میں درد تھا اس لیے صبح آنکھ دیر سے کھلی۔
قائد نے فرمایا: جب کوئی مقصد سامنے ہو تو چھوٹی موٹی تکلیفوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے مجھے تپ دق تھی جسے ٹی بی کہا جاتا ہے۔ تم جانتی ہو؟ ہمارے زمانے میں یہ بیماری اتنی ہی خطرناک تھی جتنی کہ تمہارے اس زمانے میں کینسر۔
میں پہلے ۱۰ گھنٹے کام کرتا تھا مگر جب مجھے میرے ڈاکٹر نے بتایا کہ آپ کو ٹی بی ہے اور پھیپھڑوں میں بہت زیادہ دن تک زندہ رہنے کی سکت نہیں ہے تو میں نے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے مجھے یہ بات بتادی اور پھر میں ۱۸، ۱۸ گھنٹے تک کام کرنے لگا تھا کیونکہ میرے پاس وقت بہت کم تھا اور کام بے حد زیادہ۔
میں نے شرمندہ ہوکر سرجھکالیا۔ اور قائد کے قریب ادب سے بیٹھتے ہوئے جلدی سے انٹرویو شروع کردیا۔
س: قائداعظم آپ کو غصّہ کن باتوں پر آتا ہے؟
میں بہت ڈری ہوئی تھی اس لیے سب سے پہلے غصّے کے بارے میں ہی سوال پوچھ ڈالا۔
ج: وقت ضائع کرنے پر اور بجلی ضائع کرنے پر۔ ہمیں ایک ایک وولٹ بھی ضائع ہونے سے بچانا چاہئے کیونکہ یہ بجلی اور بہت سے کاموں میں صرف ہوتی ہے۔ گورنر جنرل ہائوس میں، میں خود سارے سوئچ آف کیا کرتا تھا۔ لوگ مجھ سے کہتے کہ یہ سرکاری قیام گاہ ہے یہاں روشنیاں جلتی رہنا چاہئیں، مگر میں کہتا ’’یہ سرکاری قیام گاہ ہے اسی لیے تو احتیاط کرتا ہوں… وہ میرا اپنا پیسہ نہیں تھا، قوم کا پیسہ تھا ۔سرکاری خزانے کا پیسہ تھا اور میں اُس پیسے کا امانت دار تھا۔
تم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کا قصّہ تو ضرور پڑھا ہوگا، جب طبیعت کی شدید خرابی کے باوجود میں کوئٹہ سے کراچی آیا تھا ۔تقریب میں بھی بروقت پہنچ گیا تھا اور جب میں نے دیکھا کہ سامنے کی قطار میں وی آئی پی لوگوں کی کرسیاں خالی پڑی ہیں تو میں نے حکم دیا کہ جتنی خالی کرسیاں ہیں وہ ہٹادی جائیں اور مقررہ وقت پر پروگرام شروع کرادیا۔ اب جو لوگ دیر سے آئے اُنہیں کھڑے ہوکر سارا وقت شرمندہ ہوتے ہوئے پروگرام دیکھنا پڑا۔ آپ جانتی ہیں؟ اُن شرمندہ لوگوں میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔ اچھا؟؟ میں حیران ہوگئی۔ ویسے میں غصہ کرنے کا قائل نہیں، گھر والوں پر تو بالکل بھی نہیں۔
س: قائد آپ کو اپنی امی یاد ہیں؟ میں نے موضوع ایک دم بدلنا چاہا۔
ج: کیوں یاد نہیں ہوں گی؟ بلکہ اب تو میں رہتا ہی اُن کے ساتھ ہوں۔ مگر اُس زمانے میں جب میں چھوٹا سا بچہ تھا مجھے خوب یاد ہے کہ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں ۔ اکثر رات کو کہانیاں سُناتی تھیں اور مجھ سے کہتیں ’’میرا بیٹا راجہ بنے گا، اس کے ’’پدم‘‘ ہے۔
س: قائد پدم کیا ہوتاہے؟ میں نے سب کی آسانی کے لیے پوچھا؟
ج: ایک خاص نشان ہوتا ہے، جسم پر کہیں بھی ہوسکتا ہے، اُسے پدم کہتے ہیں میرے دائیں پیر پر تھا وہ نشان، جسے دیکھ کر وہ کہتی تھیں کہ میرا بیٹا راجہ بنے گا۔
س:قائد! آپ کو کھانے میں کیا پسند تھا؟
ج:میں بہت کم اور ہلکی غذا کھاتا تھا، جیسے چکن سوپ وغیرہ مرچ مصالحہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا۔ مسور کی دال اور چاول بہت اچھے
+–لگتے تھے بگھارے بیگن اور فرائی مچھلی بہت پسند تھی۔ قائدآہستہ آہستہ سوچ کر بتارہے تھے… میں خوشی خوشی لکھتی جارہی تھی ۔
ایک مزے کا قصّہ سنو… قائد نے دلچسپی سے مسکراکر کہا۔
پاکستان کے قیام سے پہلے بمبئی میں ایک اے آر خان تھے، انڈین سول سروس میں، اُن کی بیگم سے فاطمیؔ کی بہت دوستی تھی وہ جلیبیاں بہت اچھی بناتی تھیں اور میرے لئے ضرور بھجواتی تھیں۔ میں شوق سے کھاتا تھا۔ میں نے اُن سے ایک بار بریانی کی بھی فرمائش کی تھی اور انہوں نے وعدہ کیا تھا مگر میرے ڈاکٹر، کرنل الٰہی بخش نے انہیں منع کردیا تھا… خیر، تو ایک دن کیا ہوا کہ انہوں نے دس پوریاں اور ڈھیر سارا حلوہ بناکر بھیجا، میں اُن دنوں سخت بیمار تھا کرنل نے پھر منع کیا مگر میں نے کہا کہ بیگم اے آر خان کے ہاتھ کی بنی پوریاں مجھے نقصان نہیں دیتیں میں پہلے بھی کھاچکا ہوں۔ میں نے وہ حلوہ اور پوریاں کھالیں۔ اگلے روز ڈاکٹر الٰہی بخش آئے اور پوچھا کل آپ نے کتنی پوریاں کھائی تھیں۔ میں نے کہا ’’سب‘‘ ڈاکٹر حیرت سے مجھے دیکھنے لگا۔
قائد کُھل کے مسکرائے اور میں منہ پر ہاتھ رکھ کر آہستہ آہستہ ہنسنے لگی۔
ویسے میں آپ کو ایک بات بتائوں؟ مجھے کھانوں کی بالکل پہچان نہیں تھی، کھانے کے بعد کوئی پوچھتا کہ آپ نے کیا کھایا ہے تو میں بتانہیں سکتا تھا اکثر بات چیت میں لگ جاتا اور کھانا ویسے ہی رہ جاتا، مجھے لگتا کہ میں کھاچکا ہوں۔
س: قائد! آپ پرہیز کرتے تھے؟
ج: ہاں ڈاکٹر کی بات تو میں سنتا تھا… مگر کبھی کبھی تنگ آکر اپنی بھی چلالیتا تھا۔جیسے بیماری کے آخری دِنوں میں ایک بار صبح کے ناشتے پر میں نے ملازم سے ’’سردا‘‘ منگواکرکھایا۔ مجھے بہت اچھا لگا پھر میں نے کئی دنوں تک ناشتے میں سَردا کھانا شروع کردیا۔ اس کی وجہ سے میرا زکام بہت بڑھ گیا اور پھر ڈاکٹر نے منع کردیا۔
س: آپ کو زیارت بہت پسند تھا اسکی کوئی خاص وجہ تھی؟
ج: ہاں، ایک تو وہ الگ تھلگ جگہ تھی، دوسرے وہاں صنوبر کے درخت تھے۔ صنوبر بہت دلکش ہوتے ہیں، صحت پر بھی خوشگوار اثرات ڈالتے ہیں۔ مجھے اُونچے اُونچے درخت، جو آسمان کی طرف سر اُٹھائے رکھتے ہیں بہت اچھے لگتے ہیں، میں گھڑ سواری کو بھی اسی لئے پسند کرتا تھا، گھوڑوں کی تنی ہوئی گردنیں بہت شاندار لگتی ہیں ان سے طاقت اور اعتماد جھلکتا ہے۔ گھوڑے پر بیٹھا شخص بھی بہت پُراعتماد نظر آتا ہے۔
س: سُنا ہے آپ کو پھول بہت پسند تھے؟
ج: بہت زیادہ ۔گلاب کے پھول سے مجھے خاص رغبت تھی، میرے دہلی والے گھر کے باغ میں بہت گلاب لگے ہوئے تھے میری ہدایت تھی مالی کو ،کہ وہ روز تازہ گلابوں کا گلدستہ میری میز پر رکھے۔ جب میں کسی بات پر غور کرنا چاہتا تھا تو باغ میں چہل قدمی کرتا تھا مجھے ٹہل ٹہل کے سوچنا اچھا لگتا تھا۔
س: پہلی بار جناح کیپ کب پہنی تھی کیونکہ بعد میں تو وہ کیپ آپ کی شخصیت کا حصّہ بن گئی تھی؟
ج: ۱۹۳۵ء کے مسلم لیگ کے جلسے میں پہنی تھی میں نے یہ دیکھا کہ نواب اسماعیل خان ایک سموری ٹوپی پہن کر آئے ہیں میں نے ٹوپی اُن سے مانگ کر اپنے سر پر رکھ کر دیکھی ۔سب کو بہت پسند آئی پھر اُسی ٹوپی میں کئی تصویریں لی گئیں۔
س:ـیہ بتائیے کہ آپ کو کیسے لوگ پسند آتے ہیں؟
ج: اصول پسند، صاف گو اور ضدی۔ قائد نے برجستہ جواب دیا۔ ۱۹۳۷؁ء سے ۱۹۴۰؁ء تک جب میں شملہ جاتا تھا تو ایک مخصوص اسٹینو گرافر کو اپنے کام کے لیے بلوایا کرتا تھا۔ سید مجاہد حسین اسکا نام تھا۔ مجھے اسکا کام بہت پسند تھا وہ بھی میری بہت عزت کرتا تھا بلکہ اُسے مجھ سے محبت تھی مگر جب میں نے اُسے بمبئی لے جانے کی بات کی تو اُس نے صاف جواب دیا کہ صاحب! میں اپنی بیوی اور بچوں سے دُور نہیں رہ سکتا۔
میں نے کچھ اصرار بھی کیا مگر وہ نہ مانا…میں خوش ہوا اور کہا… تم بھی میری طرح ہو۔اصول پسند، صاف گو اور ضدی۔
اسی طرح ایک نرس تھی جو زیارت میں میری خدمت پر مامور تھی۔ ایک روز اُس نے میرا ٹمپریچر لیا اور جانے لگی تو میں نے اُس سے کہا۔ آپ مجھے میرا ٹمپریچر بتائیں گی؟
اُس نے کہا، سوری! میں صرف ڈاکٹر کو ٹمپریچر بتانے کی پابند ہوں، میں نے اصرار کیا تو اُس نے کہا، ’’جناب! یہ میرے پیشے کے اصولوں کے خلاف ہے‘‘ اور کمرے سے چلی گئی، مجھے خوشی ہوئی میں نے قریب کھڑی فاطمہؔ جناح سے کہا’’فاطمیؔ مجھے ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں اور کسی بھی شخصیت کے رعب میں نہ آئیں‘‘۔
س: قائد آپ نے بڑی قیمتی بات کی ہے اس پر مجھے پاکستان کے طالب علم یاد آگئے۔ آپ موجودہ دور کے طالب علموں سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟
ج: طالب علموں سے صرف ایک بات کہنا چاہوں گا…
تم نے چیونٹی دیکھی ہے؟ کتنی چھوٹی سی چیز ہے مگر وہ دُور دُور سے چیزیں جمع کرکے اپنے گھر میں لاتی ہے۔ اس کام کے لیے سینکڑوں چکر لگاتی ہے مگر اپنے مقصد کو حاص کرنے میں تھکن محسوس نہیں کرتی۔ مسلسل کوشش کرتی ہے اور بالآخر اپنا مقصد یعنی ’’کھانا‘‘ جمع کرلیتی ہے پھر آڑے وقت میں سکون اور آرام سے رہتی ہے۔ اسی طرح انسانوں کی زندگی میں طالبِ علمی کا زمانہ شدید محنت کا زمانہ ہوتا ہے، آج تم اپنی محنت سے جو کچھ حاصل کروگے وہ عملی زندگی میں تمہارے بہت کام آئے گا۔اور ایک بات! قائد نے انگلی اُٹھاکر کہا۔ اللہ کے سِوا کسی سے نہ ڈرو ، متحد رہو، اتحاد تمہارے ملک کی غربت کو امارت میں بدل دے گا۔ ( باقی صفحہ 7پر)
س: قائد ہمارے دور کے بچوں سے بھی کوئی بات کریں، اس دور کے بچوں کو کیا کرنا چاہئے؟
ج: مطالعہ کرنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعہ۔ قائد نے اپنے مخصوص انداز میں دو ٹوک جواب دیا۔
مطالعہ کریں تاکہ دنیا سے باخبر رہیں اپنی تاریخ سے باخبر رہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں نے کس طرح ترقی کی، ہر مسلمان لڑکے اور لڑکی کو اپنی معلومات بڑھانی چاہئے۔
س: قائد! آپ نے لڑکیوں کی بات کی ہے تو یہ بتائیے کہ آپ لڑکیوں کی ترقی کے قائل ہیں؟
ج: ارے!! قائد نے اس بے وقوفی کی بات پر مجھے غور سے دیکھا۔
اگر میں لڑکیوں کی ترقی کا قائل نہ ہوتا تو فاطمی کو ہر وقت ساتھ رکھتا؟ انہوں نے اُلٹا مجھ سے سوال کرڈالا۔ اور میں نفی میں سرہلاکے رہ گئی۔ آپ نے تصویریں تو دیکھی ہونگیں۔ ہر تقریب ہر موقع پر وہ میرے شانہ بشانہ ہوتی تھیں۔ میں نے فاطمی کو خاندان بھر کی مخالفت کے باوجود کانونٹ میں داخل کرایا۔ میری دوسری بہن شیریںؔ نے میری ہدایت پر کار چلانا سیکھی تھی۔ اُس وقت بمبئی کے اخبارات میں یہ خبر چھپی تھی کہ مشہور بیرسٹر محمد علی جناح کی بہن شیریں جناح نے کار چلانا سیکھ لی اُس دن مجھے بہت خوشی ہوئی تھی۔ لڑکیوں اور عورتوں کو ملک کی ترقی میں ضرور حصّہ لینا چاہئے انہیں چاہئے کہ وہ ضرور مردوں کے ساتھ کام کریں۔ مگر مغربی زندگی کی برائیوں سے بچتے ہوئے… بالکل اُسی طرح جس رسول اللہﷺ کے زمانے میں عورتیں سارے کام کیا کرتی تھیں۔ لڑکیاں جتنی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں وہ ضرور کریں۔ مسلمان عورتیں اب بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔
لڑکیوں کو سماجی کاموں میں بھی آگے بڑھ کر حصّہ لینا چاہئے۔ میں فاطمیؔ اور اسکی سہلیوں سے کہا کرتا تھا تم لوگ کپڑوں اور دوپٹوں کے موضوعات سے باہر نکلو اور سماج کے لیے کام کرنے کی سوچو۔ ایک بار میں نے خواتین سے کہا تھا وہ رائفل شوٹنگ کی بھی پریکٹس کریں۔ رائفل چلانا سیکھیں تاکہ بہ وقت ضرورت اپنی حفاظت کرسکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ لڑکیوں کو اپنی کفالت خود کرنے کے لئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وقت پڑنے پر کوئی فیصلہ کرسکیں۔
س: قائد! میں نے سنا ہے کہ آپ اکثر غریب بچوں کی فیس اپنی ذاتی جیب سے ادا کردیا کرتے تھے۔
ج: قائد سوچ میں گم ہوگئے…مجھے لگا وہ جواب دینا نہیں چاہتے…مگر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد انہوں نے فرمایا۔ میں کس کس کی فیس ادا کرتا۔ اُن کے لہجے میں دُکھ تھا بڑے عجیب حالات تھے وہ۔ نیا ملک تھا، وسائل بے حد کم اور مسائل بہت زیادہ تھے، وہ دوبارہ کچھ سوچنے لگے۔ اصل میں لوگ مجھ سے سفارش کروانا چاہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے میری سفارش سے اُن کا کام بن جائے گا۔ اوّل تو میں سفارش کے خلاف ہوں دوسرے یہ کہ میرے کہنے سے کیا ہوتا۔ جب سرکار کے پاس پیسہ ہی نہیں تھا۔ اس لئے میں اپنی ذاتی جیب سے پیسے ادا کرتا تھا۔ ایک واقعہ سنو!
میرا ایک بیرا تھا…میر محمد خان…پاکستان بننے کے بعد میرے پاس آیا اور بولا آپ مجھے ایک خط لکھ کر دے دیں۔ میرے بچے کی فیس معاف کروانے کے لئے۔ میں غریب آدمی ہوں فیس نہیں دے سکتا میں نے پوچھا، تمہارے بچے کی فیس کتنی ہے؟ وہ بولا تیس روپے ، میں نے کہا یہ تیس روپے ہر ماہ تم مجھ سے لے لیا کرو۔ مگر میں تمہیں خط لکھ کر نہیں دے سکتا۔ کیونکہ اگر تمہیں خط لکھ کر دوں گا تو مجھ پر لازم ہوگا کہ پاکستان کے ہر بچے کی فیس معاف کروائوں کیونکہ پاکستان کے تمام بچے میرے بچے ہیں۔
میں نے دیکھا قائدکی آنکھوں میں آنسوئوں کی نمی تیررہی تھی۔
بچّو! آپ نے دیکھا! قائداعظم آپ سب سے کتنا پیار کرتے ہیں؟
س: قائد آپ نے اپنے بارے میں بہت ساری باتوں کی وضاحت کردی ہے بس ایک بات رہ گئی ہے اور یہ کہ آپ کس فرقے یا مسلک سے تعلق رکھتے تھے؟ کوئی لکھتا ہے کہ آپ آغا خانی تھے ، کوئی کہتا شیعہ… کسی نے لکھا آپ سُنی العقیدہ تھے تو کسی نے ثابت کیا کہ خوجہ… آج آپ خود ہی بتادیں۔
میں نے اپنے اس طویل سوال کے آخر میں قائد کو غور سے دیکھا…پہلے دیکھ لیتی تو سوال ادھورا چھوڑدیتی کیونکہ قائداعظم کے چہرے سے شفقت والی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی اور وہاں غصّے اور جلال کے آثار نمایاں تھے۔ What nonsence??۔ قائد کی آواز اتنی تیز تھی کہ میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ گیا۔
میں پہلے بھی کئی بار بتاچکا ہوں کہ میں صرف مسلمان ہوں۔ محمدی مسلمان اور بس۔ میں فرقوں اور مسلکوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ان کے لہجے میں شدید اکتاہٹ اور بیزاری تھی۔ یاد رکھیں! انہوں نے ایک بار پھر انگلی اُٹھاکر مجھے غصّے سے دیکھا یہ فرقے اور مسلک آپ کو کبھی بھی ایک قوم نہیں بننے دیں گے۔
مارے ڈر کے میں جلدی جلدی سر ہلانے لگی… مگر یہ کیا؟ پارک کی وہ بنچ اور میرے قریب کی وہ خالی جگہ میرا منہ چڑارہی تھی۔ قائد! میں نے ہلکے سے پکارا، قائد…میں کھڑی ہوگئی… قائداعظم! میری آواز آنسوئوں سے رَندھ گئی تھی۔ مجھے معاف کردیجئے۔ پلیز…واپس آجائیے، ابھی تو مجھے بہت ساری اہم باتیں آپ سے پوچھنی ہیں۔ واپس آجائیے قائداعظم …شش!! کیوں شورکررہی ہیں؟ گارڈ نے مجھے دور سے دیکھ کر ڈانٹا… جی؟ جی کچھ نہیں… میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور ہارے ہوئے انسان کی طرح خود کو بنچ پر گِرادیا… میرے آنسو میرے رُخساروں پر بہہ نکلے۔
قائد:آپ کہاں چلے گئے؟ قائد آپ مر نہیں سکتے۔ جب تک پاکستان قائم ہے، آپ بھی زندہ ہیں اور پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے قائد… میں دیر تک روتی رہی افسوس میں نے فرقوں کی بات کرکے اپنے قائد کی سرپرستی کو کھودیا۔
بچّو! میری بات غور سے سنو!
جو بھی پاکستانی، جب بھی یقین محکم، اتحاد، تنظیم کی عملی تصویر بننے کی کوشش کرے گا اُسے ضرور قائد کی ملاقات کا شرف حاصل ہوجائے گا۔ اگر آپ سچائی کی عادت کو اپنالیں تو دل کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں پھر آپ ان روشن آنکھوں سے نہ صرف قائد کو دیکھ سکیں گے بلکہ ان سے رہنمائی بھی حاصل کرسکیں گے۔ بس ایک بات کا خیال رکھنا، کبھی بھی فرقوں اور مسلکوں میں بٹ کر اپنے مسلمان ہونے کو نہ بھول جانا۔ لسانی و صوبائی نفرتوں میں پڑ کر اپنے پاکستانی ہونے کو نہ بھول جانا۔ اور غیروں کی تقلید کرتے کرتے اپنے آبائواجداد کی ہجرت اور ہجرت کے دُکھوں کو فراموش نہ کردینا۔ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد ہمیں ملا ہے اسکی قدروقیمت کا احساس کرو۔ اسکی عزت و ناموس کا پاس کرو ۔اِس پاکستان کی عزت کا جس کی خاطرقائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جان قربان کردی۔ میرا یقین ہے کہ میرے قائد شہادت کی موت مرے ہیں۔ وہ شہید تھے۔ وہ شہید وفا تھے۔ انہوں نے قوم سے جو وعدہ کیا تھااسے وفا کرنے کی خاطر موت کو گلے لگا لیا۔ اللہ تعالی قائداعظم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
نوٹ -اس انٹریو کے تمام جوابات قائداعظم کی مختلف سوانح حیات میں موجود حقائق پر مبنی معلومات کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں۔

حصہ