بزمِ یارانِ سخن کراچی نے گزشتہ ہفتے کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ میں عشائیہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی نے کی۔ اکرم کنجاہی مہمان خصوصی تھے جب کہ آئرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ علی کوثر نے تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی۔ اختر سعیدی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس پروگرام میں بزمِ یارانِ سخن کے صدر سلمان صدیقی نے سعید الظفر صدیقی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کہا کہ آج کے صدر مشاعرہ سائنس دان‘ شاعر اور نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی پروگراموں کے پروموٹر بھی ہیں۔ ان کے 9 شعری مجموعے اور 7 نثری کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان کے فن و شخصیت پر پنجاب یونیورسٹی کی ایم اے کی طالبہ نازیہ ممتاز ملک نے تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر مظہر حامد نے ان کے فن و شخصیت پر کتاب لکھی ہے‘ ان کی تالیف کردہ ’’موضوعاتِ قرآن انسائیکلو پیڈیا‘‘ عالمی شہرت کی حامل ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تمام عنوانات شامل ہیں ان کی نظمیں بھی بڑی اہم ہیں جن میں غنائیت کے ساتھ سبق آموز استعارے اور تلمیحات شامل ہیں۔ شاعر علی شاعر نے اکرم کنجاہی کے بارے میں کہا کہ ان کا تعلق بینکاری سے ہے تاہم اردو زبان و ادب میں بھی یہ اپنی شناخت بنا چکے ہیں۔ یہ شاعر‘ ادیب‘ نقاد ہونے کے علاوہ بہترین نظامت کار بھی ہیں۔ انہوں نے ٹی وی پر طویل عرصے تک اپنے پروگرام پیش کیے جو دنیا بھر میں پسند کیے گئے۔ انہوں نے اب تک جو کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں ان میں 4 شعری مجموعے‘ 5 کتابیں تحقیق و تنقید پر‘ فنِ تقریر پر 2 کتابیں اور بینکنگ کے حوالے سے دو کتابیں شامل ہیں۔ نیز ایک سہ ماہی ادبی رسالہ بھی ان کے کریڈٹ پر ہے۔ شعر و سخن کی ترویج و ترقی ان کی زندگی کا محور ہے تاہم مشاعروں میں بہت کم جاتے ہیں۔ علم و عروض پر بھی انہیں دسترس حاصل ہے‘ تنقید کے میدان میں بھی یہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں مجھے امید ہے کہ ان کو تحقیقی و تنقیدی کام پر مزید عزت و شہرت ملے گی۔ صاحبِ صدر تقریب سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ اکرم کنجاہی تنقید نگاری میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں اور شاعری میں بھی ان کا مضبوط حوالہ ہے۔ خوب صورت جملوں کے ساتھ ان کا لہجہ بہت بے باک ہوتا ہے‘ ان کی تنقید میں سچائیاں شامل ہیں‘ یہ کسی کی چاپلوسی نہیں کرتے‘ ہمیشہ سچائی کے علم بردار نظر آتے ہیں۔ ان کا انداز بیاں سادہ اور پُرمغز ہوتا ہے‘ یہ ایک اہم عہدے پر فائز ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ آج کی تقریب پروفیسر جاذب قریشی کے لیے ترتیب دی گئی تھی وہ اپنی بیماری کے سبب نہیں آسکے ہیں تاہم ان کی صحت یابی پر ہم کوئی پروگرام بنائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاذب قریشی نے جدیدیت کے دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا لیکن وہ اپنے ہم عصر شعرا اور نقادوں سے بہت آگے ہیں انہوں نے جو علامات اور استعارے استعمال کیے وہ کسی اور کے یہاں نہیں ملتے‘ ان کی غزلیں تہ داری لیے اپنے عہد سے بہت آگے ہیں‘ ان کی تنقید نگاری ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے معاصرین پر لکھنا بڑے حوصلے اور جرأت کا کام ہے انہوں نے جن لوگوں پر لکھا وہ سب کے سب ادب میں نمایاں مقام کے حق دار قرار پائے۔ جاذب قریشی کا ڈکشن سب سے الگ ہے ان کی غزلیں اور نظمیں زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطا فرمائے اور وہ ہمارے درمیان غزل سرا ہوں۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ حنیف عابد‘ حامد علی سید‘ شاعر علی شاعر‘ ناہید عزمی‘ عارف شیخ‘ یاسر صدیقی‘ سلمان عزمی‘ شائستہ سحر‘ یاسمین یاس‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور ناز عارف ناز نے اپنا کلام پیش کیا۔ عارف شیخ نے کلماتِ تشکر ادا کیے انہوں نے کہا کہ ہماری تنظیم بزمِ یارانِ سخن اپنی مدد آپ کے تحت ادبی تقریبات منعقد کرا رہی ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اپنے تمام دوست شعرا کو مشاعرے میں شامل کریں تاہم وقت کی کمی اور حالات کے پیش نظر ہم ایسا نہیں کر پاتے‘ جو شعرا آج آئے ہیں ہم ان کے ممنون و شکر گزار ہیں۔ پروگرام کے آخر میں عشائیہ پیش کیا گیا۔