(دوسرا اور آخری حصہ)
’’اردو غزل کے سو برس‘‘ پر عنبرین حسیب عنبر نے اپنے مقالے میں غزل کا مابعد جدید تناظر جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ غزل ہماری تہذیب کا ہم عصر رہی ہے تاہم حالیہ دور جدید تہذیبی زندگی نے غزل کا مزاج تبدیل کر دیا ہے۔ رخسانہ صبا نے اردو ادب میں طرز احساس کی تبدیلیوں کے موضوع پرمقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں غزل میں حسن و عشق سے ہٹ کر دیگر موضوعات شامل کر دیے گئے تاہم موجودہ دور میں غزل میں جدیدیت کا عنصر نمایاں دکھائی دیتا ہے‘ فیض سمیت دیگر ہم عصر شعرا نے اپنی غزلوں میں سیاسی اور سماجی عناصر عناصر کو شامل کرکے غزل کا انداز اور احساس ہی بدل دیا‘ جدید غزل کے دور میں کچھ شعرا نے غزل میں مضحکہ خیز عناصر شامل کیے تاہم ان تجربات کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ فہیم شناس کاظمی نے ’’اردو غزل اور سماجی رویے‘‘ سے متعلق اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ غزل ہماری تہذیب کی شان اور اردو شاعری کی عظیم علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں صدی کے آغاز پر غزل کی تشریحات میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے ’’غزل اور ہمارے تہذیبی تشخص کی بازیافت‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالے میں کہا کہ ہندوستان میںاردو زبان کو تہذیبی بنانے میں غزل نے اہم کردار ادا کیا‘ جب کہ دیگر علاقائی زبانوں میں غزل کا کہا جانا معاشرے کی ہم آہنگی کا سبب ثابت ہوا۔ ڈاکٹر ضیا الحسن نے لاہور سے وڈیو لنک کے ذریعے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے ’’اردو غزل پر جدیدیت کے اثرات‘‘ پر اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جدید دور کے نقوش صدیوں پہلے ہی غالب کی غزلوں میں نمایاں ہیں‘ بعد میں غزل کا یہی رنگ و روپ اقبال سمیت دیگر شعرا کے کلام میں بھی ظاہر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ غزل کے تخیلاتی عنصر کے مقابلے میں موجودہ غزل میں فکر کا عنصر نمایاں رہا۔ گفتگو کی نظامت ناصرہ زبیری نے انجام دیے۔
یاد رفتگاں کے حوالے سے تیسرے روز کے تیسرے اجلاس میں ندیم ظفر صدیقی نے نظامت کی جب کہ مسعود مفتی‘ مظہر محمود شیرانی‘ سرور جاوید‘ پروفیسر عنایت علی خان‘ راحت اندوری‘ اطہر شاہ خان (جیدی) کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی گئی‘ اس کے بعد پشتو زبان و ادب کے سو برس کے عنوان سے اجلاس ہوا جس کی میزبانی فوزیہ خان نے کی۔ مہمان خصوصی اباسین یوسف زئی تھے جنہوں نے کہا کہ پشتو ادب کا آغاز گزشتہ صدی کے اوائل میں ہو گیا تھا اور پشتو افسانے اور ناول منظر عام پر آگئے تھے‘ اب مزاحمتی شاعری کے سبب پشتو ادب کا اصل رنگ مجروح ہو رہا ہے۔ پنجابی ادب کے سو برس کے موضوع پر ثروت محی الدین نے لاہور سے آن لائن گفتگو کی جب کہ توقیر چغتائی اور بشریٰ ناز نے اظہار خیال کیا۔ اس سیشن کی نظامت عاصمہ شیرازی نے کی۔ مقررین نے اپنے اپنے مقالوں میں اس بات پر زور دیا کہ جب تک پنجابی زبان اسکولوں کی سطح پر نہیں پڑھائی جائے گی‘ تب تک یہ زبان فروغ نہیں پا سکتی‘ اس زبان میں زندگی کے تمام موضوعات پر اشعار موجود ہیں اور پنجابی ادب کے رول ماڈل بھی موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جائے۔ تعلیم کے سو برس کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی جانب سے پیش کردہ اصلاحات کو دیگر صوبوں سے بھی شیئر کیا جارہا ہے ہم تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ پروفیسر نعمان احمد نے کہا کہ جامعات میں تحقیق کے معیار پر تحفظات ہیں اس سلسلے میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اس کانفرنس کے تیسرے روز کلیاتِ جوش اور مظہر عباس کی کتاب ’’اور پھر یوں ہوا‘‘ پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور جوش ملیح آبادی کی 126 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۰ اردو صحافت کے سو برس کے اجلاس میں معروف صحافی وسعت اللہ خان نے کہا کہ ماضی کی صحافت میں پروفیشنلزم کا عنصر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا‘ معروف اینکر عاصمہ شیرازی نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ آج کل صحافت میں کٹھ پتلیوں کا دورہے‘ پہلے ایک سرکاری ٹی وی تھا اور آج ستر ہیں‘ انہوں نے کہا کہ موجود دور میں ایک ریموٹ کنٹرول معاشرہ تشکیل پا چکا ہے۔ نامور صحافی سہیل وڑائچ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حالیہ صحافت میں تحریری پابندیاں نہیں مگر دراصل پابندیاں موجود ہیں۔ کچھ چینلز پر پابندیاں ہیں جب کہ کچھ آزاد ہیں تاہم اس کے باوجود صحافت نے عوام کے ذہنوں کو وسعت عطا کی اور یہی صحافت کا کمال ہے۔ صحافی‘ کالم نگار مظہر عباس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کے بغیر صحافت اپنا وجود نہیں رکھتی‘ پہلے اخبارات کی پالیسیاں ایڈیٹر طے کرتے تھے اب مارکیٹنگ والے طے کرتے ہیں۔ نامور صحافی وجاہت مسعود نے صحافت کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانے میں ایڈیٹر کا نعم البدل کیبل آپریٹریز کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کی مرضی سے ہی حقائق عوام تک پہنچ پاتے ہیں۔ صحافی اویس توحید نے کہا کہ نوے کی دہائی میں صحافت کے فروغ کا آغاز ہوا جب کہ صدی کے آغاز سے صحافیوں میں خوش حالی کا دور آیا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دور میں پاکستانی صحافت کو بڑے چیلنجزکا سامنا ہے‘ موجودہ صحافت میں اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آرہی اور صحافت میں مزاحمت دم توڑتی نظر آرہی ہے۔
’’اردو کا شاہکار مزاح‘‘ کے عنوان سے ہونے والے اجلاس میں ادکار و صداکار ضیا محی الدین نے مرزا فرذحت اللہ بیگ‘ مشتاق یوسفی‘ ابن انشاء اور پطرس بخاری کے مضامین پیش کیے اور خوب داد حاصل کی۔
کانفرنس کے تیسرے روز کے آخری اجلاس میں عالمی مشاعرہ ہوا جس کی نظامت عنبرین حسیب عنبر نے کی اور سحر انصاری اس مشاعرے کے صدر تھے۔ جن شعرا نے آن لائن کلام پیش کیا ان میں منظر بھوپالی‘ خوشبیر سنگھ شاد‘ فرحت احساس‘ عشرت آفرین‘ شاہدہ حسن‘ افتخار عارف‘ امجد اسلام امجد‘ انور مسعود‘ یاسمین حمید اور حمیدہ شاہین شامل تھے جب کہ انور شعور‘ صابر ظفر‘ ریحانہ روحی‘ عباس تابش‘ اجمل سراج‘ وحید نور‘ سلمان احمد‘ رحمن فارس‘ حارث خلیق‘ علاء الدین خانزادہ‘ عنبرین حسیب عنبر‘ قمر رضا شہزاد‘ اشفاق حسین‘ ناصرہ زیدی‘ غزل انصاری‘ ثروت زہرہ اور دیگر شعرا نے کلام پیش کیا۔ صاحب صدر نے اپنے کلام کے ساتھ ساتھ خطبۂ صدارت میں اس کامیاب مشاعرے پر احمد شاہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ کانفرنس کے چوتھے روز کے پہلے اجلاس میں ’’اردو تنقید اور تحقیق کے سو برس‘‘ کے موضوع پر شافع قدوائی نے آن لائن صدارت کی۔ حمیدہ شاہین نے بھی آن لائن بات کی جب کہ قاضی عابد نے جدید تنقیدی نظریات اور اردو فکشن کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں صاحب صدر نے کہا کہ علم کسی کی میراث نہیں لہٰذا یہ جہاں سے بھی میسر ہو اسے حاصل کیا جائے۔ اس کے بعد ہونے والے اجلاس میں ’’اردو میں ایک صدی کے نثری ادب‘‘ کے موضوع پر افضال احمدسید نے کہا کہ اردو میں تراجم کا کام صرف ایک یونیورسٹی میں ہو رہا ہے اس کا احاطہ وسیع کیا جائے۔ عقیل عباسی جعفری نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد تذکرے اور تاریخ کی کتابوں میں خاطر خواہ کام نظر نہیں آرہا۔ رئوف پاریکھ نے کہاکہ اردو لغت کی تیاری ایک قابل تحسین کام ہے۔ فرحت پروین نے کہا کہ تراجم کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ عرفان جاوید نے کہا کہ خاکہ نگاری کا فن تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ کانفرنس چوتھے روز کے تیسرے اجلاس میں یارک شائر ادبی فورم کا انعقاد ہوا جس میں ڈاکٹر یونس حسنی اور محمد یامین کو ادبی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز پیش کیے گئے۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ ’’بچوں کا ادب‘‘ کے موضوع پر علی حسن کی میزبانی میں نیر رباب نے کہا کہ بچوں کے تخیلات ہر زمانے میں یکساں رہتے ہیں تاہم ٹیکنالوجی کے سبب ہماری معاشرتی اقتدار اور بچوں کے ذہن متاثر ہورہے ہیں۔ رئوف پاریکھ نے کہا کہ بچوں کے تخیل کو پیدا کرنے کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس کی گئی اور وہ قلم کار کامیاب ہیں جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق اپنے جملے لکھتے ہیں۔ رضا علی عابدی نے آن لائن خطاب میں کہا کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اس روز عالمی میں کانفرنس میں چھ کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی جن میں سلطان احمد نقوی کی مرتب کردہ کتاب شاعر‘ مصور‘ خطاط صادقین‘ نجید عارف کی کتاب راگنی کے کھوج‘ بھیشم ساہنی کی کتاب امرتسر آگیا‘ آصف فرخی کلا آخری شمار ’’دنیا زاد‘‘ شکیل جاذب کی کتاب نمی دانم اور نصیر وارثی کا سہ ماہی ’’ورثہ‘‘ شامل ہیں۔ اجلاس کی نظامت راشد نور نے کی۔
’’سندھی زبان و ادب کے سو برس‘‘ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں طارق قریشی نے کہا کہ اب سندھی ادب میں خواتین کے مسائل بھی اجاگر کیے جارہے ہیں جو کہ ایک قابل ذکر کام ہے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد اردو کو قومی زبان اور انگریزی کو سرکاری زبان بنائے جانے کے بعد سندھی ادب و زبان کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ سندھ دھرتی والوں نے اردو سے بھی پیار کیا ہے ہم امن و محبت کے امین ہیں۔ جامی چانڈیو نے کہا کہ سندھی کلاسیکل ادب کی کڑیاں گیارہویں صدی سے ملتی ہیں۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر ایوب شیخ نے کی۔ اس روز کے ایک اجلاس میں ہمایوں سعید اور سہیل احمد کے ساتھ ملاقات کے سیشن ہوئے جس میں بہت معلوماتی باتیں ہوئیں جن سے ہمارے ذہنوں میں جدید معلومات کا اضافہ ہوا۔ اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے عالمی اردو کانفرنس میں شریک ہونے والے تمام مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا اور کانفرنس کی کامیابی پر انہیں مبارک باد پیش کی۔ اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ کورونا وبااگر کنٹرول میں آجاتی ہے تو 23 مارچ کے پہلے ہفتے میں قومی ثقافتی کانفرنس منعقد کریں گے جس میں تمام زبانوں اور ثقافتوں کو جمع کیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے آئندہ سال 2 تا 5 دسمبر کو 14 ویں عالمی اردو کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اجلاس کے اختتام پر انہوں نے مختلف قراردادیں بھی پیش کیں حاضرین نے ہاتھ اٹھا کر قرارداد کی بھرپور تائید کی۔