ہوش کریں

387

آپ 1939ء کی دنیا کو دیکھیں‘ برطانیہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھا‘ بادشاہ کا سورج حقیقتاً غروب نہیں ہوتا تھا‘ برمودا میں مغرب کا وقت ہوتا تھا تو نیوزی لینڈ میں سورج نکل آتا تھا‘ کلکتہ اندھیرے میں ڈوبتا تھا تو ساؤتھ افریقہ روشن ہو جاتا تھا‘ فجی کے جزیروں کی روشنی مدہم پڑتی تھی تو جبرالٹر میں سورج اُگ آتا تھا۔ چنانچہ دنیا میں اس وقت صرف ایک ہی طاقت‘ ایک ہی ملک تھا جس کی سورج پر بھی حکمرانی تھی اور وہ تھا برطانیہ۔
بادشاہ کی آنکھ کھلتی تھی تو اس کی سلطنت پر کہیں روشنی کاشت ہو رہی ہوتی تھی اور یہ سرہانے پر سر رکھتا تھا تو دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں سورج اس کی حکمرانی کی چوکی داری شروع کر رہا ہوتا تھا‘ لیکن پھر صرف چھ سال بعد برطانیہ کا سورج ڈوب گیا‘ دنیا کے 64 ملک برطانیہ کے ہاتھ سے پھسل گئے اور ملکہ سمٹ کر انگلینڈ تک محدود ہو کررہ گئی اور اس کا حکم محل کے سامنے موجود فوارے پر بھی نہیں چلتا‘ برطانیہ کے عروج اور اِس زوال کی وجہ‘ تنازع اور جنگ تھی۔
برطانیہ طاقت کے زعم میں اپنی تمام کالونیوں کے تنازعوں میں الجھ گیا تھا اور اس نے آخر میں عالمی جنگ چھیڑ دی تھی‘ یہ جرمنی پر پل پڑا تھا‘ جرمنی برطانیہ کے مقابلے میں چیونٹی تھا‘ ہاتھی چیونٹی سے لڑ پڑا‘ چیونٹی کا کچھ نہیں گیا لیکن ہاتھی کا بیڑا غرق ہو گیا‘ دوسری جنگِ عظیم کے آخر میں کرہّ ارض پر پانچ کروڑ لاشیں اور زخمی پڑے تھے اور آدھی دنیا ملبے کا ڈھیر تھی‘ یہ جنگ جاپان اور جرمنی ہار گئے لیکن برطانیہ بھی اس کے بعد برطانیہ نہیں رہا۔
بادشاہ کا راج سمٹا اور ہر ملک میں اپنا اپنا سورج طلوع ہونے لگا یہاں تک کہ آج انگلینڈ میں بھی آدھا سال سورج نہیں نکلتا اور لوگ دوپہر کے وقت بھی راستہ ٹٹول ٹٹول کر گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے ہیں‘ تنازعے اور جنگیں یہ ہوتی ہیں‘ یہ برطانیہ جیسی طاقتوں کو بھی نگل جاتی ہیں‘ آپ اب ایک دوسری حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان دو تھے‘ ایک پاکستان 1971 تک تھا اور دوسرا 1972 میں پیدا ہوا تھا‘ ہم 1971 تک آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھے‘ ہم اس وقت تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں بھی شامل تھے‘ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں تھا‘ پاکستان کا ریلوے دنیا کے بہترین ریلویز میں شامل تھا‘ ہمارے واپڈا کو ورلڈ بینک ریاست کی گارنٹی کے بغیر قرض دے دیتا تھا‘ منگلا ڈیم کے لیے انٹرنیشنل بڈ ہوئی تھی اور دنیا کی تین بڑی کمپنیوں نے کنسورشیم بنا کر یہ بڈ جیتی تھی‘ ہارورڈ یونیورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے طالب علموں کا پورا پورا بیچ منگلا آ کر ہمارے آبی منصوبوں پر تحقیق کرتا تھا‘ ہماری پی آئی اے دنیا بھر کی ائر لائنز کو ٹریننگ دیتی تھی‘ عرب ملک اپنے طالب علموں کو پڑھنے کے لیے پاکستان بھجواتے تھے۔
ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں غیر ملکی طالب علموں کے لیے کوٹہ بھی ہوتا تھا اور ان کے لیے الگ ہاسٹل بھی‘ پاکستان دنیا کی بڑی سیاحتی منزلوں میں بھی شامل تھا‘ ہم دوسری اور تیسری دنیا کے فوجیوں کو ٹریننگ بھی دیتے تھے اور کوریا‘ ملائیشیا‘ تھائی لینڈ اور مشرقی یورپ کے ملک ہمارے معاشی منصوبوں کی کاپی بھی کرتے تھے‘ ہماری ایکسپورٹس بھی امپورٹس سے زیادہ تھیں اور ہمارے قرضے بھی نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا ہم اس وقت بھارت کو بھی آنکھیں دکھا لیتے تھے اور اقوام متحدہ اور یورپی یونین میں بھی دھڑلے سے بات کر تے تھے۔
پاکستان کے اندر بھی صورت حال مختلف تھی‘ بنگالی ہم سے زیادہ پڑھے لکھے‘ سمجھ دار‘ مہذب اور عاجز تھے‘ یہ اُڑتے ہوئے بھی اپنے قدم زمین سے چپکائے رکھتے تھے‘ یہ پارلیمنٹ میں بھی زیادہ تھے اور بیورو کریسی اور بزنس میں بھی‘ ہمارے زر مبادلہ کا 60 فیصد حصہ مشرقی پاکستان کی پٹ سن سے آتا تھا‘ ہماری پولیس اور بیورو کریسی کے ٹرینرز بنگالی تھے اور ہمارے زیادہ تر ٹریننگ سینٹرز بھی آج کے بنگلہ دیش میں تھے چنانچہ 1971 کا پاکستان مضبوط‘ ترقی پذیر اور عالم اسلام کی امامت کرتا ہوا پاکستان تھا لیکن پھر ہم پنجابی سورماؤں کی وجہ سے 60 فیصد پاکستان ہم سے الگ ہو گیا اور یہ جاتے جاتے ہماری امامت‘ ترقی اور مضبوطی ساتھ لے گیا۔
وہ پاکستان1971 میں چھوٹا ہو گیا لیکن ہماری 25 سال کی کریڈیبلٹی بھی موجود تھی‘ ہم نے اگلے 25 سال اس کریڈیبلٹی پر گزار لیے‘ ہمیں اس دوران افغان وار کے ذریعے امداد اور اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن پاکستان پر کیوں کہ پنجابی اشرافیہ قابض ہو چکی تھی اور ہم پنجابیوں میں ادارے بنانے اور چلانے کی صلاحیت کم ہوتی ہے لہٰذا ہم نے اگلے 25 برسوں میں ہر ادارے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔
دنیا کی دوسری بڑی اسٹیل مل ہو‘ پی آئی اے جیسا ادارہ ہو‘ وہ واپڈا ہوجو کبھی ملک کی ’’ساورن گارنٹی‘‘ ہوتا تھا‘ ریلوے ہو‘ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہو‘ ڈیم ہوں یا پھر تعلیمی ادارے ہوں ہم نے تمام اداروں کا جنازہ نکال دیا‘ 1977 کے مارشل لا اور افغان وار کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہو گئی اور نئی سیاسی قیادت کے نام پر کم زور‘ نالائق‘ اَن پڑھ اور کرپٹ لوگوں کو سیاست میں لے آئی۔
ادھر وکلا کے دھڑے بزنس مینوں‘ سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کی پشت پناہی کرنے لگے اور یوں ملک میں دھونس‘ دھاندلی اور خرید و فروخت کا سلسلہ شروع ہو گیا‘ اس ساری کنفیوژن اور قیاس کے دوران دو نئے پاور سینٹرز نے بھی جنم لے لیا‘ پہلی طاقت مذہبی تنظیمیں تھیں اور دوسرا میڈیا تھا‘ یہ بھی میدان میں کود پڑے اور یوں رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ اس سارے کھیل کے دوران دو بنیادی ادارے قتل ہو گئے‘ پہلا ادارہ بیورو کریسی تھی‘ یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی۔
آپ آج محکمۂ صحت سے لے کر ٹیکس کولیکشن تک سارے سرکاری ادارے دیکھ لیں آپ کو ایک بھی ادارہ کام کرتا دکھائی نہیں دے گا‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا پارلیمنٹ اور بیورو کریسی کے کسی رکن کا کوئی بچہ سرکاری اسکول میں پڑھ رہا ہے‘ کیا یہ لوگ ٹونٹی سے پانی پی رہے ہیں‘ سرکاری اسپتال میں علاج کرا رہے ہیں‘ سرکاری وکیل کے ذریعے اپنا مقدمہ لڑ رہے ہیں‘ کیا یہ رائفل بردار گارڈز کے بغیر رات کے وقت اپنے سرکاری گھر میں سو سکتے ہیں اور کیا یہ سرکاری ادویہ کھا رہے ہیں؟ جی نہیں! کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہمارا سارا سرکاری اور ریاستی نظام دم توڑ چکا ہے‘ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اپنی ضرورت کی گندم بھی نہیں اگا پا رہے۔
ہم سے چینی‘ پیٹرول اور ادویہ بھی کنٹرول نہیں ہو رہیں اور ہم کورونا کے ایس او پیز پر بھی عمل درآمد کے قابل نہیں ہیں‘ ریاست کی حالت یہ ہے یہ فیض آباد کا دھرنا ختم کرانے کے لیے بھی مظاہرین کی تمام شرائط ماننے کے لیے تیار ہو جاتی ہے اور ان شرائط میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنا بھی شامل ہوتا ہے‘ گویا ہم ایک ایسا ملک بن چکے ہیں جس میں سفارت کاری کے فیصلے بھی دھرنوں کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ آپ آج عدالتوں میں چلے جائیں‘ مقدموں کا انبار ہے اور ججز کی تعداد انتہائی کم ہے‘ اسپتالوں کا دورہ کر لیں‘ سڑک سے آپریشن تھیٹر تک مریض ہی مریض ہیں‘ تعلیمی ادارے ڈگریوں کے پرنٹنگ پریس بن چکے ہیں‘ پاکستان ہیپا ٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے‘ 52 فیصد آبادی بلڈ پریشر کی مریض ہے۔
ہم شوگر میں چوتھے نمبر اور ٹی بی میں دنیا میں پانچویں نمبر پر آتے ہیں‘ دنیا میں صرف دو ملکوں میں پولیو موجود ہے اور ہم دوسرا ملک ہیں‘ ملک میں مذہبی منافرت انتہا کو چھو رہی ہے‘ کوئی کسی کو بھی کسی بھی وقت کافر کہہ کر واجب القتل قرار دے دیتا ہے اور ریاست پتلی گلی سے نکل جاتی ہے‘ لوگ عدالتوں میں قتل ہو جاتے ہیں اور جج اور وکلا زمین پر لیٹ کر جان بچاتے ہیں اور اس کے بعد ریاست میں قاتل کو قاتل کہنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔ ہماری پوری اکانومی قرضوں کی مرہون منت ہے‘ آج چین‘ سعودی عرب اور امریکا ہاتھ کھینچ لے‘ ہمیں آج ایف اے ٹی ایف بلیک لسٹ میں ڈال دے تو ہم کل ڈیفالٹ کر جائیں گے لیکن 1971 کا پاکستان اس سے بالکل مختلف تھا‘ صدر بھی ٹونٹی کا پانی پیتا تھا اور اس کے بچے بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھتے تھے۔
یہ حقائق خوف ناک ہیں لیکن ان حقائق سے بھی زیادہ خوف ناک حقیقت یہ ہے کہ ہم ان حقائق کو حقیقت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ دنیا بدل بھی چکی ہے اور یہ ہم سے بہت آگے بھی جا چکی ہے‘ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ہمارے سارے مسئلے ہمارے اپنے پیدا کیے ہوئے ہیں‘ ہم نے دنیا میں اپنا کوئی ایک دوست نہیں چھوڑا‘ روس سے لے کر امریکا تک ہم نے سب کے ساتھ سینگ پھنسا رکھے ہیں‘ ہم اندر بھی لڑ رہے ہیں اور باہر بھی‘ ہم چڑیا گھر کا ایک ہاتھی نہیں پال سکتے لیکن ہم دہلی کے لال قلعے پر پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔
ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہم دنیا میں غیرمتعلقہ ہو چکے ہیں‘ آج سعودی عرب نے تاریخ میں پہلی بار بھارت کے آرمی چیف کو سرکاری دورے پر بلا لیا اور امریکا اور او آئی سی نے کشمیر پر بھارت کا مؤقف مان لیا‘ ہم یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں بنگلہ دیش ہم سے آگے نکل چکا ہے اور ہم یہ بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ہمیں ہمارے تنازعے کینسر کی طرح کھا رہے ہیں‘ خدا کے لیے آنکھیں کھولیں‘ پنجابی ازم سے باہر آئیں اور تنازعے اور جنگیں ختم کریں کیوں کہ یہ دونوں وہ چیزیں ہیں جنھوں نے برطانیہ جیسی طاقت کا سورج بھی گل کر دیا تھا‘ ہم کس کھیت کی مولی ‘ کہاں کے سورما ہیں لہٰذا ہوش کریں اور آنکھیں کھولیں۔

حصہ