آرٹس کونسل کراچی کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس

290

گزشتہ برسوں کی طرح اس برس بھی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت میں زہرہ نگاہ‘ پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ زاہدہ حنا‘ نورالہدیٰ شاہ‘ حسینہ معین‘ پروفیسر سحر انصاری‘ قدسیہ اکبر‘ شاہ محمد مری‘ یوسف خشک شامل تھے۔ جب کہ افتخار عارف‘ گوپی چند نارنگ اور یاسمین حمید نے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔
۔13 ویں عالمی اردو کانفرنس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ نے کہا کہ اردو تمام زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ آرٹس کونسل کا یہ عالمی کانفرنس تمام ثقافتوں کو آپس میں جوڑنے کی ایک کڑی ہے اس کا سارا کریڈٹ احمد شاہ کو جاتا ہے جن کی سربراہی میں یہ ادارہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ زہرہ نگاہ نے کہا کہ آج کے اجلاس میں تمام زبانوں کی نمائندگی ہو رہی ہے اردو کے علاوہ بھی تمام قومی زبانیں ہمارا سرمایہ ہے۔ احمد شاہ نے کہا کہ پاکستان کی کسی بھی زبان سے اردو زبان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے اس کانفرنس کا مقصد بھی یہ ہے کہ مختلف الخیال اہل علم و دانش آپس میں مل بیٹھیں۔ قلم کاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ محبت و امن کا پیغام دنیا بھر میں پھیلائیں۔ گوپی چند نرائن نے کہا کہ کراچی آرٹس کونسل جو کام کر رہی ہے وہ پورے برصغیر کے لیے مثال ہے۔ افتخار عارف نے کہا کہ پاکستان میں زبانوں کو سیاسی مسئلہ بنالیا گیا ہے اردو تمام لوگوں سے محبت کرتی ہے۔ سحر انصاری نے کہا کہ ادب کو جتنا فروغ اس صدی میں ملا ہی اس سے پہلے کبھی نہیں ملا۔ ادب سکھانے میں زبانوں کا اہم کردار ہے۔ شمیم حنفی نے کہا کہ اردو زبان بادِ نسیم کی طرح سرحدوں کے آر پار چلتی ہے یہ ہماری ادبی اور تہذیبی روایت کی آئینہ دار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ یہ اردو کانفرنس نامساعد حالات میں بہترین کارکردگی کا عملی مظاہرہ ہے۔ نورالہدیٰ شاہ نے کہا کہ ہم نے نفرتوں کے سبب مشرقی پاکستان کھو دیا‘ قلم کاروں سے درخواست ہے کہ آپ ہر اوّل دستے کے طور پر آگے آئیں اور نفرتوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ زاہدہ حنا نے کہا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو حق ملنا چاہیے۔ شاہ محمد مری نے کہا کہ بلوچستان میں ادب کے فروغ کے لیے کام ہو رہا ہے۔ حسینہ معین نے کہا کہ انہیں اردو سے محبت ہے یہ زبان ختم نہیں ہوگی۔
پہلے روز کے دوسرے اجلاس میں آصف فرخی کے لیے تعزیتی ریفرنس ہوا جس میں زہرہ نگاہ‘ افتخار عارف‘ شمیم حنفی‘ آمنہ سید‘ غزل آصف‘ افضال احمد سید‘ مبین مرزا‘ عذرا عباس اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے آصف فرخی کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی جس کا لب و لباب یہ ہے کہ آصف فرخی بہترین منتظم اور لکھاری تھے۔ اس دن کے تیسرے سیشن میں جن کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی اس میں مبین مرزا کی کتاب ’’ارڑنگ‘‘ حمیرا خلیق کی کتاب کلامِ رابعہ پنہاں‘ تنویر انجم کی کتاب نئی زبان کے حروف‘ کاظم سعید کی کتاب دو پاکستان‘ مسعود قمر کی کتاب بارش بھرا تھیلا‘ طاہر کاظمی کی کتاب کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ شامل تھی۔
اس پروگرام کے بعد نوجوانوں کا مشاعرہ منعقد کیا گیا‘ جن شعرا نے اپنا کلام پیش ان میں خدیجہ نقوی‘ سبیلہ انعام صدیقی‘ عبدالرحمن مومن‘ حذیفہ ہارون‘ اسامہ امیر‘ اورنگ زیب ثانی‘ عمار اقبال‘ عائشہ ناز‘ عامر امیر‘ جواد شیخ‘ سلمان ثروت‘ نعیم سمیر‘ احمد جہانگیر‘ ہدایت سائر‘ کامی شاہ‘ احمد وقاص‘ ضیا ضرار‘ ارشد امیر اور عباس ممتاز شامل تھے۔
۔13 ویں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن کے پہلا اجلاس اردو نظم ’’سو برس کا قصہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر فاطمہ حسن نے خواتین نظم نگار۔ ایک صدی کا جائزہ‘ تنویر انجم نے مابعد حسیّت‘ نثری نظم اور نئی نسل پر گفتگو کی۔ نعمان الحق نے آن لائن گفتگو کی۔ ان کا موضوعِ سخن اردو نظم کے متنوع رنگ جب کہ نجیبہ عارف نے اسلام آباد سے آن لائن اردو نظم نائن الیون کے اثرات پر گفتگو کی۔ دوسرے دن کے دوسرے اجلاس میں اردو ناو ل کی ایک صدی کے عنوان سے مذاکرہ ہوا جس میں ڈاکٹر عابد نے اردو ناول پر تہذیبی اور سیاسی عناصر پر بات کی۔ ضیا الحسن نے لاہور سے اردو ناول کے ثقافتی سروکار پر آن لائن بات کی۔ حمید شاہد نے اردو ناو ل کے اسلوبی تجربات پر گفتگو کی۔ اس دن کے تیسرے اجلاس میں نعتیہ اور رثائی ادب کی ایک صدی پر مختلف صاحبانِ فکر و دانش نے گفتگو کی۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر عالیہ امام نے کی۔ آن لائن گفتگو کرنے والوں میں ڈاکٹر کاشف عمران‘ ڈاکٹر ریاض مجید شامل تھے۔ فراست رضوی نے اردو میں رثائی ادب‘ ڈاکٹر شہزاد نے ایک صدی میں اردو نعت کے اہم سنگ میل اور صبیح رحمانی نے نعت کے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔ اس سیشن میں صاحبان علم و ہنر نے کہا کہ کربلا کو رثائی ادب میں مرکزیت حاصل ہے جب کہ نعت رسولؐ ہمارے دین کا حصہ ہے۔ اب نعتیہ ادب میں بہت کام ہو رہا ہے۔ اس دن جن کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی ان میں عذرا عباس کی کتاب اداسی کے گھائو‘ حمیرا خلق کی کتاب گوشۂ دل‘ اقبال نظر کی کتاب درویشِ نام اور ہما طاہر کا شعری مجموعہ اوجِ کمال شامل تھے۔ کرن لاشاری‘ سعدیہ شکیل اور نسرین گل نینا نے پانچویں اجلاس ’’سرائیکی تریمت‘ کل‘ آج تے صباحیں‘‘ کے موضوع پر منعقد کیا‘ اجلاس کی نظام ساجدہ پروین نے کی‘ اس موقع پر صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ‘ نذیر لغاری‘ ڈاکٹر یوسف اور دیگر کو اجرک بھی پیش کی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عابدہ بتول نے کہا کہ ماضی میں سرائیکی عورت کی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی اس کی حیثیت ایک غلام کی طرح تھی جس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ مگر آج وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح لوگوں نے ترقی کی ہے اسی طرح سرائیکی عورت بھی ترقی کر رہی ہے۔ اسے آج شعور بھی ہے اور وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہو رہی ہے اور اس کام میں اس کے خاندان کے وہ لوگ بھی‘ جو ماضی میں رکاوٹ ہوا کرتے تھے اب اس کے مددگار ہیں۔نسرین گل نے نینا نے کہا کہ سرائیکی خواتین کو ماضی میں کم عمری ہی میں بیاہ دیا جاتا تھا‘ وہ طرح سے غلام اور گھر کے مردوں کے زیر اثر تھیں انہیں جس طرح کہا جاتا وہ اسی طرح کرتی تھیں مگر اب موجودہ دور میں سرائیکی خاتون علم و آگہی کے سفر میں آگے چل پڑی ہے۔ سعدیہ شکیل نے کہا کہ سارا سماج طبقاتی نظام کے گرد گھوم رہا ہے‘ ماضی میں سرائیکی عورت کو ملکیت سمجھا جاتا تھا‘ گھر کے لوگ پیدائش کے وقت لڑکا پیدا ہونے کی دعا کرتے تھے‘ ایسے ماحول میں جہاں لڑکی پیدا ہونے کو برا سمجھا جاتا ہو وہاں عورت بھلا کیسے اپنے حقوق حاصل کرسکتی تھی۔
اس پروگرام کے بعد علاقائی زبانوں کی ترویج کے لیے سیشنز کا اہتمام کیا گیا‘ بلوچی زبان پر رکھے گئے سیشن میں نامور بلوچ دانشور شاہ محمد مری نے بلوچ ادب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تخلیق کیا گیا نصف سے زائد ادب زبانی ہے جو نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آرہا ہے تاہم نئے لکھنے والوں کی ادبی تحاریر کو کتابی شکل دی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچ معاشرے میں شاعروں کو نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ معروف بلوچ شاعر افضل مراد نے کوئٹہ سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ ادب اپنی موضوعات کے اعتبار سے دیگر خطوں کے ادب سے ممتاز مقام رکھتا ہے۔ بلوچستان میں عورتوں کے حوالے سے کی جانے والی اردو شاعر بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض وحید نور نے ادا کیے۔
کانفرنس کے دوسرے دن کے ساتویں اجلاس کا موضوع تھا ’’ہمارے ادب اور سماج میں خواتین کا کردار‘‘ جس پر بات کرتے ہوئے نورالہدیٰ نے کہا کہ عورت کا خود بولنا اور مزاحمت کے لیے اظہار کرنا ایک اہم تبدیلی ہے۔ فوزیہ سعید نے آئن لائن گفتگو کی ان کا کہنا تھا کہ ادیبوں کا یہ کام بھی ہے کہ وہ عورت کے حقوق پر کھل کر بات کریں۔ مہناز رحمن نے کہا کہ آج کی قلم کار عورتوں نے جبر و تشدد کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ یاسمین حمید نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عورت نے ادب کو بہت Rich کیا ہے۔ طاہر کاظمی نے کہا کہ تمام داستانوں میں عورت کا کردار مضبوط نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ عورت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ بھی ایک انسان ہے‘ اسے دوسروںسے خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس سیشن کے بعد معروف ادیب عامر حسین کی کہانی ’’کہانی زندگی زندگی سے پہلے‘‘ کی پڑھت کا اہتمام کیا گیا جس میں شمع عسکری اور فواد خان نے حصہ لیا۔
دوسرے دن کے نویں اجلاس میں پاکستان میں فنون کی صورت حال پر گفتگو کی گئی جس میں حسینہ معین نے کہا کہ ادب میں انسان کی پہچان کی بات ہوتی ہے اور ڈراموں میں کردار کے ذریعے انسانوںکو پہچانا جاتا ہے۔ شیما کرمانی نے کہا پرفارمنگ آرٹ اس وقت آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک ہم تعلیمی میدان میں ترقی نہ کریں۔ امجد شاہ نے کہا کہ آج کے فن کاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ فن کار سارا کریڈٹ خود لینا چاہتا ہے جب کہ ڈرامے میں پوری ٹیم کا حضہ ہوتا ہے۔ کانفرنس کے دوسرے روز کے آخری سیشن میں محفل موسیقی منعقد کی گئی جس میں گلوکار نمرہ رفیق‘ احسن باری اور ارمان رحیم نے اپنی آواز کا جادوی جگایا۔
۔13ویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز کے پہلے اجلاس میں ’’اردو افسانے کی ایک صدی‘‘ کے عنوان پر زاہدہ حنا نے عصری حسیت اور جدید اردو افسانے کے حوالے سے کہا کہ قلم کار ادب کے ذریعے معاشرتی مسائل کے علاوہ بھی تمام مسائل پر قارئین کو آگاہ کرتا ہے۔ صبا اکرم نے معاصر افسانے کے تخلیقی اسالیب کے موضوع پر کہا کہ ہم عصر زبانوں میں جو اسالیب نظر آتی ہیں وہ تخلیق سے ہی نکلتی ہیں‘ افسانے کا مزاج وقت و حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ناصر عباس نے اردو میں مزاحمتی افسانہ کے موضوع پر آن لائن کہا کہ ادب میں تین طرح کی مزاحمتیں نظر آتی ہیں ایک دانش وارانہ مزاحمت‘ دوسری ثقافتی مزاحمت اور تیسری ادبی مزاحمت۔ جب ہم پر جبر طاری ہوتا ہے یہ مزاحمتیں آکسیجن کا کام دیتی ہیں۔ اخلاق احمد نے اردو افسانے کے سماجی و ثقافتی سروکار کے موضوع پر کہا کہ افسانہ سماج سے جڑا ہوا ہے اس میں ہماری محرومیوں کا ہر رنگ موجود ہے۔ زیب اذکار حسین نے کہا کہ اردو افسانہ اور ہماری سیاسی تاریخ ساتھ ساتھ چل رہی ہے‘ ادب کا زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ اقبال خورشید نے دہشت گردی اور اردو افسانہ کے موضوع پر کہا کہ انسان مر گیا تو کہانی نے جنم لیا۔ ادب موضوعات سے نہیں اسلوب سے بنتا ہے کسی بھی بڑے واقعے کو فوری طور پر کہانی بنانا لکھنے والے کو الجھا سکتا ہے۔ اس پروگرام کی نظامت اختر سعیدی نے کی۔
(جاری ہے)

حصہ