’’آپ کی چائے ٹھنڈی ہورہی ہے۔‘‘
شام کی چائے پر ارم نے شوہر کو متوجہ کیا تو حسن نے لیپ ٹاپ سے سر اُٹھا کر سوال کیا ’’ابا جان کہاں ہیں… وہ چائے نہیں پئیں گے؟‘‘
’’وہ اپنے دوست کی طرف گئے ہیں اتوار کی دعوت کا بلاوہ دینے، اسی لیے انہوں نے چائے پہلے پی لی تھی‘‘، ارم نے بتایا۔
’’کہاں گئے ہیں؟ تم کیوں دادا جان کے ساتھ نہیں گئے؟‘‘ ہوم ورک کرتے ایان سے حسن نے تشویش سے پوچھا۔
’’برابر گلی میں شیخ صاحب کے گھر گئے ہیں۔ میں ساتھ جانے لگا تو منع کردیا کہ قریب ہی ہے، خود چلا جاؤں گا۔ ویسے بابا، دادا جان اپنے دوستوں سے مل کر بہت زیادہ ہی خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’بیٹا! انسان اپنے ہم عمروں میں ہی خوش رہتا ہے۔‘‘
’’ایسا کیوں ہوتا ہے بابا؟‘‘ ایان نے دل چسپی سے پوچھا۔
’’کیوں کہ وہ ہم مزاج ہوتے ہیں۔ اُن کی پسند ناپسند بھی ایک ہوتی ہے، ہم ذوق ہوتے ہیں۔‘‘ حسن نے سمجھایا۔
’’ہم ذوق… مطلب؟‘‘ ایان نے پھر سوال اٹھایا۔
’’مطلب یہ کہ انہیں ایک جیسے کھانے پسند ہوتے ہیں، ایک جیسا لباس، تفریحات، غرض تمام ہی چیزیں یکساں پسند ہوتی ہیں۔‘‘ حسن نے چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ایک جیسے کھانے پسند ہوتے ہیں… یعنی اس کا مطلب ہوا کہ کل دعوت میں کھانا دادا جان اور اُن کے دوستوں کی پسند کا بنے گا۔ مٹن قورمہ، مٹن پلائو، شب دیگ اور کھیر… یعنی سب پرانے زمانے کے کھانے… یہی تو دادا جان اپنے دوستوں کے گھر پکوا کر بھجواتے ہیں۔‘‘
’’مما! کیا واقعی یہی سب کچھ بن رہا ہے دعوت میں؟‘‘علینہ نے کالج یونی فارم تہہ کرتے ہوئے سوال کیا تو ارم نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کون پسند کرتا ہے روٹی سالن، بکرے کا گوشت؟‘‘ علینہ نے منہ بنا کر کہا۔
’’ایسا کریں سادہ پلاؤ کی جگہ سنگا پوری رائس بنالیں۔‘‘ ایان نے تجویز دی۔
’’دادا جان کے دوست کہیں گے میاں یہ کیا ملغوبہ بنوا لیا، اور یہ چاولوں پر سویاں کیوں ڈال دیں؟‘‘ علینہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’کیا دادا جان کے دوست تمہاری پسند کا کھانا کھائیں گے؟‘‘اس بار حسن بھی بول پڑا۔
’’ایسا کرو پلاؤ کی جگہ چکن مصالحے دار بریانی بنالو، آخر وہ بھی تو چاول ہی ہیں اور قورمہ کے بجائے چکن کڑاہی… ہم بھی خوش ہو جائیں گے۔‘‘حسن نے فرمائشی لسٹ سامنے رکھی۔
’’آپ بھول گئے ابّاجان کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں بالکل نہیں بھولا۔‘‘
’’گوشت گاؤ گاہ بہ گاہ۔‘‘ (گائے کاگوشت کبھی کبھی کھاؤ۔)
’’گوشت ماہی ماہ بہ ماہ۔‘‘ (مچھلی کا گوشت ہر مہینے کھاؤ۔)
’’گوشت بُز صبح و بکا۔‘‘ (بکرے کا گوشت صبح وشام کھاؤ)۔
والد صاحب کا مقولہ دہراتے ہوئے حسن کو یاد آیا کہ چکن تو ان کے نزدیک کسی گنتی میں نہیں اور دعوت میں تو بالکل بھی نہیں۔‘‘
’’ہم بچوں ہی کو نہیں، مما بابا آپ دونوں کو بھی زیادہ پسند نہیں یہ کھانے…ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ایان نے پوچھا جو کافی دیر سے بغور سن رہا تھا۔
’’جنریشن گیپ‘‘، علینہ نے بڑے وثوق سے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’وقت کے ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے، تو کھانوں میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ ہر نسل، ہر دور اپنی مرضی کے مطابق چلنا چاہتا ہے۔ کیوں مما! میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟‘‘ علینہ نے توثیق چاہی۔
ارم کی تائیدی مسکراہٹ نے اسے بات جاری رکھنے پر مجبور کیا۔ یکدم ایان نے اپنی کنفیوژن دوبارہ سامنے رکھی ’’سب کی پسند ایک جیسی کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
’’ہر چیز میں جنریشن گیپ نظر آرہا ہے تو ظاہرہے کھانوں میں بھی فرق آئے گا‘‘، علینہ وثوق سے کہہ رہی تھی۔
’’کیوں بابا؟‘‘
’’بات تو ایسی ہی ہے مگر اس کا حل کیا ہے؟‘‘ علینہ نے سوال کیا۔
’’ہم تو بھئی بڑی معصوم نسل ہیں، وہ بھی کھا لیتے ہیں جو ہمارے بڑوں کو پسند ہے اور وہ بھی جو ہمارے بچوں کی پسند ہے۔‘‘ حسن نے شرارتاً کہا۔
’’اب مزید بحث کی گنجائش نہیں…اصول یہی ہے کہ جس کے دوستوں کی دعوت ہو، کھانا بھی اسی کی پسند کا بننا چاہیے۔‘‘ حسن نے اپنے طور پر حل پیش کردیا۔
’’جب بچوں کے دوستوں کی دعوت ہوتی ہے تب بنتا ہے ناں ان کی پسند کا پیزا، برگر، پاستہ اور چائنیز وغیرہ… اب ابا جان کے دوستوں کی دعوت ہے تو ان کی ہی پسند کے مطابق بنے گا۔‘‘ ارم نے بچوں کو سمجھایا۔
’’اچھا اب کل دوپہر کے کھانے میں کیا بنے گا، یہ بھی طے کرلیں… پہلے سے سوچا ہو تو فٹافٹ تیار ہوجاتا ہے۔‘‘ ارم نے بات کو سمیٹا۔
’’دوپہر میں کچھ بھی بنالیں۔‘‘
’’اچھا ایسا کرتے ہیں لوکی بنا لیتے ہیں، یہ ابّا جان کو بھی پسند ہے۔‘‘ ارم کے مشورے پر حسن اور بچے سب مطمئن ہوگئے۔
’’منظور ہے مگر ساتھ پودینے کی چٹنی بھی۔‘‘حسن نے ایک بار پھر فرمائشی پروگرام بتایا۔ ایان نے تائیدی انداز میں انگوٹھا اٹھایا۔
’’مما یہ کوئی پوچھنے والی بات ہے، لوکی تو ہمارے گھر کی ’’متفق علیہ‘‘ڈش ہے، چاہے بھجیا بنالیں یا سالن، سبھی شوق سے کھاتے ہیں۔‘‘ علینہ نے سب افرادِ خانہ کی پسند کے تحت جواب دیا۔
’’کیوں ایسا کیوں ہے…؟ وہ جنریشن گیپ؟‘‘ ارم نے علینہ کی طرف رخ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ظاہر ہے پیارے نبیؐ کو پسند تھی…کون انکار کرے گا ایسے کھانوں کو جو ہمارے پیارے نبیؐ کو پسند ہوں!‘‘ یہ کہہ کر علینہ برتن سمیٹ کر باورچی خانے کی طرف چل دی۔ ارم نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
’’کیوں بھئی! کیا کام بہت آسان ہوگیا؟‘‘ حسن نے ارم کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر پوچھا۔
’’ہوں… کام ہی کیا زندگی آسان ہوجائے اگر سب جنریشن گیپ ختم ہوجائیں۔ زندگی کا ہر پہلو جنریشن گیپ کے زیر اثر ہے۔ اگر ہر مقام پر آپؐ کی سنت کو محبت وعقیدت سے اپنائیں تو کوئی گیپ باقی نہیں رہتا۔‘‘ ارم اپنی رو میں بول رہی تھی اور سب توجہ سے سن رہے تھے۔
’’حالاں کہ1441سال کا فاصلہ ہے، پھر بھی تمام فاصلے ختم ہوجاتے ہیں… پسند بھی ایک ہوجاتی ہے، شلوار پہنیں یا ٹرائوزر، یا اسکرٹ… کسی قسم کی بحث نہیں رہتی، دوپٹہ متنازع نہیں ہوتا۔‘‘
اسی اثنا علینہ نے یکدم اپنے شانوں پر دوپٹہ برابر کیا۔ ارم باتوں باتوں بہت کچھ سمجھا چکی تھی۔