دوسرا گروہ شرحِ سود کی توجیہ اس طرح کرتا ہے کہ جب سرمایہ دار روپے کو خود اپنے لیے قابلِ استعمال رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے تو وہ سود کی شرح بڑھا دیتا ہے‘ اور جب اس کی یہ خواہش کم ہو جاتی ہے تو سود کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ سرمایہ دار نقد روپیہ اپنے پاس رکھنے کو کیوں ترجیح دیتا ہے؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ اس کی متعدد وجوہ ہیں‘ کچھ نہ کچھ روپیہ اپنی ذاتی یا کاروباری ضرورتوں کے لیے رکھنا ضروری ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ ناگہانی حالات اور غیر متوقع ضروریات کے لیے بھی محفوظ رکھنا پڑتا ہے مثلاً کسی ذاتی معاملے میں کوئی غیر معمولی خرچ یا کسی اچھے سودے کا موقع یکایک سامنے آجانا۔ ان دو وجوہ کے علاوہ تیسری وجہ اور زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دار پسند کرتا ہے کہ مستقبل میں کسی وقت قیمتیں گرنے یا شرح سود چڑھنے کی صورت میں فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے پاس نقد روپیہ کافی موجود رہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان وجوہ کی بنا پر روپے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی خواہش سرمایہ در کے دل میں پیدا ہوتی ہے‘ کیا وہ گھٹتی بڑھتی ہے کہ اس کا اثر شرحِ سود کے اتار چڑھائو کی صورت میں ظاہر ہوتاہے؟ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں مختلف شخصی‘ اجتماعیی‘ سیاسی اور معاشی اسباب سے کچھ یہ خواہش بڑھ جاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرحِ سود بڑھا دیتا ہے اورکاروبار کی طرف سرمایہ آنا کم ہو جاتا ہے اور کبھی اس خواہش میں کمی آجاتی ہے اس لیے سرمایہ دار شرحِ سود گھٹا دیتا ہے اور اس کے گھٹنے کی وجہ سے لوگ تجارت و صنعت میں لگانے کے لیے زیادہ سرمایہ قرض لینے لگتے ہیں۔
اس خوش نما توجیہ کے پیچھے ذرا جھانک کر دیکھیے کہ کیا چیز چھپی ہوئی ہے۔ جہاں تک خانگی ضروریات یا ذاتی کاروبار کی ضروریات کا تعلق ہے‘ اُن کی بنا پر معمولی اور غیر معمولی سب طرح کے حالات میں سرمایہ دار کی یہ خواہش کہ وہ سرمایہ کو اپنے لیے قابل استعمال رکھے‘ بمشکل اس کے پانچ فی صدی سرمائے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے پہلی دونوں وجوہ کو خواہ مخواہ اہمیت دینا صحیح نہیں ہے۔ اپنا 95 فی صدی سرمایہ جس بنیاد پر وہ کبھی روکتا ہے اور کبھی بازار قرض کی طرف بہاتا ہے‘ وہ دراصل تیسری وجہ ہے اور اس کا تجزیہ کیجیے تو اس کے اندر سے اصل حقیقت یہ برآمد ہوگی کہ سرمایہ دار کمال درجہ خود غرضانہ نیت کے ساتھ دنیا کے اور خود اپنے ملک اور قوم کے حالات کو دیکھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں کبھی وہ کچھ مخصوص آثار دیکھتا ہے اور ان کی بنا پر چاہتا ہے کہ اس کے پاس وہ ہتھیار ہر وقت موجود رہے جس کے ذریعے سے وہ سوسائٹی کی مشکلات‘ آفات اور مصائب کا ناجائز فائدہ اٹھا سکے اور اس کی پریشانیوں میں اضافہ کرکے اپنی خوش حالی بڑھا سکے اس لیے وہ سٹہ بازی کی خاطر سرمایہ کو اپنے لیے روک لیتا ہے۔ شرح بڑھا دیتا ہے اور تجارت و صنعت کی طرف سرمائے کا بہائو یک لخت بند کر دیتا ہے اور سوسائٹی پر اُس بلائے عظیم کا دروازہ کھول دیتا ہے جس کا نام ’’کساد بازاری‘‘ ہے۔ پھر جب وہ دیکھتا ہے کہ اس راستہ جو کچھ حرام خوری وہ کرسکتا تھا‘ کر چکا‘ آگے مزید فائدے کا کوئی امکان باقی نہیںہے بلکہ نقصان کی سرحد قریب آ لگی ہے‘ تو ’’سرمائے کو اپنے لیے قابل استعمال رکھنے کی خواہش‘‘ اُس کے نفسِ خبیث میں کم ہو جاتی ہے اور وہ کم شرح سود کا لالچ دے کر کاروباری لوگوں کو صلائے عام دینے لگتا ہے کہ آئو میرے پاس بہت سا روپیہ تمہارے لیے قابل استعمال پڑا ہے۰
شرح سود کی بس یہی دو توجیہات موجودہ زمانے کے ماہرین معاشیات نے کی ہیں اور اپنی اپنی جگہ دونوں ہی صحیح ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے جو وجہ بھی ہو‘ اس سے آخر ایک ’’معقول‘‘ اور ’’فطری‘‘ شرح کس طرح متعین ہوتی یا ہو سکتی ہے؟ یا تو ہمیں عقل اور معقولیت اور فطرت کی مفہومات بدلنے پڑیں گے یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ سود خود جس قدر نامعقول چیز ہے اس کی شرح بھی اتنے ہی نامعقول اسباب سے متعین ہوتی اور گھٹتی بڑھتی ہے۔
سود کا ’’معاشی فائدہ‘‘ اور اُس کی ’’ضرورت‘‘:
اس کے بعد سود کے وکلاء یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سود ایک معاشی ضرورت ہے اور کچھ فوائد ایسے ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس دعوے کی تائید میں جو دلائل وہ دیتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
-1 انسانی معیشت کا سارا کاروبار سرمائے کے اجتماع پر منحصر ہے اور سرمائے کا جمع ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ لوگ اپنی ضروریات اور خواہشات پر پابندی عائد کریں اور اپنی ساری کی ساری آمدنیوں کو اپنی ذات پر خرچ نہ کر ڈالیں بلکہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرتےرہا کریں یہی ایک صورت ہے سرمایہ اکٹھا ہونے کی لیکن آخر ایک آدمی کیوں اپنی ضروریات کو روکنے اور کفایت شعاری کرنے پر آمادہ ہو اگر اسے اس ضبطِ نفس اور قربانی کا کوئی اجر نہ ملے؟ سود ہی تو وہ اجر ہے جس کی امید لوگوں کو روپیہ بچانے پر آمادہ کرتی ہے۔ تم اسے حرام کر دو گے تو سرے سے فاضل آمدنیوں کو محفوظ کرنے کا سلسلہ ہی بند ہو جائے گا جو سرمایہ کی بہم رسانی کا اصل ذریعہ ہے۔
-2 معاشی کاروبار کی طرف سرمائے کے بہائو کی آسان ترین صورت یہ ہے کہ لوگوںکے لیے اپنی جمع شدہ دولت کو سود پر چلانے کا دروازہ کھلا رہے۔ اس طرح سود ہی کا لالچ ان کو اس بات پر بھی آمادہ کرتا رہتا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں کو بے کار نہ ڈال رکھیں بلکہ کاروباری لوگوں کے حوالے کر دیں اور ایک مقرر شرح کے مطابق سود وصول کرتے رہیں۔ اس دروازے کو بند کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف روپیہ جمع کرنے کا ایک اہم ترین محرک غائب ہو جائے بلکہ جو تھوڑا بہت سرمایہ جمع ہو وہ بھی کاروبار میں لگنے کے لیے حاصل نہ ہو سکے۔
-3 سود صرف یہی نہیں کرتا کہ سرمایہ جمع کراتا اور اسے کاروبار کی طرف کھینچ کر لاتا ہے‘ بلکہ وہی اس کے غیر منصفانہ مفید استعمال کو روکتا بھی ہے اور شرح سود و ہ چیز ہے جو بہترین طریقہ سے آپ ہی آپ اس امر کا انتظام کرتی رہتی ہے کہ سرِمایہ کاروبار کی مختلف ممکن تجویزوں میں سے ان تجویزوں کی طرف جائے جو ان میں سب سے زیادہ بار آور ہوں۔ اس کے سوا کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی جو مختلف عملی تجویزوں میں سے نافع کو غیر نافع سے اور زیادہ نافع کو کم نافع سے ممیز کرے اور انفع کی طرف سرمائے کا رُخ پھیرتی رہے۔ تم سود کو اُڑا دو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اوّل تو لوگ بڑے بے پروائی سے سرمایہ استعمال کرنے لگیں گے اور پھر بلا لحاظ نفع و نقصان ہر طرح کے الٹے سیدھے کاموں میں اسے لگانا شروع کر دیں گے۔
-4 قرض وہ چیز ہے جو انسانی زندگی کی ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ افراد کو بھی اپنے ذاتی معاملات میں اس کی ضرورت پیش آتی ہے‘ کاروباری لوگوں کو بھی آئے دن اس کی حاجت رہتی ہے اور حکومتوںکو کا کام بھی اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اس کثرت سے اتنے بڑے پیمانے پر قرض کی بہم رسانی آخر نری خیرات کے بل پر کہاں تک ہو سکتی ہے؟ اگر تم صاحبِ سرمایہ لوگوں کو سود کالچ نہ دو گے اور اس امر کا اطمینان بہم نہ پہنچائو گے کہ ان کے راس المال کی ساتھ ان کا سود بھی ان کو ملتا رہے گا تو وہ بمشکل ہی قرض دینے پر آمادہ ہوں گے اور اس طرح قرضوں کی بہم رسانی رک جانے کا نہایت برا اثر پوری معاشی زندگی پر مرتب ہوگا۔ ایک غریب آدمی کو اپنے برے وقت پر مہاجن سے قرض مل تو جاتا ہے۔ سود کا لالچ نہ ہو تو اس کا مردہ بے کفن ہی پڑا رہ جائے اور کوئی اس کی طرف مدد کا ہاتھ نہ بڑھائے۔ ایک تاجر کو تنگ مواقع پر سودی قرض فوراً مل جاتا ہے اور اس کا کام چلتا رہتا ہے۔ یہ دروازہ بند ہو جائے تو نہ معلوم کتنی مرتبہ اس کا دیوالیہ نکلنے کی نوبت آجائے۔ ایسا ہی معاملہ حکومتوںکا بھی ہے کہ اُن کی ضرورتیں سودی قرض ہی پوری ہوتی رہتی ہیں ورنہ کروڑوں روپے فراہم کرنے والے سخی داتا آخر انہیں روز روز کہاں مل سکتے ہیں؟
کیا سود فی الواقع ضروری اور مفید ہے؟
آیئے اب ہم ان سے ایک ایک ’’فائدے‘‘ اور ’’ضرورت‘‘ کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ آیا فی الحقیقت وہ کوئی فائدہ اور ضرورت ہے بھی یا یہ سب کچھ محض ایک شیطانی وسوسہ ہے۔
اوّلین غلط فہمی یہ ہے کہ معاشی زندگی کے لیے افراد کی کفایت شعاری اور زر اندوزی کو ایک ضروری اور مفید چیز سمجھا جاتا ہے‘ حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت ساری معاشی ترقی و خوش حالی منحصر ہے اس پر کہ جماعت بحیثیت مجموعی جتنا کچھ سامانِ زیست پیدا کرتی جائے‘ وہ جلدی جلدی فروخت ہوتا چلا جائے تاکہ پیداوار اور اس کی کھپت کا چکر توازن کے ساتھ اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتا رہے۔ یہ بات صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب کہ لوگ بالعموم اس امر کے عادی ہوں کہ معاشی سعی و عمل کے دوران میں جتنی کچھ دولت ان کے حصے میں آئے اسے صرف کرتے رہیں اور اس قدر فراخ دل ہوں کہ اگر ان کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ دولت آگئی ہو تو اسے جماعت کے کم نصیب افراد کی طرف منتقل کر دیا کریں تاکہ وہ بھی بفراغت اپنے لیے ضروریاتِ زندگی خرید سکیں۔ مگر تم اس کے برعکس لوگوں کو یہ سکھاتے ہو کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت پہنچی ہو وہ بھی کنجوسی برت کر (جسے تم ضبط، نفس اور زہد اور قربانی وغیرہ جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہو) اپنی مناسب ضروریات کا ایک اچھا خاصا حصہ پورا کرنے سے باز رہے اور اس طرح ہر شخص زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی کوشش کرے۔ تمہارے نزدیک اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سرمایہ اکٹھا ہو کر صنعت و تجارت کی ترقی کے لیے بہم پہنچ سکے گا‘ لیکن درحقیقت اس کانقصان یہ ہوگا کہ جو مال اس وقت بازار میں موجود ہے اس کا ایک بڑا حصہ یونہی پڑا رہ جائے گا کیوں کہ جن لوگوں کے اندر قوتِ خرید پہلے ہی کم تھی وہ تو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا مال خرید نہ سکے اور جو بقدرِ ضرورت خرید سکتے تھے‘ انہوں نے استطاعت کے باوجود پیداوار کا اچھا خاصا حصہ نہ خریدا اور جن کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ قوتِ خریدپہنچ گئی تھی انہوں نے اسے دوسروںکی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنے پاس روک کر رکھ لیا۔ اب اگر ہر معاشی چکر میں یہی ہوتا رہے کہ بقدر ضرورت اور زائد از ضرورت قوتِ خرید پانے والے لوگ اپنےاس وقت کے بڑے حصے کو نہ تو خود پیداوار کے خریدنے میں استعمال کریں نہ کم قوتِ خرید رکھنے والوں کو دیں‘ بلکہ اسے روکتے اور جمع کرتے چلے جائیں‘ تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ ہر چکر میں جماعت کی معاشی پیداوار کا معتدبہ حصہ فروخت سے رکتا چلا جائے گا۔ مال کی کھپت کم ہونے سے روزگار میں کمی واقع ہوگی۔ روزگار کی کمی آمدنیوں کی کمی سے پھر اموالِِ تجارت کی کھپت میں مزید کمی رونما ہوتی چلی جائے گی۔ اس طرح چند افراد کی زر اندوزی بہت سے افراد کی بدحالی کا سبب بنے گی اور آخر کار یہ چیز خود ان زر اندوز افراد کے لیے بھی وبالِ جان بن جائے گی کیوں کہ جس دولت کو وہ خریداری میں استعمال کرنے کے بجائے سمیٹ سمیٹ کر مزید پیداوار میں استعمال کریں گے آخر اس کے ذریعے سے تیار کی ہوئی پیداوار کھپے گی کہاں؟
اس حقیقت پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصل معاشی ضرورت تو ان اسباب اور محرکات کو دور کرنا جن کی بنا پر افراد اپنی آمدنیوں کو خرچ کرنے کے بجائے روک رکھنے اور جمع کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ساری جماعت کی معاشی فلاح یہ چاہتی ہے کہ ایک طرف اجتماعی طور پر ایسے انتظامات کر دیے جائیں جن کی بدولت ہر شخص کو اپنے برے وقت پر مالی مدد مل جایا کرے تاکہ لوگوں کو اپنی آمدنیاں جمع کرنے کی حاجت ہی نہ محسوس ہو اور دوسری طرف جمع شدہ دولت پر زکوٰۃ عائد کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر جمع کرنے کا میلان کم ہو اور اس کے باوجود دولت رک جائے اس کا ایک حصہ بہرحال ان لوگوں تک پہنچتا رہے جنہوں نے گردشِ دولت میں سے کم حصہ پایا ہے۔ لیکن تم اس کے برعکس سود کا لالچ دے دے کر لوگوں کے طبعی بخل کو اور زیادہ اکساتے ہو اور جو بخیل نہیں ہیں ان کو بھی یہ سکھاتے ہو کہ وہ خرچ کرنے کے بجائے مال جمع کریں۔
پھر اس غلط طریقے سے اجتماعی مفاد کے خلاف جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے اس کو تم پیدائش دولت کے کاروبار کی طرف لاتے بھی ہو تو سود کے راستے سے لاتے ہو۔ یہ اجتماعی مفاد پر تمہارا دوسرا ظلم ہے۔ اگر یہ اکٹھی کی ہوئی دولت اس شرط پر کاروبار میں لگتی کہ جتنا کچھ منافع کاروبار میں ہوگا اس میں سے سرمایہ دار کو تناسب کے مطابق حصہ مل جائے گا تب بھی چنداں مضائقہ نہ تھا۔ مگر تم اس کو اس شرط پر بازار مالیات میں لاتے ہو کہ کاروبار میں چاہے منافع ہو یا نہ ہو‘ اور چاہے کم منافع ہو یا زیادہ‘ بہرحال سرمایہ دار اس قدر فی صدی منافع ضرور پائے گا۔ اس طرح تم نے اجتماعی معیشت کو دہرا نقصان پہنچایا۔ ایک نقصان وہ جو روپے کو خرچ نہ کرنے اور روک رکھنے سے پہنچا اور دوسرا یہ کہ جو روپیہ روکا گیا تھا وہ اجتماعی معیشت کی طرف پلٹا بھی تو حصہ داری کے اصول پر کاروبار میں شریک نہیں ہوا بلکہ قرض بن کر پورے معاشرے کی صنعت و تجارت پر لد گیا اور قانون نے اس کو یقینی منافع کی ضمانت دے دی۔ اب تمہارے اس غلط نظام کی وجہ سے صورت حال یہ ہو گئی کہ معاشرے کے بہ کثرت افراد اس قوتِ خریداری کو جو انہیں حاصل ہوتی ہے‘ اجتماعی پیداوار کی خریداری میں صرف کرنے کے بجائے روک روک کر ایک سود طلب قرضے کی شکل میں معاشرے کے سر پر لادتے چلے جاتے ہیں اور معاشرہ اس روز افزوں پیچیدگی میں مبتلا ہو گیا ہے کہ آخر وہ اس ہر لحظہ بڑھنے والے قرض و سود کو کس طرح ادا کرے جب کہ اس سرمائے سے تیار کیے ہوئے مال کی کھپت بازار میں مشکل ہے اور مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ لاکھوں‘ کروڑوں آدمی اسے اس لیے نہیں خریدتے کہ ان کے پاس خریدنے کے لیے پیسہ نہیں اور ہزارہا آدمی اس کو اس لیے نہیں خریدتے کہ وہ اپنی قوتِ خریداری کو مزید سود طلب قرض بنانے کے لیے روکتے چلے جارہے ہیں۔