یوں تو قیام پاکستان کی ابتدا ہی سے یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی سیاسی‘ معاشرتی‘ معاشی اور تعلیمی تشکیلِ نو ہمیں ان بنیادوں پر استوار کرنی ہے جو اس کے دین سے مطابقت رکھتی ہوں‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اربابِ حل و عقد پاکستان کی زندگی و موت کے اہم ترین مسئلے کی طرف ابتدائی توجہ بھی نہ دے سکے اور آج تیس سال گزرنے کے بعد جب ہم تعین مقصد کے نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں روزِ اوّل نظر آتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان کو ایک مدتِ دراز تک کوئی ایسا آئین نہ مل سکا جس میں پاکستان کی ںنظریاتی اساس کو واضح طور پر تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی ہیئت اجتماعیہ کی تشکیلِ نو کے اہم ترین فریضے میں مناسب اہمیت دی گئی ہوتی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد سیاسی اکھاڑ پچھاڑ‘ محلاتی سازشوں اور جمہوریت کشی کے روز افزوں عمل نے ہمیں اپنی منزل دور سے دور تر کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور رفتہ رفتہ حالات یہاں تک بگڑے کہ پاکستان اپنے ہی ابنائے وطن کے لگائے ہوئے زخموں سے دو نیم ہو کر رہ گیا اور جس مملکت کے قیام کے لیے برصغیر کے کروڑوں فرزندانِ توحید نے جان و مال کی قربانیاںدی تھیں‘ انھیں ہماری آنکھوں کے سامنے اس بے دردی سے ذبح کیا گیا کہ ہر محب وطن دل اس کے زخم سے آج تک کراہتا ہے۔ خیر خدا خدا کرکے قائداعظم کے پاکستان کو نہ سہی بھٹو صاحب کے پاکستان کو سہی ایک آئین ملا مگر اس وقت بھی پاکستان کی قیمت جذبۂ تعمیر سے جذبۂ تخریب کا شکار بنی اور خود آئین کا نام لے کر آئینی اور جمہوری حکومت کا شور مچانے والوں نے قوم کو اس مقدس ترین دستاویز کو بچوں کا کھلونا بنا لیا اور اپنی من مانی ترمیموں سے اس کو ردی کاغذ کے ٹکڑوں میں تبدیل کر دیاتفصیلات بے شمار ہیں‘ کوئی کہاں تک دہرائے اور کب تک دہرائے‘ لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے‘ اس وقت جب پوری قوم پاکستان میں نظامِ اسلام پر متفق ہے اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیا الحق اسلامی نظامِ شریعت کے نفاذ کا سنگِ بنیاد رکھنے اور گویا پاکستان کی تشکیل نوِ کی ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کر چکے ہیں‘ ہمارے سامنے کسی بھی مسئلے کا کوئی واضح تصویر موجود نہیں ہے۔
پاکستان اگر ایک نظریاتی مملکت ہے یا اسے مستقبل قریب میں نظریاتی مملکت بننا ہے تو اس کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ حکیم الامت کے الفاظ میں ’’عہدِ کہن کو حکمِ رحیل‘‘ دیا جائے اور نظامِ کہنہ کو بیخ دین سے اکھاڑ کر اس تعمیرِ نو کا آغاز کیا جائے جو بیسیوں صدی میں دنیا کا سب سے بڑا انقلاب ثابت ہو۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ اسلامی نظام کوئی ایسا نظام نہیں ہے جسے معمولی ردوبدل کے بعد غیر اسلامی نظاموں سے پیوند کرکے چلایا جاسکے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو ’’میانہ‘ حق و باطل‘‘ شرکت قبول نہیں کرتا اور زندگی کو کُل کا کُل اس طرح تبدیل کرنا چاہتا ہے کہ اس میں شر و فساد کی بُو بھی باقی نہ رہے۔ ظاہر ہے کہ اس نظام کی اوّلین شرط نظامِ کہنہ کی تخریبِ تمام ہے اور پھر اس پر تعمیرِ نو کا آغاز ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہمیں سب سے پہلے یہ جائزہ لینا ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرے کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور اس کے کون سے عناصر اسلامی نظام سے مطابقت رکھتے ہیں اور کون سے نہیں رکھتے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اسلامی نظام کا تصور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس میں چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یا شراب پینے پر درّوں کی سزا ملے گی۔ بہت ہوا تو سود کی حرمت اور جواز پر گفتگو ہو جاتی ہے‘ لیکن اسلامی نظام کا یہ ایک بہت سطحی تصور ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ عام طور پر اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جاگیرداری کے پرانے نظام اور سرمایہ داری کے نئے نظام سے اسلام کا براہِ راست تصادم ہے اور ان نظاموں کے موجود ہوتے ہوئے ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی نظریاتی ریاست نہیں بنا سکتے۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے ہماری زندگی میں اسلامی نظام کی جو بھی رسمی شکل موجود ہے‘ وہ نماز روزہ ہے یا پھر چند اخلاقی اصول جنہیں کم از کم ہم زبان سے دہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے سب کا سب غیر اسلامی ہے۔
سیاست‘ معاش‘ تجارت‘ نظامِ تعلیم‘ کسی بھی چیز میں ہم اسلام کی پیروی نہیں کرتے بلکہ سچ پوچھیے تو زندگی کے ان سارے شعبوں کا نظام ہر قدم پر اسلام کی نفی کرتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کے نظریاتی مملکت بننے کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ اس پورے کے پورے نظام کو جڑ سے کھود کر ایک نئی تعمیر رکھی جائے۔ یہ بات کس طرح ممکن ہے‘ ممکن ہے یا نہیں۔ یہ وہ سوالات ہیںجن پر ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ہے اور ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت پوری ذمہ داری سے ایسے اقدامات کرنی ہیں جو ماضی کی صحت مند اور مثبت اقدار کو نقصان پہنچائے بغیر پاکستان میں ایک نئے اسلامی معاشرے کی بنیاد بن سکیں۔ اب ہم اختصار مگر وضاحت کے ساتھ اس مسئلے کے چند اہم پہلوئوں کا جائزہ لیں گے۔
اسلام پانچ چیزوں کا مجموعہ ہے
(1) ایمان
2) )عقائد
(3)عبادات
(4) احکام
(5)سوم
یہ پانچوں چیزیں مل کر پوری زندگی کا احاطہ کر لیتی ہیں۔ ایمان کا تعلق قلب سے ہے‘ یہ انفرادی ہوتا ہے۔ ہر شخص کا ایمان اس کے ساتھ ہے اور رب اور عبد کا خالص شخصی رشتہ ہے۔ ایک کا ایمان دوسرے سے تعلق نہیں رکھتا اور نہ کسی کا ایمان کسی دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ہم اپنے ایمان کے لیے صرف اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہی ہمارے ایمان کا شاہد عادل ہے۔ ایمان میں اخلاص پیدا کرنا ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے اور اسلامی نظام تربیت کا بنیادی پتھر ہے۔ ہمارے وہ تمام اشغال جو ایمان کو درست کرتے ہیں‘ ہماری نیت میں اخلاص پیدا کرتے ہیں‘ ہمارے قلب کا رشتہ اپنے رب سے جوڑتے ہیں‘ اسی عنوان کے تحت آتے ہیں۔ ایمان کے بعد عقائد کا درجہ ہے۔ ایک مسلمان بچے کے لیے عقائد کی تعلیم معاشرے کا پہلا فریضہ ہے۔ عقائد کے بغیر عبادات‘ احکام اور رسوم کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایمان کیفیتِ قلب ہے۔ عقائد زبان سے اس کیفیت کا اظہار ہیں۔ ایمان عقیدے کے بغیر اور عقیدہ ایمان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ایمان اور عقائد کے بعد تیسرا درجہ عبادات کا ہے یہ عبد اورمعبود کے رشتے کی محسوس اور ظاہری شکل ہے۔ عبادات کا شمار حقوق اللہ میں ہوتا ہے اور اللہ کا حق ادا کرنے کے بعد ہی انسان‘ انسان کا حق ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔ اسلام میں عبادات انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ہیں اور فرد خدا اور معاشرے کے سہ جہانی رشتے کو واضح کرتی ہیں۔ احکام کا تعلق دوسرے انسانوں سے ہے۔ اخلاقیات‘ قانون اور امر و نواہی کا نظام سب احکام سے وابستہ ہیں۔ سچ بولو یہ بھی ایک حکم ہے۔ خیانت نہ کرو یہ بھی ایک حکم ہے۔ دوسروں کے حقوق ادا کرو یہ بھی ایک حکم ہے۔ سیاست‘ معیشت‘ معاش اور زندگی کے کم و بیش سارے اعمال احکام کے ذیل میں آتے ہیں۔ احکام کی پیروی کے بغیر اسلامی نظام کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ رسوم آخری درجے پر آتی ہیں۔ مگر ان کی اہمیت بھی بنیادی ہے اور یہ معاشرے کی اسلامی اساس کو واضح کرتی ہیں۔ اب پاکستان کو نظریاتی مملکت بنانے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے ان پانچوں اجزائے ترکیبی کو اسلام کے تحت لایا جائے۔
اب اس اصول گفتگو کے بعد ذرا اپنے معاشرے پر نظر ڈالیے اور دیکھیے کہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے تقاضوں سے کہاں تک مطابقت رکھتی ہے۔ جہاں تک قوم کی اکثریت کا تعلق ہے‘ ایمان اور عقائد کی بنیاد اللہ کے فضل سے مضبوط ہے۔ ہم سب اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں‘ ملائکہ پر یقین رکھتے ہیں‘ یومِ آخرت کو تسلیم کرتے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ قوم میں ایسے افراد اور طبقات موجود ہیں جو اسلام کی اس بنیاد پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ معاشرتی طور پر مسلمانوں میں شامل ہیں‘ اُن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں۔ پیدائش‘ موت اور نکاح وغیرہ میں وہ اسلامی رسوم کے پابند ہیں‘ لیکن اس کے باوجود مذہب کو نہیں مانتے۔ ایک نظریاتی مملکت میں ان لوگوںکی حیثیت اس باغی گروہ کی ہے جو ریاست کے بنیادی نظریے سے منحرف ہے۔ نظریاتی مملکت کا تقاضا ہے کہ اس گروہ کو اگر ختم نہ کیا جاسکے تو کم از کم اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ مملکت اور اس کے نظریے کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔ اس معاملے میں کشادہ نظری اور غیر جانب داری کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ کوئی نظریاتی مملکت جو ایسے لوگوں کے وجود کو برداشت کرتی ہے یا انہیں قوت و اثر کی سر چشموں پر قابض ہونے کا موقع دیتی ہے خود اپنی بنیاد کو منہدم کرنے کے عمل میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے خلاف جتنی باتیں ہوتی ہیں اور اس کے نفاذ میں جتنی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں وہ اسی گروہ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ ہمیں پاکستان کو نظریاتی مملکت بنانا ہے تو اس گروہ کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی قوت اور اثر و نفوذ کو ختم کرنا پڑے گا۔ دوسری اہم بات ان لوگوں کے بار ےمیں جو ایمان اور عقائد کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں یعنی مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں‘ لیکن عبادات اور احکام میں اسلام پر عمل نہیں کرتے۔ قوم کا بہت بڑا حصہ ایسے ہی لوگوں سے تعلق رکھتا ہے ان میں کچھ عبادات پر عمل نہیں کرتے‘کچھ احکام اور عبادات دونوںسے غافل ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں کہ عبادات پر عمل کرتےہیں لیکن احکام میں اسلام پر عامل نہیں ہیں۔ مثلاً ایسے نمازی موجود ہیں جو رشوت لیتے ہیں اور ایسے حج کرنے والے موجود ہیںجو اسمگلنگ اور چور بازاری میں ملوث ہوتے ہیں اور ایسے روزہ رکھنے والے موجود ہیںجو سود لینے اور دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے ساتھ ہی شاید کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو احکام پر عامل ہوں اور جن کی اخلاقی زندگی بے داغ ہو‘ لیکن جو عبادات میںکچے ہوں‘ یعنی سچ بولتے ہوں‘ خبائث سے پرہیز کرتے ہوں‘ دوسروں کے حقوق ادا کرتے ہوں مگر نماز‘ روزے سے غافل ہوں۔ ایک نظریاتی مملکت میں ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی زندگی کی اس ثنویت اور دو رنگی کو دور کیا جائے اور اس کے لیے تعلیم و تربیت اور تخولیف اور ترغیب کے سارے ذرائع استعمال کیے جائیں۔ آخری اہم مسئلہ رسوم کا ہے۔ ہماری معاشرت میں نت نئے اثرات مختلف ذرائع سے داخل ہو رہے ہیں جن کے نتیجے کے طور پر اسلامی معاشرے کی یک رنگی ختم ہو کر ایک ایسا معاشرہ پیدا ہو رہا ہے جو رفتہ رفتہ زیادہ سے زیادہ غیر اسلامی اثرات کے تحت آتا جا رہا ہے۔ پاکستان کو مکمل طور پر اسلامی ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان بیرونی اثرات کو بڑھنے اور پھیلنے سے روکا جائے اور ایسی پابندیاں عائد کی جائیں جو ہمیں غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھیں۔
ظاہر ہے کہ بحیثیت مجموعی ان سارے تقاضوں کی تکمیل کے لیے معاشرے کی منصوبہ بندی ایک لازمی امر ہے۔ اس منصوبہ بندی کے دو جز ہیں (1) موجودہ معاشرے کی اصلاح اور تطہیر اور (2) نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی۔
پہلا جزو ہمارے حال سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا جزو مستقبل سے۔ اس کے لیے ہمیں فوری نتائج پیدا کرنے والے اقدامات کی بھی ضرورت ہے اور دور رس نتائج پیدا کرنے والے اقدامات کی بھی۔ فوری نتائج پیدا کرنے والے اقدامات کا تعلق زندگی کے دو بنیادی شعبوں سے ہوگا۔ سیاست اور معاش۔ سب سے پہلی سیاست کے شعبے کو لیجیے۔ ضروری ہے کہ قوم کی اجتماعی رہنمائی کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو جو مملکت کی نظریاتی اساس یعنی اسلام پر مضبوط ایمان رکھتے ہوں اور ان کی سیرت اور کردار اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق ہو۔ وہ اپنے خیالات اور عمل میں خود بھی اسلام کی حقانیت کے گواہ ہوں اور دوسروں کو بھی اسلام کے مطابق بننے کا نمونہ پیش کر سکیں۔ حالیہ تجربے سے ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو چکی ہے کہ ایک غیر اسلامی اور بد کردار اور بداطوار سیاسی قیادت پوری قوم کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ پاکستان میں اسلام کے بجائے سوشل ازم کا نعرہ صرف اس لیے بلند ہو سکا کہ ہم نے پاکستان کی نظریاتی بنیاد پر توجہ دیے بغیر ایسے لوگوں کو عوام میں بڑھنے اور پھیلنے کا موقع دیا جو اسلام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح قوم کے اخلاقی بگاڑ کی ذمہ داری ہر اس قیادت پر ہے جس کے افراد اپنی انفرادی زندگیوں میں غیر اسلامی اثرات کے تابع تھے‘ اس لیے ضروری ہے کہ سیاست میں صرف وہ لوگ داخل ہو سکیں جو اسلام پر پورا یقین رکھتے ہوں۔ مسلمان سے محبت کرتے ہوں اور اخلاق اور سیرت میں اسلامی کردار کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ ہم جب تک اپنی سیاست کو پاکستان کی نظریاتی اساس کے مطابق نہیں بنائیں گے پاکستان کبھی اپنے مقصد کو حاصل نہیں کرسکے گا۔ ( جاری ہے)
ہم وضاحت سے یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اسلام ایک کلیت ہے جس کے کسی بھی جزو کو اس سے خارج کرنا اس کے دینِ کامل ہونے کی نفی کرتا ہے۔ یہ ایمان‘ عقائد‘ عبادات‘ احکام اور رسوم کا مجموعہ ہے اور اسلام کے مکمل نفاذ کے معنی اسے زندگی کے ان تمام شعبوں میں نافذ کرتا ہے۔ اب زندگی بجائے خود ایک وحدت ہے جس کے اجزائے ترکیبی کو اس کے کُل سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اسلام کو سیاست میں اس وقت تک نافذ نہیں کر سکتے جب تک معاش میں اسے نافذ نہ کریں اور معاش میں اسے نافذ نہیں کرسکتے جب تک قانون و اخلاق مین اسے نافذ نہ کریں اور قانون و اخلاق میں اسے نافذ نہیں کرسکتے جب تک تعلیم و تربیت کے شعبوں میں اسے نافذ نہ کریں اور تعلیم و تربیت کے شعبوں میں اسے نافذ نہیں کر سکتے جب تک گھروں اور دلوں میں اسے نافذ نہ کریں۔ یہ سلسلہ ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے بندھا ہوا ہے اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں اسلام کا نفاذ لازماً اسے دوسرے شعبوں میں بھی نافذ کرنے کا تقاضا کرتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کا نفاذ زندگی کے تمام شعبوں میں بیک وقت اور بیک حکم نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں لازماً کسی ایک جگہ سے آغاز کرنا پڑے گا۔ اب پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ اسلام کے نفاذ کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کے صحیح جواب کے بغیر ہماری کوششیں ناکام ہو سکتی ہیں بلکہ شاید ایسے نتائج پیدا کریں جو اسلام اور خود ہمارے لیے مفید ثابت نہ ہوں۔
کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ اسلام کے نفاذ کا عمل معاشرے کے بالائی ڈھانچے سے شروع ہو نا چاہیے۔ ان کے نزدیک اسلام کے نفاذ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں چند قوانین بنا دیے جائیں اور پھر قوت کے ذریعے ان قوانین پر عمل کرایا جائے۔ مثال کے طور پر اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو اسلام کے نفاذ کے معنی یہ ہیں کہ قانون میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کی جائے اور اس سزا پر فوراً عمل درآمد شروع کر دیا جائے۔ یہ نقطۂ بنیادی طور پر خارجی اکتساب کو سب کچھ سمجھتا ہے اور اسی کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ یقینا اس نقطۂ نظر میں ایک قوت ہے اور اس بیک جنبشِ قلم مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے کو کسی متعین راستے پر چلانے کے لیے یقینا قوانین کی ضرورت ہوتی ہے اور ان قوانین کے لیے ایک قوتِ نافذہ کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ہم اگر اپنے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنا دیں تو معاشرے پر اس کا اثر پڑنا یقینی ہے‘ لیکن ساتھ ہی اس نقطۂ نظر میں ایک خامی بھی ہے۔ معاشرے کی اصلاح اگر صرف قوانین سے ہو جاتی تو اتنے بہت سے قوانین کی موجودگی میں ہمارے معاشرے کو جنت ہونا چاہیے تھا۔ قوانین معاشرے میں خوف تو پیدا کرتے ہیں‘ ترغیب پیدا نہیں کرتے اور انسانی تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ صرف قانون سازی سے کبھی معاشرے کی اصلاح نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے برعکس قوانین کی زیادتی اور سختی ہمیشہ ایک ردعمل پیدا کرتی ہے جو معاشرے کے لیے مثبت نہیں ہوتا۔ ایسے قوانین کے خلاف لوگ یا تو بغاوت کر دیتے ہیں یا پھر قانون خود عملاً تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ کاغذ پر سارے قوانین موجود رہتے ہیں مگر ان پر عمل کوئی کرتا یا پھر معاشرے میں چھپ چھپ کر ان کی خلاف ورزی کا رجحان تقویت پا جاتا ہے۔ اس لیے اسلام کے نفاذ کا آغاز کرتے ہوئے ہمیں قانون سازی کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کوڑے مارنے کی سزائوں کا تجزیہ کیا جارہا ہے اس پر معاشرے میں کئی طرح کے ردعمل پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں معروضی طور پر ان کاجائزہ لینا چاہیے۔ ان پر ایک ردعمل یہ ہے کہ یہ وحشیانہ اور غیر مہذب سزائیں ہیں۔ ہمیں اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ ہے کہ معاشرے میں ایک طبقہ ایسا موجود ہے جو ایسی سزائوں کو حق بجانب نہیں سمجھتا اور ہمیں تسلیم کرنا چاہیے جدید تعلیم اور جدید معاشرے کے جو اثرات ہم میں موجود ہیں‘ اُن کے نقطۂ نظر سے اس رائے کی حمایت میں بہت بڑی قوت موجود ہے۔ کیا یہ قوت ان سزائوں کے خلاف ردعمل نہیں پیدا کرے گی؟ دوسرا ردعمل ان لوگوں کا ہے جو اصولی طور پر ان سزائوں کے خلاف نہیں ہیں‘ لیکن جنہیں ان سزائوں کے طریقۂ کار پر اعتراض ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور بے قوت لوگوں پر ان سزائوںکے عمل سے معاشرے کی اصلاح کے بجائے ضد اور انحراف کا رویہ پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہے کیوں کہ عام لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹے مجرموں کو تو یہ سزائیں دی جارہی ہیں لیکن بڑے مجرم چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ مثلاً ایک کانسٹیبل کو تو سو روپے رشوت لینے پر کوڑے مارے جارہے ہیں لیکن لاکھوں روپوں کی رشوت وصول کرنے والے ان سزائوں سے محفوظ ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ معاشرے میں ایک طرح کی ناانصافی کا احساس پیدا ہونا ہے اور ناانصافی کا احساس ہمشہ ایک اجتماعی بے چینی پیدا کرتا ہے۔ تیسرا ردعمل ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک معاشرے سے کچھ لینے سے پہلے اسے کچھ دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں اسلام کا نظامِ معاش نافذ ہو اور اس کے فوائد اور برکات کو لوگ ٹھوس طریقے پر اپنی زندگی میں محسوس کر لیں تو پھر اس کی سزائوں کو بھی رضا و رغبت کے ساتھ قبول کرلیں گے‘ لیکن ایک ایسی صورت میں جب معاشرے کو اسلامی قوانین کے مثبت نتائج کا تو کوئی تجربہ نہ ہو‘ اُس وقت تک ان سزائوں سے صرف مایوسی اور تلخی ہی پیدا ہوگی۔ اب ہم ایک چھوٹے سے مسئلے پر اجتماعی ردعمل کی ان تمام شکلوں کو پیش نظر رکھیں تو ان سے چند بنیادی اور اصولی نتائج پیدا ہوتے ہیں‘ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے کے درمیان ہیں۔ اس معاشرے میں کس قسم کے سیاسی‘ معاشی‘ نظریاتی‘ تہذیبی رجحانات موجود ہیں اور وہ زبانی طور پر نہیں حقیقی طور پر اسلام اور اسلامی قوانین کے بارے میں کیا رویہ رکھتے ہیں مثلاً ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ملک میں بیورو کریسی موجود ہے جو تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ملک کی کثیر آبادی سے مختلف ہے۔ اس کے نظریات‘ رجحانات اور محسوسات عام لوگوں سے مختلف ہیں۔ وہ مغربی طرزِ زندگی کی پیداوار اور غالب طور پر ایک ایسی ذہنیت کی مالک ہے جسے پورا معاشرہ شک و شبہے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کی تیس سالہ تاریخ میں اس کا ایک مخصوص کردار ظاہر ہوا ہے اور اس نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے پوری قوم کے مذہبی‘ تہذیبی‘ روایتی تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اکثریت کے درمیان ایک چھوٹی مگر نہایت طاقت ور اقلیت ہے جو قوم کے اجتماعی مفادات کے خلاف عمل کرتی رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی قوانین کے بارے میں اس اقلیت کا رویہ کیا ہوگا اور کیا اس کی موجودگی میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی حقیقی عمل شروع ہو سکے گا۔ یہی سوال سرمایہ داروں اور تاجروں کے بارے میں ہے‘ یہی سوال جاگیرداروں اور ان کے گماشتوں کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی لیے ہمیں پورے معاشرے کا تجزیہ کرنا پڑے گا اور اس کے اندر ہر طبقے کے مفاد اور اس کے ساتھ اس کے طرزِ احساس‘ طرزِ خیال اور طرزِ عمل کو دیکھنا پڑے گا۔ دوسری اہم اور اصولی بات جو مذکورہ ردعمل کی روشنی میں سامنے آتی ہے وہ نفاذ کا طریقہ کار ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ عوام کی اکثریت اور اس کے ساتھ ہی معاشرے کے مذہب دوست طبقات میں اسلامی نظام کے نفاذ کا شدید تقاضا موجود ہے لیکن یہ طبقات بھی اس کا نفاذ پہلے مثبت چیزوں میں چاہتے ہیں مثال کے طور پر معاشرہ گرانی کے بوجھ سے کراہ رہا ہے اور غربت و افلاس نے ہمارے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے۔ اسلامی نظام کا نفاذ اگر پاکستان کو ایسے اسلامی فلاحی معاشرے میں ڈھالنے سے شروع کیا جائے جو عوام کی بنیادی ضروریات کا کفیل ہو تو پوری قوم دوسرے اسلامی قوانین کو بھی خوشی سے قبول کر لے گی لیکن ایک ایسی حالت میں جب قوم نانِ شبینہ کے لیے ترس رہی ہو‘ جب لوگوں کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ نہ ہو اور لوگ نماز پڑھنے کے دوران بھی فکرِ مِعاش سے آزاد نہ ہوں تو اُن پر مزید قوانین کا بوجھ رکھ دینے کے معنی انہیں مشکلات میں مبتلا کر دینے کے مساوی ہے۔ اس بات سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ہمیں اسلام کا نفاذ اس کے اوامر سے کرنا ہے‘ نواہی سے نہیں۔ پہلے لوگوں کو اسلام کے مثبت احکام سے فائدہ اٹھانے دیجیے‘ پھر وہ نواہی پر خود ہی عمل پیرا ہو جائیں گے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو تیس سال سے لوٹ کھسوٹ کا شکار رہا ہو‘ جس میں عوام کے لیے کوئی مثبت کام نہ کیا گیا ہو‘ جس میں عدل و انصاف کے تقاضوں کو ہمیشہ پسِ پشت ڈالا گیا ہو اور جو ہر طرح عوام کی پیٹھ پر ایک بوجھ بن گیا ہو‘ صرف نواہی کا ذکر کرنا کسی طرح مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کر سکتا۔
اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں ایک دوسرا نقطۂ نظر اس کا نقطۂ آغاز معاشرے کو بنانے کے بجائے فرد کو بنانا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ہر تبدیلی بنیادی طور پر سب سے پہلے افراد میں پیدا ہوتی ہے۔ ہم معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں فرد کو بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ مسلمان بننے کے معنی فرد کا مسلمان بننا ہے کیوں کہ ایمان ایک داخلی اور انفرادی معاملہ ہے۔ فرد اگر مسلمان ہے تو اس کی پوری زندگی مسلمان کی زندگی ہوگی۔ اس نقطۂ نظر کے لوگ اپنے نظریے کا ثبوت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے پیش کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ حضورؐ نے پہلے افراد کو مسلمان بنایا پھر جب افراد کی زندگی ایمان اور تقویٰ کی زندگی بن گئی تو اس سے لازمی طور پر اسلامی معاشرہ پیدا ہوا ہے اور دنیا میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ یہ نقطۂ نظر بھی اپنی استدلال کی بنا پر بہت قوت رکھتا ہے اور ہمیں اپنے ہر کام کا آغاز کرتے ہوئے اسے مناسب اہمیت دینی چاہیے اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے اور افراد ہی معاشرے کو بناتے بگاڑتی ہیں۔ اچھے افراد کے معنی ہیں اچھا معاشرہ۔ برے افراد کے معنی ہیں برا معاشرہ۔ چنانچہ ہم اگر معاشرے میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اسے افراد کی زندگی میں نافذ کرنا پڑے گا۔
مثال کے طور پر آپ اپنے پرانے معاشرے کو دیکھیے۔ زندگی کے بعض شعبے اس کی دسترس سے باہر تھے‘ لیکن اپنے دائرہ اثر میں وہ مسلمان فرد پیدا کرنے پر زور دیتا تھا۔ یعنی اس کا طریقۂ کار اجتماعی نہیں انفرادی تھا۔ وہ اپنے کام کا آغاز بچے کی پیدائش سے کرتا تھا‘ بچے کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان دی جاتی تھی۔ یہ گویا نوزائیدہ فرد سے اسلام کا پہلا تعارف ہوتا تھا۔ اس کے بعد عقیقہ‘ ختنہ اور بسم اللہ کی رسوم بچے کو اسلامی تربیت کے ابتدائی مرحلوں سے گزارتی تھیں۔ پھر نماز اور روزہ کشائی کے ذریعے بچے کو اسلامی عبادات سے روشناس کرایا جاتا تھا اور جوں جوں وہ عمر میں بڑھتا جاتا تھا اس کی تعلیم و تربیت میں اسلام کا دخل زیادہ سے زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ گھروں میں اسلام کی باتیں ہوتی تھیں‘ بزرگانِ دین کے قصے بیان ہوتے تھے‘ کہانیوں میں ایک تھا بادشاہ‘ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ‘ خدا کا رسولؐ بادشاہ کا سبق پڑھایا جانا دینیات کے نظام جیسا نہیں تھا جو ایک ذیلی سیارے کے طور پر کسی اجنبی نظامِ شمسی کا حصہ بنا دیا گیا ہو‘ چنانچہ پیدائش کے وقت سے تعلیم مکمل ہونے تک وہ ایک اسلامی معاشرے کا جزو بننے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکا تھا‘ پھر جس معاشرے میں اسے داخل کیا جاتا تو اس کی مجموعی ذہنیت‘ طرز احساس‘ طرز خیال اور طرز عمل میں اسلام کا اثر اوپر سے نیچے تک موجود تھا۔ یہ معاشرہ کسی تہذیبی‘ علمی‘ یا نظریاتی ثنویت کا شکار نہیں تھا۔ یوں بچہ سنِ شعور تک پہنچنے سے پہلے آدھا دین اپنے گھر میں سیکھ جاتا تھا۔ اس کے بعد جب وہ تعلیم کے لیے مکتب میں پہنچتا تو دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا پورا نصاب اس کے لیے تیار ملتا تھا۔
اس وقت جو نصاب اسلامی تعلیم و تربیت کے نظام میں مرکز کی حیثیت رکھتا تھا اس کی حیثیت موجودہ نظام تعلیم کی نہیں تھی‘ چنانچہ فرد جس معاشرے کا حصہ بنتا وہ خود اس کی انفرادیت کی توسیع میں مدد کرتا‘ وہ اسے اپنا ایک مثبت‘ مفید اور فعال رکن بنا لیتا۔ ہمارے نزدیک اسلام کے نفاذ کا یہ فطری طریقہ ہی سب سے مناسب طریقہ تھا‘ لیکن اس طریقۂ کار کی افادیت موجود معاشرے میں کیا ہے اور یا موجودہ معاشرے میں اس کی گنجائش ہے بھی یا نہیں؟ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے‘ موجودہ معاشرے پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم دو دنیائوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ ایک دنیا وہ ہے جو ابھی تک ہامرے دیہات میں وجود رکھتی ہے اور جہاں پرانے معاشرے کے روایات اب بھی موجود ہیں۔ دوسری دنیا شہروں کی دنیا ہے‘ چو طرفہ سے ایسے اثرات کی کھلی زد میں ہے جو اسلام سے براہِ راست متصادم ہیں۔ شہروں کی یہ دنیا ملک کی کثیر دیہی آبادی کو دیکھتے ہوئے اقلیت کی دنیا ہے‘ لیکن یہ اقلیت اتنی طاقت ور اور وسیع تر اثرات کی حامل ہے کہ سارا ملک اس کے کنٹرول میں ہے۔ دیہی اکثریت کے رجحانات ’’حکم ران اور رجحانات‘‘ نہیں ہیں۔ شہری اقلیت معاشرے کی حکمران بھی ہے اور زندگی کے نئے راستوں پر اس کی رہنمابھی۔ پھر اس فنی زنددگی کی ترقی کے ساتھ اس اقلیت کے اثرات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ معاشرے سے ہماری مرادیہی شہری معاشرہ ہے جو صنعت اور تعلیم کی ترقی کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں غالب قوت کی حیثیت سے پھل رہا ہے۔ اس معاشرے کے اثرات سے ہمارے گھروں کا ماحول بالکل بدل گیا ہے۔ اب گھروں میں دین کی باتیں اس طرح نہیں ہوتیں جس طرح پہلے ہوتی تھیں۔ بزرگان دین کی حکایات اور اولیاؒ و انبیاؑ کے قصوںکی جگہ اب فلم ایکٹروں اور کھلاڑیوں کے تذکروں نے لے لی ہے۔ اب بچے پہلے معاشرے کی طرح حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کاذکر سننے کے بجائے اداکارئوں کا ذکر سنتے ہیں اور حضرت خالدؓ، حضرت بلالؓ، حضرت عمرؓ کے حالاتِ زندگی سے واقف ہونے کے بجائے کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں سے روشناس ہوتے ہیں۔ اسکولوں میں ہمیں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کی بنیاد اسلامی تصورات پر نہیں ہے۔ اب بچے وہاں جو کچھ سیکھتے ہیں وہ اسلامی معاشرے کے تقاضوں سے چنداں نسبت نہیں رکھتا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمیں جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ ہمیں مسلمان فرد بننے میں مدد دینے کے بجائے ابتدا ہی سے ایسے مسائل میں الجھاتا ہے جو مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات یا کم از کم بے توجہی اور لاپروائی کے اثرات پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر ان ادروں سے ہم جو کچھ سیکھ کر نکلتے ہیں وہ ہمیں ایک نیم مشرقی‘ نیم مغربی‘ نیم اسلامی‘ نیم غیر اسلامی قسم کا فرد بناتا ہے جس کے ذہن میں انتشار اور دھند کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر جب یہ فرد تعلیم کے مرحلوں سے گزر کر معاشرے کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو جو معاشرہ اسے ملتا ہے وہ ایک چوں چوں کے مربّے سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ ہزار دو ہزار تضادات فرد کے راستے میں بھیانک سوال بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی شخصیت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں‘ پھر یا تو وہ پیسہ بنانے یا معاشرے کی دوسری ترغیبات کا شکار ہو کر ایک ایسا فرد بن جاتا ہے جو اسلام‘ اخلاق اور کردار کے سارے تقاضوں سے بے نیاز ہے یا پھر داخلی اور خارجی تضادات کی پیکار میں مبتلا ہو کر ناکام ہو جاتا ہے اور باقی دن مایوسی اور ناکامی میں گزارتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ تبدیلیاں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں اور ان تبدیلیوں کو پوری طرح سمجھے بغیر ہم نہ اس معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں نہ فرد کو نئے اسلامی معاشرے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔
موجودہ معاشرے کی اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کانقطۂ آغاز فرد کو بنانے کے نظریے پر کئی اعتراض کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک اعتراض یہ ہے کہ افراد کو تبدیل کرنا ایک طویل اور مسلسل عمل کا تقاضا کرتا ہے‘ جب کہ زمانے کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ آپ جتنے عرصے میں چند افراد کو مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے تیار کریں گے‘ اتنے عرصے میں زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ جائے گا اور نئے حوادث و واقعات آپ کے عمل کو کچھ سے کچھ بنا دیں گے۔ ایک دوسرا اعتراض یہ ہے کہ افراد کی تبدیلی عملاً کبھی اتنی قوت حاصل نہیں کر پاتی کہ پورے معاشرے پر اثر انداز ہو سکے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ موجودہ معاشرہ اتنا وسیع اور پیچیدہ ہوگیا ہے کہ افراد کی تبدیلیاں آسان نہیں رہیں۔ آج کل فرد کو بدلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی مشین میں لگے ہوئے پرزے کے عمل کو مشین کے اندر رہتے ہوئے بدلنے کی کوشش کی جائے۔
وضاحت کے لیے ایک مثال پر غور کیجیے۔ آپ اپنے قول اور عمل کی بہترین کوششوں سے ایک فرد کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ لیکن معاشرے کے وسائل ابلاغ جتنے قوی ہیں آپ کے نہیں ہیں۔ آپ کی مہینہ بھر کی کوشش ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام سے غارت ہو سکتی ہے۔ یہ اعتراضات اہم اور وقیع ہیں اور ہمیں اپنے کام کا آغاز کرنے سے پہلے انہیں بھی پوری طرح جانچ پرکھ لینا چاہیے۔
معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کا آغاز اجتماعی طور پر ہو یا انفرادی طور پر‘ ہم ابتدا قانون سازی سے کریں یا فرد سازی سے‘ تبدیلی کا عمل پہلے خارج میں کیا جائے یا پہلے داخلی تبدیلی کی کوشش کی جائے۔ اوپر ہم نے مختصر طور پر دونوں نقطہ ہائے نظر بیان کر دیے ہیں اور ان کی خوبیاں اور کمزوریاں بھی واضح کر دی ہیں۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ہمارے لیے بہترین لائحہ عمل کیا ہوگا اور کون سے طریقۂ کار کو اختیار کرکے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
کسی بھی معاشرے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ معاشرہ بطور ایک مجرد اکائی کے صرف ذہنوں میں وجود رکھتا ہے‘ ورنہ ٹھوس معنوں میں معاشرہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے فراد پر مشتمل ہوتا ہے جو قانونِ وراثت‘ ماحول اور روایات کے تحت خصوصی طرزم عمل‘ طرزِ احساس اور طرزِ خیال کے حامل ہوتے ہیں اس کے علاوہ معاشرے میں ہمیشہ دو اصول ایک دوسرے کی مطابقت میں کار فرما ہتے ہیں۔ ایک اصول کے تحت معاشرے میں وہ ہم آہنگی‘ یکسانیت اور اتحاد پیدا ہوتا ہے جو اس معاشرے کے افراد اور طبقات کو یکجا رکھتا ہے۔ ہم اس اصول کو اصولِ وحدت کہتے ہیں اس کے مقابلے پر ایک دوسرا اصول معاشرے میں تنوع‘ اختلاف اور تضادات کا حامل ہوتا ہے جو اس معاشرے کے مختلف طبقات کے رجحانات اور روّیوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کرتا ہے اور ان میں وہ رنگا رنگی پیدا کرتا ہے جس کے بغیر معاشرے کی ترقی اور نشوونما ممکن نہیں ہوتی۔ اس اصول کو ہم اصولِ کثرت کہتے ہیں۔ اب اس اعتبار سے پاکستانی معاشرے میں جو اصولِ وحدت کار فرما ہے اس کے دو بڑے مظہر مذہب اور سیاست یا مملکت ہیں۔ مذہبی نقطۂ نظر سے پاکستان کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہے اور اسلام ان کے درمیان وہ قدرِ مشترک ہے جو صوبوں اور علاقوں کی علیحدہ علیحدہ وحدتوں کے باوجود انہیں ایک لڑی میں پروتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان میں مذہبی اقلیتیں بھی موجود ہیں جو اس وحدت کے تحت نہیں آتیں تاہم وحدت کا دوسرا اصول ان پر منطبق ہوتا ہے یعنی وہ پاکستان کی ریاست کے باشندے ہونے کی وجہ سے پاکستانیت کے رشتے میں اکثریت کے ساتھ وابستہ ہیں اس کے مقابلے میں اصولِ کثرت کی روشنی میں پاکستانی معاشرہ کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔
مثلاً پاکستانی معاشرے کی ایک تقسیم صوبوں اور علاقوں کے اعتبار سے وجود میں آتی ہے یہ پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان اور سرحد کے ان باشندوں پر مشتمل ہے جو اپنے اپنے علاقوں کی جغرافیائی تاریخی‘ تمدنی اور لسانی روایات کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک گل دستے کے مختلف پھولوں کی طرح جدا جدا رنگ و بُو رکھتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی دوسری تقسیم معاشی اعتبار سے کی جاسکتی ہے۔ اس تقسیم کے نقطۂ نظر سے پاکستانی معاشرہ کسان‘ مزدور‘ جاگیردار‘ سرمایہ دار‘ متوسط طبقہ اور نوکری شاہی پر مشتمل ہے۔ ان طبقات میں ان کے مفادات‘ رجحانات اور طرزعمل‘ طرز احساس اور طرز خیال کے اعتبار سے بڑا اختلاف اور فرق و امتیاز پایا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کا منصوبہ اس تمام صورت حال کے گہرے تجزیے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم جب تک اپنے معاشرے کے جغرافیائی‘ تاریخی‘ تمدنی‘ لسانی‘ معاشی‘ سیاسی اور مذہبی ساخت کو نہیں سمجھیں گے اس وقت تک اس کی تعمیر نو کا آغاز ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اب ایک اور زاویے سے اس معاشرے کی ایک اور تقسیم وجود میں آتی ہے۔ ہر معاشرے کی طرح پاکستانی معاشرہ بھی بوڑھوں‘ جوانوں‘ بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔ معاشرے کی تعمیر نو کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو پوری طرح سمجھ لیا جائے کہ ہمارے منصوبے کے دو رخ ہوں گے۔ ایک رخ کا تعلق اُن لوگوں سے ہوگا جو اپنے کردار اور شخصیت کے اعتبار سے پختہ ہو چکے ہیں اور جو کچھ بننا اور بگڑنا تھا بن یا بگڑ چکے ہیں۔ دوسرے رخ کا تعلق ان افراد سے ہوگا جو ابھی بننے کے مرحلے میں ہیں اور جنہیں نئے معاشرتی روّیوں میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا ایک رشتہ معاشرے کے موجود لوگوںسے ہوگا اور دوسرا رشتہ اُن لوگوں سے ہوگا جو معاشرے میں ابھی داخل ہو رہے ہیں یا آئندہ داخل ہوں گے۔ اس بات کو میں ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ فرض کیجیے ہم اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک نئے انداز میں آغاز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تعلیم اور تربیت معاشرے کے پختہ افراد کے لیے اتنی سود مند اور کارگر نہیں ہوگی جتنی معاشرے کے ان افراد کے لیے جو ابھی اپنے معاشرتی کردار اور روّیوں میں پختہ نہیں ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم موجودہ لوگوں کے لیے کس قسم کا عمل تجویز کرتے ہیں اور نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے کیا نظامِ تعلیم و تربیت بناتے ہیں۔
ہم آج جو کچھ بھی کریں گے اس کا پھل ہمیں آج ہی نہیں ملے گا۔ ہمارا آج کا عمل ہمارے کل کی صورت گری میں زیادہ مؤثر ثابت ہوگا اور اگر ہم نے اس منصوبے کو فوری نتائج تک محدود رکھا تو اس سے ہمیں اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا فائدہ ہمیں دُوررس نتائج کی حامل منصوبہ بندی سے حاصل ہوگا۔ معاشرے میں یقینا بہت سی چیزیں فوری طور پر کرنے کی ہیں‘ لیکن دُوررس منصوبہ بندی اس سے زیادہ توجہ کی مستحق ہے۔ ہم آج منصوبہ بنا کر اور اُس پر عمل کرکے ہی یہ امید کر سکیں گے کہ آئندہ نسل پورے طور پر ہمارے مقاصد کے مطابق ہوگی۔ اب اس پوری بحث کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دہری کارروائی کرنا پڑے گی۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک طرف اجتماعی طریقۂ کار کو اپنائیں اور اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف اس کے مساوی یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ ہم انفرادی طریقۂ کار کے بہترین نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں قوانین بھی بنانے چاہئیں‘ ادارے بھی تشکیل دینے چاہئیں‘ ترغیب اور تخویف کے ذرائع بھی استعمال کرنے چاہئیں اور اس کے ساتھ افراد میں ایسے تمام ذرائع استعمال کرکے ان تبدیلیوں کو بروئے کار لانے کی کوشش بھی کرنی چاہیے جن کے بغیر اجتماعی طریقۂ کار کا زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوتا۔