’’ہیں… یہ کیا افنان… تم سائنس میں فیل ہو اور فیل بھی تین نمبر لے کر۔ بڑا فسوس ہوا افنان۔‘‘ جبران بھائی نے میرے ٹیسٹ کے نمبر دیکھ کر کہا تو میں نے بڑا برا سا منہ بنایا۔
’’کیا ہوا جو سائنس میں فیل ہوں۔ باقی تمام مضامین میں دیکھتے نہیں ہیں کہ میرے کتنے شاندار نمبر آئے ہیں۔‘‘
’’سائنس کی جو اہمیت ہے وہ کسی دوسرے مضمون کی نہیں ہے۔ سائنس کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے‘ ہم جی نہیں سکتے۔‘‘ جبران بھائی نے اپنا فلسفہ جھاڑا تو میں جل بھن کر رہ گیا۔
’’سائنس کے بغیر ہم جی سکتے ہیں‘ پتھروں کے دور میں بھی انسان جیتا تھا۔‘‘
’’کیا ہو رہا ہے بھئی‘ کس بحث میں لگے ہوئے ہو تم دونوں؟‘‘ دادا جان کسی کام سے باہر نکل رہے تھے‘ ہمیں بحث کرتا دیکھ کر ٹھہر گئے۔
’’دادا جان! افنان کہتا ہے کہ ہم سائنس کے بغیر جی سکتے ہیںجب کہ میںٍ کہتا ہوٍ کہ سائنس…‘‘ جبران بھائی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دادا جان نے ہاتھ اٹھایا۔
’’بس ٹھیک ہے میں سمجھ گیا۔ نوقت کم ہے ورنہ میں تم دونوں کو تمہارا نقطہ نظر سمجھاتا مگر میں ایک ضروری کام سے بھٹی صاحب کے ساتھ حیدرآباد جا رہا ہوں‘ سو یہ بحث پھر کبھی۔‘‘ وہ عجلت میں باہر نکل گئے۔ میں نے پلٹ کر جبران بھائی کو دیکھا۔
’’میں اپنی بات ثابت کروں گا۔‘‘ میں بولا۔
’’اور میں بھی۔‘‘ انہوں نے فضا میں اپنا مکا لہرایا اور باہر نکل گئے۔
میں سخت تھکن محسوس کر رہا تھا‘ نیند بھی آرہی تھی‘ اپنے کمرے میں داخل ہوا اور گرتے ہی سو گیا۔ ایک عجب وحشت اور گھبراہٹ سے میری آنکھ کھلی میرا جسم پسینے میں تربتر تھا۔
…٭…
’’آخر کمرے میں اتنی گہری تاریکی اور گرمی کیوں ہے؟‘‘ میں سوچ رہا تھا۔ ٹٹول ٹٹول کر اٹھ کھڑا ہوا اور سوئچ بورڈ کے پاس پہنچ کر تمام بٹن آن کر دیے۔ ٹچ ٹچ کی آواز آئی مگر کچھ نہ ہوا۔ اگر لائٹ گئی ہوئی ہے تو یو پی ایس کو چلنا چاہیے مگر یہ کیا ہوا؟ میں نے کھڑکیاں کھول دیں۔ پردے ہٹا دیے‘ روشنی اندر داخل ہوئی میں نے دیکھا کمرے میں سے پنکھا بھی غائب ہے اور ٹیوب لائٹ بھی۔
اسی لمحے مجھے جبران بھائی کا خیال آیا۔ انہوں نے بولا تھا کہ ’’سائنس کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے‘ ہم جی نہیں سکتے‘ میں اپنی بات ثابت کروں گا۔‘‘
میں سلگ کر رہ گیا۔ خوب‘ جبران بھائی سائنس کی افادیت کا اظہار کررہے ہیں‘ میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ بے خیالی میں‘ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا‘ میں دھک سے رہ گیا… میرا موبائل فون بھی نکال لیا گیا تھا‘ اُف میرے دوست مجھ سے کس طرح رابطہ کریں گے۔ غصے کی لہریں میرے جسم میں اوپر سے نیچے دوڑنے لگیں۔ میں گھر کے پائیں باغ میں چلا آیا اور نرم نرم ہری گھاس پر چلنے لگا۔ رنگین پھولوں کو دیکھنے لگا۔ ان پھولوں اور پودوں کو اُگانے کے لیے سائنس کی کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں‘ میں سوچنے لگا اور پھر ہمارا مالی بابا پڑھا لکھا ہے ہی کب؟ وہ تو بالکل ہی اَن پڑھ ہے۔ میں پھولوں کو دیکھ دیکھ کر قدرت کی صناعی پر حیران ہوتا رہا۔ اچانک مجھے میچ کا خیال آیا۔ آج چھ بجے پاک بھارت میچ آنا تھا۔ یہ خیال آتے ہی میں دوڑتا ہو اندر کی طرف بڑھا۔ ابو جان لان کے کونے میں کرسی ڈالے اخبار پڑھ رہے تھے۔
’’ابو جان… میچ… میچ…‘‘ میں نے دوڑتے ہوئے ان کی طرف منہ کرکے آواز لگائی۔
’’پتا نہیں ٹی وی میں کیا گڑبڑ ہوگئی ہے۔ میچ نہیں آرہا۔‘‘ انہوں نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بغیر پرسکون لہجے میں جواب دیا۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
’’کوئی خرابی نہیں ہوئی ابو جان! یہ سب حرکتیں جبران بھائی کر رہے ہیں۔ انہیں نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔‘‘ میں روہنسا ہو کر بولا۔
’’جبران کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرے۔‘‘ وہ بولے۔
’’اس وقت کہاں گئے ہیں جبران بھائی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ کھیل کے میدان گیا ہے۔ بتا رہا تھا آج بڑا اہم میچ ہے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا اور پھر اخبار کی طرف متوجہ ہو گئے۔
میں دل ہی دل میں منصوبے بنانے لگا۔ میرا دماغ بڑی تیزی سے کام کر رہا تھا۔ پھر اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں چھت کی طرف بھاگا۔
میں چھت سے جھانک رہا تھا۔ برابر میں جیلانی انکل کا گھر تھا۔ جیلانی انکل بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ خدا جانے خوشی سے ٹہل رہے تھے یا مارے بے چینی کے۔ بہرحال تیز تیز ٹہل رہے تھے۔
اسی وقت اندر کمرے سے ان کے بیوی بچے آتے نظر آئے۔ انہوں نے اسی وقت اپنی جیب سے ایک موبائل نکال کر لہرایا۔ پرانا سا موبائل۔ بد رنگا سا۔
موبائل دیکھ کر نہ صرف ان کے بیوی بچے بلکہ میں خود حیران رہ گیا۔ جیلانی انکل جیسے کنجوس آدمی کے پاس بھلا موبائل فون کا کیا کام؟
’’یہ…یہ کک… کیا… کہا؟‘‘ بچے مارے خوشی کے گنگ ہو گئے۔
’’ہاں یہ میں نے خریدا ہے سیکنڈ ہینڈ۔‘‘ انہوں نے فخر سے گردن اکڑا لی۔ بچے بڑے سب جیلانی انکل اور ان کے موبائل کو یوں دیکھنے لگے جیسے وہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو۔ کچھ بچوں نے بڑھ کر موبائل فون چھونے کی خواہش کی مگر انہوں نے فوراً دور کر لیا اور چلا کر بولے ’’اب اس موبائل سے میں ایسے ایسے کام لوں گا کہ سب حیران رہ جائیں گے۔‘‘
’’کک… کیسے کیسے…‘‘ ان کی بیگم ہکابکا تھیں۔
’’وہ ایسے کہ جب میں آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر‘ ہری مرچیں وغیرہ لانا بھول جائوں گا تو تم لوگ مجھے اس موبائل پر یاد دلا دیا کرو گے کہ یہ بھی لیتے آنا ہے۔‘‘
’’مم…… مگر کیسے… پیسے خرچ ہوںگے کال کرنے پر۔‘‘ بڑے لڑکے نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’نہیں… پیسے خرچ نہیں ہو ں گے… یہی تو مزا ہے۔ چلو سب لکھنا شروع کر دو۔‘‘
’’کیا لکھنا ہے؟‘‘
’’جب تم لو مجھے صرف ایک بیل دو گے تو وہ آلو کے لیے ہو گی‘ دو بیل پیاز کے لیے‘ پھر تین بیل ٹماٹر کے لیے‘ چار بیل ہری مرچ‘ پانچ بیل دھنیا پودینہ…‘‘ انہوں نے اپنی جیب سے پرچہ نکال کر پڑھنا شروع کیا۔ سب کچھ وہ پہلے ہی لکھ کر لائے تھے۔
’’اگر کہیں سبزی نہ منگوانا ہوئی اور یہ کہنا ہوا کہ جلدی گھر آنا ہے منا بیمار ہے تو…؟‘‘ منجھلی لڑکی لکھتے لکھتے رک کر بولی۔
’’تم لوگ بڑے احمقانہ سوالات کرنے لگتے ہو‘ سولہویں گھنٹی کے آگے میں نے یہی پوائنٹ لکھا تھا۔ بڑے جلد باز لوگ ہو تم بھی۔‘‘
’’مم… مگر ابا جان سولہویں گھنٹی نہیں بجے گی۔ یہ کال پہلے ہی منقطع ہو جائے گی۔‘‘
’’پھر وہی بے وقوفانہ بات۔ دوسری کال ملائو گے تم لوگ‘ تمہارے کون سے پیسے لگیں گے۔‘‘
’’مم…مگر… ابا جان آپ بازار میں کھڑے ہو کر گھنٹیاں گنیں گے‘ بڑی مشکل ہو جائے گی۔‘‘
’’نہیں مشکل کیسی؟ پہلے گھنٹیاں گن لوں گا پھر جیب سے پرچا نکال کر دیکھ لوں گا کہ اتنی گھنٹیوں سے کیا مراد ہے۔ چلو اب پھر لکھنا شروع کرو۔ دسویں گھنٹی سے مراد ہے آج رات کا کھانا نانی کے ہاں کھانا ہے جلدی آیئے۔‘‘
چھت پر سے مجھے نہ صرف سب دکھائی دے رہا تھا بلکہ سب سنائی بھی دے رہا تھا۔ میں بھول چکا تھا کہ میںچھت پر کیوں چڑھا تھا اور میرے ذہن میں کیا آیا تھا؟ معاً میرے ذہن میں ایک خیال آیا اگلے لمحے میں سیڑھیاں اتر رہا تھا اور جیلانی انکل کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔
(جاری ہے)