ادکادمی ادبیات پاکستان سندھ کراچی قادر بخش سومرو کی سربراہی میں ہر ہفتے ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہے جس میں اردو اور سندھ زبان کی ترویج و ترقی کا عمل جاری ہے یہ سلسلہ قابل ستائش ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر جاوید منظر نے اکادمی ادبیات کے تحت ہونے والے پروگرام ’’پاکستانی لوک ادب و مشاعرہ‘‘ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ لوک ادب سینہ بہ سینہ چلتا ہے اس کی کوئی تحریری شکل موجود نہیں جب کہ ادب عالیہ کی مقبولیت ایک خاص ماحول اور مخصو مدت کے لیے ہوتی ہے۔ لوک ادب کا رواج زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ نصیر سومرو نے کہا کہ لوک ادب عوام الناس کی تفریح کا ذریعہ بھی ہے اور تاریخ سازی میں اہم حیثیت کا حامل بھی ہے کہ لوک ادب میں انسانی تاریخ‘ جذبات و احساسات‘ موسموں کے احوال‘ خوشی و غم نے عنوانات شامل ہیں ہم اس ادب میں عہدِ رفتہ اور موجودہ زمانے کے واقعات بھی سنتے ہیں اور ہمارے خیالات و افکار کے دائرے بھی لوک ادب سے وسیع ہوتے ہیں۔ قادر بخش سومرو نے پروگرام کی نظامت کی اور اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ لوک ادب ہمارے ملک کی تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہے ہم اپنی خوشیوں کے موقعوں پر‘ شادی بیاہ کے پروگراموں میں لوک ادب کو سماعت کرتے ہیں لوک ادب کے فن کار ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیںجب کہ قدیم لوک ادب کی بازیافت اور جو لوک ادب اب تک زندہ ہے اس کے تحفظ کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ یہ مسئلہ اس جہانِ رنگ و بو کے ساتھ بدلتے حالات و تغیرات میں تمام دنیا کی زبانوں کے لوک ادب کا مسئلہ ہے ہر زبان اپنے قدیم عوامی ادب کو بیان کرتی ہے عہدِ حاضر میں کتنی ہی زبانیں اپنا وجود کھو رہی ہیں جس کے سبب بہت سی قیمتی قدریں‘ روایتیں اور تہذیبیں مٹ رہی ہیں اگر دورِ حاضر کی اقوام حال و مستقبل کے ساتھ اپنے ماضی‘ سماج اور اپنی تہذیب سے جڑے رہنا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی زبانوں اور ادبی سرمائے کی حفاظت کرنی ہوگی۔ لوک ادب پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ لوک ادب کی لفظیات‘ محاورے‘ استعارے مقامی ہوتے ہیں جب کہ ادب عالیہ میں غیر مقامی لفظیات‘ محاورے‘ استعارے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ البتہ لوک ادب کا پھیلائو محدود ہوتا ہے اور ادب عالیہ دنیا کے تمام علاقوں تک پھیل سکتا ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے دورمیں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ راقم الحروف نثار احمد‘ نصیر سومرو‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ محمد رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ قمر جہاں‘ ارحم ملک‘ عادل علی‘ دلشاد احمد دہلوی اور تاج علی رانا نی اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرے میں شعرا کی کم تعداد کے سبب تمام شعرا نے دو‘ دو غزلیں سنائیں۔ اس محفل میں جمیل ادیب سید بھی موجود تھے جنہوں نے بوجوہ اپنا کلام نہیں سنایا جب کہ انہیں اپنی غزل پڑھنی چاہیے تھی۔ قادر بخش سومرونے اسٹیج کے لیے جن شعرا کا انتخاب کیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ مہمان خصوصی اور مہمان اعزازی کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے صدر مشاعرہ کو محفل میں موجود شعرا سے سینئر ہونا چاہیے اور بلاشبہ ڈاکٹر جاوید منظر اس محفل میں صدارت کے حق دار تھے ہمیں چاہیے کہ ہم فراخ دلی کا مظاہرہ کریں تاکہ کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔