طبقاتی معاشرہ اور اسلامی نظام

1991

اسلامی نظام کا نفاذ ایک بہت بڑا انقلاب، ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ صدیوں سے ہم اس کا خواب دیکھ رہے ہیں، صدیوں سے اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا کے سارے نظام انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے ناقص اور ادھورے ہیں۔ اس کے مقابلے پر اسلامی نظام خدا کا دیا ہوا ہے اور ہر طرح سے مکمل اور ہر معنی میں کامل ہے۔ اسلامی نظام کو نافذ کرکے ہم دنیا کے سامنے ایک نیا تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔ تجارت، سیاست، معیشت، نظامِ تعلیم، زندگی کے ہر شعبے میں ایک نمونہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح نافذ ہوگا؟ اس کی ابتدا کہاں سے ہوگی، کون لوگ اسے نافذ کریں گے اور کن لوگوں کے ذریعے یہ اپنی تکمیل کو پہنچے گا؟
ہمارے پاس ایک قطعہ زمین ہے، ہم اس پر ایک نیا مکان بنانا چاہتے ہیں، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایک مشکل یہ ہے کہ قطعہ زمین خالی نہیں ہے۔ اس پر ایک مکان پہلے سے بنا ہوا ہے۔ مجھے یہ مکان پسند نہیں ہے، یہ میرے لیے تکلیف دہ اور میری ضروریات کے مطابق نہیں ہے، لیکن بہت سے لوگ اس مکان میں رہتے ہیں۔ وہ اس مکان کے عادی ہوچکے ہیں۔ انہیں یہ مکان ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ پھر ان میں بہت سے لوگ ہیں جو مکان کے اچھے اور آرام دہ حصوں پر قابض ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ موجودہ مکان میں کوئی تبدیلی کی جائے، کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ شاید تبدیلی کے بعد وہ فائدے میں نہیں رہیں گے۔ ایک تیسرا گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو موجودہ مکان سے خوش نہیں ہیں اور اس لیے مکان کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں، مگر ان کے پاس پہلے مکان کا نقشہ مجھ سے مختلف ہے، وہ ہم سے لڑتے ہیں اور ہمیں کام نہیں کرنے دیتے۔ اس مثال میں قطعہ زمین پاکستان ہے۔ جو مکان ہم بنانا چاہتے ہیں وہ اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ جو مکان اس پر پہلے سے بنا ہوا ہے وہ ہمارا موجودہ سیاسی اور معاشی نظام ہے۔ جو لوگ اس مکان میں تبدیلی نہیں چاہتے وہ مراعات یافتہ طبقے ہیں جن کا مفاد اس نظام سے وابستہ ہے۔ جو لوگ نیا مکان بنانا چاہتے ہیں، لیکن اسلامی نظام سے اتفاق نہیں رکھتے وہ لادینی نظریات کے حامل وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی تشکیل اپنے نظریات کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات کہ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت اسلامی نظام پر متفق ہے ہماری سب سے بڑی قوت ہے۔ پچھلے ادوار کے مقابلے پر ایک نئی بات یہ ہوئی کہ اب حکومت بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو اخلاص اور ایمان کے ساتھ اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ عوام اور حکومت کا یہ اشتراک نیک فال ہے، ایک بہت بڑی نویدِ مسرت ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہمارا راستہ روک رہی ہیں۔ ان میں سب سے پہلی رکاوٹ یہ ہے کہ اسلامی نظام کا نقشہ واضح نہیں ہے۔ ہم نے اسلامی نظام کے نعرے تو بہت لگائے ہیں مگر کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے، بلکہ کام کی نوعیت بھی واضح نہیں ہے۔ کچھ لوگ ’تبدیلی‘ سے انقلاب کے بجائے صرف معمولی ردوبدل مراد لیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں اس کا تصور کچھ ایسا ہے جیسے پرانے مکان کی دیواروں پر نیا رنگ پھیر دیا جائے، فرنیچر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں رکھ دیا جائے، کہیں کسی دیوار یا چھت میں کوئی رخنہ پیدا ہوگیا ہو تو اس کی درستی کردی جائے، یا زیادہ سے زیادہ کسی دیوار کو گراکر نئی دیوار بنادی جائے۔ دوسرے لفظوں میں وہ لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں اسلام کو کہیں فٹ کردیا جائے۔ کچھ لوگ اس معمولی ردوبدل کا تصور بھی نہیں رکھتے، وہ معاشرے کے بجائے افراد میں کچھ ایسی تبدیلیاں چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک دینی نوعیت کی ہیں، مثلاً نماز پڑھنا یا روزے رکھنا۔ ان کا تصور یہ کہ لوگ اگرعبادت کرنے لگیں یا حکومت کی طرف سے یہ اعلان ہوجائے کہ حکومت لوگوں کو نماز پڑھوائے گی تو یہ کافی ہے۔ مختصر طور پر یہ لوگ اسلامی نظام سے صرف عقائد اور عبادات مراد لیتے ہیں، اور اس کی درستی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس گروہ کا ایک حصہ وہ ہے جو عقائد اور عبادات میں تعزیرات کو بھی شامل کرلیتا ہے۔ اس کے نزدیک اگر چوروں کے ہاتھ کاٹے جانے لگیں اور زانی کو سنگسار کیا جانے لگے تو عقائد اور عبادات کے ساتھ اسلامی نظام کی تکمیل ہوجائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقائد، عبادات اور تعزیرات اسلامی نظام کا جزوِلاینفک ہیں، جن پر عمل ہونا ہی ہونا ہے۔ لیکن یہ معاملات پوری زندگی کے مترادف نہیں ہیں۔ اس لیے اسلامی نظام کے اجزا ہیں تو کُل نہیں ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے یہاں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو اسلامی نظام کی کلیّت کا علم و احساس رکھتے ہیں، اور اسلامی نظام کی امید یہی لوگ ہیں۔ نئی حکومت اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو کچھ کررہی ہے وہ انہی لوگوں کے ذریعے کرا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد کم ہے، اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تصورات کو عام کیا جائے اور ملک کے ہر طبقے میں ان خیالات کی ترویج کی جائے جو اسلامی نظام کی کلیّت سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ اسلامی نظام کا نقشہ مکمل ہو۔ جو لوگ اس کا علم و احساس رکھتے ہوں انہیں آگے لایا جائے اور ان کے مکمل تعاون سے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ لوگ اسلامی نظام کی شرطِ اوّلین ہیں۔
اسلامی نظام کے نفاذ میں دوسری بڑی رکاوٹ مراعات یافتہ طبقات ہیں۔ ان میں جاگیردار، سرمایہ دار اور بیوروکریسی من حیث الطبقہ شامل ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم ان طبقات کے افراد پر افراد کی حیثیت سے گفتگو نہیں کررہے ہیں۔ یقینا ان تمام طبقات میں ایسے لوگ موجود ہیں جن میں مذہبی احساس موجود ہے اور جو اخلاقی شعور کے مالک ہیں۔ وہ نیک، شریف، دیانت دار اور خدا ترس ہوسکتے ہیں۔ لیکن طبقات کا عمل افراد کے عمل سے آزاد ہوتا ہے۔ طبقات کی حیثیت ایک بڑی مشین کی ہوتی ہے جس کے تمام کل پُرزے مشین کی مجموعی ساخت کے مطابق کام کرتے ہیں، اور کوئی ایک پُرزہ اپنے ارادے اور خواہش سے پوری مشینری کے عمل کو نہیں بدل سکتا۔ اس لیے ایسے افراد کا طبقاتی عمل ان کے انفرادی مذہب، اخلاق اور کردار سے آزاد ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ان طبقات کو جو قوت اور مقام حاصل ہے وہ اسلام کے عدلِ اجتماعی کے منافی ہے۔ مجھے احساس ہے کہ ہمارے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس خیال سے اتفاق نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک اسلامی نظام کا ان طبقات سے کوئی تصادم نہیں ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام بہ حیثیت دین کے ان تمام طبقات کو قبول کرسکتا ہے۔ یہ خیال درست نہیں ہے اور ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اب ان طبقات کو برقرار رکھنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی، اور اگر ان کا کوئی نام نہاد اسلامی جواز پیش کیا گیا تو اس سے اسلام کو تو نقصان پہنچ جائے گا لیکن ان طبقات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ میں نے پچھلے صفحات میں ذکر کیا تھا کہ کچھ لوگ اسلام کو موجودہ نظام میں فٹ کرنے کی کوشش ہی کو اسلامی نظام کے نفاذ کا عمل سمجھ رہے ہیں۔ یہ وہ تمام لوگ ہیں جو ملک کے موجودہ طبقات کو اپنی جگہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن جس شخص کو تاریخ کا تھوڑا بہت بھی علم ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کو ان طبقات کے مفاد کا آلۂ کار بناکر ہم نہ اسلام کے ساتھ انصاف کرسکیں گے نہ تاریخ کے تقاضوں کے ساتھ۔ آج اسلامی نظام کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والوں کو سب سے پہلے اس سوال کا جواب دینا ہے کہ آیا وہ ان طبقات کے قائم رکھنے کے حق میں ہیں یا انہیں بدلنا چاہتے ہیں؟ ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ اسلامی نظام میں جاگیرداری قائم رہے گی یا نہیں؟ سرمایہ داری کا سکہ چلے گا یا نہیں؟ بیوروکریسی کا اقتدار قائم رہے گا یا نہیں؟ ان سوالات کا واضح جواب دیے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں چل سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ان سوالات پر کھل کر سوچا نہیں جارہا ہے۔ اور جب میں کہتا ہوں کہ اسلامی نظام کا نقشہ واضح نہیں ہے تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ ہم نے اسلامی نظام کے مسئلے کو ٹھوس سوالات کی روشنی میں سوچنے کی کوششیں نہیں کی ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان مسائل پر بالکل ہی غور و فکر نہیں ہوا ہے۔ غور و فکر ضرور ہوا ہے، مگر وہ عوام تک نہیں پہنچا ہے۔ یا جیسا پہنچنا چاہیے تھا ویسا نہیں پہنچا ہے۔ ہمیں ریزہ ریزہ کرکے بہت کچھ جمع کرنا ہے۔ قرآنِ حکیم اور احادیث شریف سے استفادہ، خلفائے راشدین کے عمل اور فقہا کے افکار سے رہنمائی، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور عہدِ جدید میں علامہ اقبال، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا مودودی وغیرہ کے خیالات سے روشنی حاصل کرکے ہم ان مسائل کو اچھی طرح سمجھ بھی سکتے ہیں اور انہیں حل بھی کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ کام دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی ہورہا ہے اور اس سے بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے لیے ان طبقات کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے ان طبقات کی ساخت، ان کے معاشی و معاشرتی کردار، اور ان کے تاریخی عمل کو سمجھنے کی ضرورت پڑے گی۔ ہمیں معلوم کرنا ہوگا کہ جاگیردار طبقہ تاریخی طور پر کس ضرورت کے تحت پیدا ہوا، اور اب موجودہ دور میں اس کے وجود اور بقا کا کوئی جواز باقی رہ گیا یا نہیں؟ اسی طرح ہمیں سرمایہ دار طبقے کی پیدائش، اس کی حرکات، عمل اور سماجی اور معاشی کردار کا جائزہ لینا ہوگا۔ بیوروکریسی ایک بالکل نیا طبقہ ہے، ہمیں اس کے بارے میں بھی معلوم کرنا پڑے گا کہ اس کے وجود میں آنے کے اسباب کیا تھے، اور یہ اب ہماری قومی تعمیر کے کام میں کیا رول انجام دے رہا ہے؟ ان مسائل پر پورا غور و فکر کرکے ہی ہم ان طبقات کے بارے میں کسی فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔ اور مسائل کو اپنے مذہب، عقل اور تاریخی تقاضوں کے مطابق حل کرسکیں گے۔
طبقات کی بات چھڑے تو بعض لوگ شدت سے اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام طبقات کو قبول نہیں کرتا۔ مسلمان سب مسلمان ہیں اور انہیں طبقاتی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک اسلامی اصولوں کا تعلق ہے یہ بات سو فیصدی درست ہے۔ اشتراکیت اپنے سارے تجزیوںکی بنیاد طبقات پر رکھتی ہے اور طبقاتی حیثیت اُس کے نزدیک سب سے بڑی حقیقت ہے، وہ خود اپنے آپ کو ایک طبقے سے منسوب کرتی ہے اور ایک ایسے معاشرے کے قیام کی مدعی ہے جس میں طبقات نہ ہوں۔ جبکہ اسلام کا نقطہ نظر طبقاتی نہیں ہے، وہ طبقات کی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک انسان انسان ہیں اور ان کے درمیان واحد تقسیم کفر اور ایمان کے نقطہ نظر سے ہے۔ ہمیں اس نقطہ نظر سے پورا اتفاق ہے، لیکن اس نقطہ نظر میں ایک خامی بھی ہے۔ وہ اسلام کی مثالی تعلیمات کو پیش کرنے کے باوجود موجودہ معاشرتی صورتِ حال کو نظرانداز کرتا ہے۔ اسے یہ دکھائی نہیں دیتا کہ ہمارا معاشرہ اسلامی اصولوں پر قائم نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سی چیزیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ موجودہ طبقات بھی اسلامی اصولوں سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ ان کی پیدائش کے اسباب دوسرے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے لیے ہمیں ان طبقات کی حقیقت کو بھی دیکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں ایک واضح رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ جاگیردار طبقہ بہ حیثیت طبقے کے بادشاہت کی ضرورت سے وجود میں آیا۔ پھر صورتِ حال کے بدلنے کے بعد انگریزوں نے اسے ایک دوسری صورت دے دی۔ پہلے بادشاہوں کو فوجوں کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ اپنے سرداروں کو فوجیں رکھنے کے لیے جاگیریں دیتے تھے۔ انگریزوں کے زمانے میں جاگیرداروں کے ذریعے فوجیں حاصل کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی لیکن انگریزوں نے اپنے وفاداروں کا ایک مطلوبہ طبقہ پیدا کرنے کے لیے جاگیرداری کو تقویت دی۔ اب جاگیریں فوجیں رکھنے کے بجائے صرف ’’کھائو پیو اور عیش کرو‘‘ کے کام آنے لگیں۔ ظاہر ہے کہ جاگیرداری کا یہ نظام اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور اسلام کے نقطہ نظر سے اسے برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جاگیرداری کی طرح سرمایہ داری کے محرکات بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ موجودہ سرمایہ دار حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ کا جانشین نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ میں اہلِ ثروت افراد موجود تھے، لیکن ان کی زندگی کا مقصدِ اوّلین اسلام تھا۔ ان کی ثروت اور دولت بھی اسلام ہی کو تقویت پہنچانے کا ایک ذریعہ تھی۔ جب کہ موجودہ سرمایہ دار کا دین ایمان اس کا سرمایہ ہے۔ موجودہ سرمایہ دار کے پیش نظر اسلام ہوتا تو وہ سودی معیشت کا حصہ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ صرف یہ بات کہ موجودہ سرمایہ داری کی بنیاد سودی کاروبار ہے، یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے صریحاً منافی ہے۔ ہمارے اس استدلال کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہرچند اسلام میں طبقات نہیں ہیں، لیکن ہمیں موجودہ طبقات کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی نہ کوئی فیصلہ ضرور کرنا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا شعور انسانوں کے مسائل کو جس طرح محسوس کررہا ہے ہمارے مذہبی طبقات اس کا ایسا شعور اور احساس نہیں رکھتے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ عقائد، عبادات اور نظام تعزیرات انھی نقطہ نظر سے بہت اہمیت رکھتے ہیں، لیکن معاشرتی اور معاشی تبدیلیاں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں، اور عہدِ جدید کا شعور ان مسائل کو جتنی اہمیت دیتا ہے وہ دوسرے مسائل کو حاصل نہیں ہے۔ ہمیں پاکستان کو قرونِ وسطیٰ کی کسی ریاست کا نمونہ نہیں بنانا ہے، نہ تاریخ کے سفر میں ماضی کے کسی اذکارِ رفتہ سیاسی یا معاشی نظام کی طرف لوٹنا ہے، بلکہ عہدِ جدید کے شعور اور مسائل کو جذب کرکے پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے جو جہاں ایک طرف اسلام کی روح کے مطابق ہو، وہاں دوسری طرف عہدِ جدید کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو۔ ہمارا یہ مقصد ہمیں اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک ہم اسلام کے اصولوں کو عہدِ جدید کی ضروریات کی روشنی میں پیش نہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمارے شعور و احساس کی موجودہ سطح ایسی نہیں ہے جو تاریخ کے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے کافی ہو، اس لیے جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں اصل مسئلہ تو ان مسائل کا شعور پیدا کرنا ہے، اور پھر ایسے لوگوں کی تلاش جو ان مسائل کا شعور رکھنے کے ساتھ ان کا اسلامی حل پیش کرنے کے قابل ہوں۔
اسلامی نظام کے نفاذ میں تیسری سب سے بڑی رکاوٹ لادین عناصر ہیں۔ ان میں دہریے، سوشلسٹ، آزاد خیال مغرب پرست، ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ ان کی اکثریت یا تو مذہب میں یقین نہیں رکھتی، یا پھر مذہب کو اپنے مفادات اور دل چسپیوں کے منافی تصور کرتی ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ خفیہ یا اعلانیہ طور پر اسلامی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرتے رہتے ہیں اور اس کے خلاف ہر طرح کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو روا رکھتے ہیں۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان لوگوں کی کوئی الگ شناخت نہیں ہے۔ یہ عام طور پر مسلم معاشرے کے فرد سمجھے جاتے ہیں اور گھر کے اندر رہ کر گھر کی دیواریں ڈھانے کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہیں، یہ مسلمانوں کی طرح کھاتے پیتے ہیں، مسلمانوں کے تہواروں میں شریک ہوتے ہیں، شادی بیاہ مسلمانوں کی طرح کرتے ہیں، مرتے ہیں تو مسلمان کی طرح نہلائے اور دفنائے جاتے ہیں، مگر ان کی پوری زندگی اسلام دشمنی میں صرف ہوتی ہے۔ اندر کے یہ دشمن باہر کے مخالف سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اور اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی منصوبہ اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک ان عناصر کی خاطر خواہ نگہداشت نہ کی جائے اور انہیں مکمل طور پر بے اثر اور غیر فعال نہ بنایا جائے۔ لیکن یہ کام کئی وجوہ سے آسان نہیں ہے۔ مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ اقلیت میں ہونے کے باوجود یہ گروہ طاقت کے سرچشموں پر قابض اور متصرف ہے۔ بیوروکریسی میں یہ ہیں، تعلیم و تدریس کے شعبوں میں یہ ہیں، ذرائع ابلاغ عامہ میں یہ ہیں۔ زندگی کے ہر گوشے میں ان کا دامِِ ہم رنگِ زمیں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے گوشت پوست کا حصہ ہونے کی وجہ سے انہیں خود ہماری طرف سے تحفظ اور حمایت کی کمک بھی ہے۔ کہیں دوستی آڑے آتی ہے، کہیں رشتے داری۔ ہر اُس موقع پر جب اِس طبقے کے کسی فرد کے خلاف کوئی عمل ہوتا ہے تو ہم خود یہ شور مچانے لگتے ہیں کہ یہ کیا ظلم ہورہا ہے۔ تب ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ لوگ نظریاتی طور پر ہمارے کتنے دشمن ہیں۔ میں نے مکان کی مثال میں اُن کنبوں کا ذکر کیا تھا جو نئے مکان کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں لیکن پرانے مکان میں رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس سے میری مراد عوام کی اکثریت تھی۔ عوام اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں، لیکن صدیوں سے غیر اسلامی نظام میں رہنے کی وجہ سے ان کی عادتیں بگڑ چکی ہیں، وہ جوش اور جذبے کی حالت میں تو اسلام اسلام کرتے ہیں لیکن ان کی روزمرہ زندگی میں اسلام کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ اسلام کے نعرے لگاسکتے ہیں، اسلام کے لیے لڑجھگڑ سکتے ہیں، وقت پڑے تو جان لینے اور جان دینے پر آمادہ ہوسکتے ہیں، لیکن اسلامی احکام پر عمل نہیں کرسکتے۔ اس کی وجہ سے ان کی پوری زندگی ایک دوعملی کا شکار رہتی ہے۔ وہ رشوت لیتے ہیں، بدعنوانیاں کرتے ہیں، فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں، اور ان کا اسلام انہیں ایک لمحے کے لیے بھی ان اعمال سے باز نہیں رکھتا۔ عوام کی یہ حالت اسلام کی ہر کوشش کو بے اثر بنادیتی ہے۔ اور جو طبقے اسلامی نظام کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے عوام کا حال دیکھ کر مایوس اور متفکر ہوجاتے ہیں۔ صدر جنرل ضیا الحق نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ سات کروڑ انسانوں کے مکانوں پر چھاپے نہیں مارے جاسکتے۔ مراد یہ تھی کہ اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والے عوام اگر خود اسلام پر عمل نہ کریں تو انہیں کس طرح مجبور کیا جاسکتا ہے!
میں نے معاشرتی صورتِ حال کا جو معروضی تجزیہ پیش کیا ہے اُس کی روشنی میں ہمارا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں اسلامی نظام کا نفاذ کس طرح عمل میں آئے گا؟ اے کے بروہی صاحب نے ایک دفعہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہم دنیا کا پاکیزہ ترین معاشرہ قائم کریں گے۔ یہ ارادہ نیک اور یہ نیت برحق ہے۔ خدا ہر ایسا ارادہ رکھنے والے مسلمان کو اجرِ عظیم عطا فرمائے، لیکن ہمارے سوالات اپنی جگہ ہیں اور صرف اس غرض سے کیے گئے ہیں کہ مرض کے علاج سے پہلے مرض کی تشخیص کرلی جائے۔ کیا ہم میں سے کوئی صاحبِ نظر ہے جو انِ سوالوں کا جواب دے سکے… کسی کو قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ خود اپنے قلب کے اطمینان اور عقل کی تسلی کے لیے۔

حصہ