چار دن کی چاندنی

318

لال بال‘ سرخ و سفید چہرہ جس پر ایک مستقل مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور چمک دار آنکھیں۔ سات سالہ یہ بچہ ماموں کے ہمراہ آیا تھا۔ ماموں نے امی ابو سے اکیلے میں کوئی بات کی اور پھر ہم سے کہنے لگے ’’یہ نکولس ہے‘ میرے غیر ملکی دوست کا بیٹا۔ یہ تم لوگوں کے ساتھ ایک ہفتے رہے گا اس کا خیال رکھنا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نکولس کی طرف مڑے ’’نکولس! اب تم ان کے ساتھ رہو گے۔ ٹھیک ہے؟‘‘
وہ مسکرایا ’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’یہ اردو بھی بول سکتا ہے؟‘‘ میں نے حیران ہو کر ماموں سے پوچھا۔
’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ماموں چلے گئے۔ نکولس کے ہاتھ میں ایک عدد سفری بیگ تھا شاید اس میں کپڑے تھے۔
’’ہیلو! آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ نکولس نے مجھ سے پوچھا۔
’’عبداللہ… اور پلیز مجھ سے آپ سے بات مت کرو‘ مجھے اس کی عادت نہیں ہے۔‘‘ میں نے حسب معمول اس سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ نکولس ایک بار پھر مسکرایا۔
’’نکولس! آئو میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھا دوں۔‘‘ امی نے یہ کہہ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’تم عبداللہ کے کمرے میں سو گے۔‘‘
’’میں عبداللہ کے کمرے میں نہیں سو سکتا‘ تم مجھے الگ کمرہ دو۔‘‘ نکولس نے کہا۔ امی کچھ حیران ہوئیں کہ ایک سات سالہ بچہ ان سے تم کہہ کر بات کر رہا ہے‘ پھر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’نکولس امی بڑی ہیں‘ ان سے آپ کہہ کر بات کرو‘ صرف مجھ سے تم کہہ کر بات کرو۔‘‘ میں نے اپنی غلطی کا ازالہ کرنا چاہا۔
’’تم بھی تو بڑے ہو۔‘‘ نکولس نے کہا۔
’’ہاں مگر… ٹھیک ہے سب سے آپ کہہ کر بات کرو۔‘‘ میں نے ہتھیار ڈال دیے۔’’مگر تم نے تو ابھی کہا کہ میں تم سے تم کہہ کر بات کروں۔‘‘ نکولس نے معصومیت سے کہا۔
’’بھول جائو میں نے پہلے جو کچھ کہا۔‘‘ میں نے تنگ آکر کہا۔’’بھول گیا۔‘‘ نکولس نے جواب دیا۔
’’عبداللہ پھر تم عاصم کے ساتھ سو جانا‘ یہ تمہارے کمرے میں سو جائے گا۔‘‘ امی نے کہا پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر اسے میرے کمرے کی طرف لے گئیں۔
…٭…
’’ہم تمہیں نکی کہہ سکتے ہیں؟‘‘ تانیہ نے نکولس سے پوچھا۔
’’مگر میرا نام تو نکولس ہے۔‘‘ اس نے حیرانی سے جواب دیا۔
’’ہاں مگر یہ کافی بڑا نام ہے تو میں نے سوچا نکی ٹھیک رہے گا۔‘‘ تانیہ نے جواب دیا۔’’مگر میں نے تو یہ نہیں سوچا۔‘‘ اس نے معصومیت سے کہا۔
’’میں تو تمہیں نکی ہی کہوں گی۔‘‘ تانیہ نے اب بحث شروع کر دی۔
’’میں سنوں گا ہی نہیں۔‘‘ نکولس نے اطمینان سے کہا۔
’’تانیہ نے غصے سے نکولس کو دیکھا ’’بدتمیز کہیں کہا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگی کہ پیچھے سے نکولس کی آواز آئی ’’بدتمیز یہیں کی۔‘‘
…٭…
میں اور عاصم بھائی جو اس واقعے کے عینی گواہ تھے‘ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ نکولس جتنا معصوم نظر آتا تھا اتنا وہ تھا نہیں۔ نکولس نے ہمیں ہنستے ہوئے دیکھا تو خود بھی ہنسنے لگا۔
’’چلو کرکٹ کھیلیں۔‘‘ عاصم بھائی نے خلافِ توقع کہا۔
’’ٹھیک ہے مگر میں بیٹنگ کروں گا یعنی صرف میں بیٹنگ کروں گا۔‘‘ نکولس نے اطمینان سے کہا۔
’’یہ کوئی بات نہیں ہوئی! بھئی جب تم آئوٹ ہو جائو گے تو پھر عبداللہ بیٹنگ کرے گا اور پھر میں۔‘‘ عاصم بھائی نے کہا۔
’’میں آئوٹ ہوں گا ہی نہیں۔‘‘ نکولس نے اطمینان سے کہا۔
’’کیسے آئوٹ نہیں ہو گے؟ میں عاصم بھائی سے لے کر شاہد آفریدی تک کو آئوٹ کر چکاہوں! تم کوئی آسمان سے اترے ہو؟‘‘ میں غصے میں آچکا تھا۔
’’اگر میں آئوٹ ہو بھی گیا تو بھی نہیں مانوں گا۔‘‘ اس نے میری باتوں کا برا منائے بغیر جواب دیا۔ میں اور عاصم بھائی اسے گھور کر رہ گئے۔
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ عاصم بھائی نے ہار مانتے ہوئے کہا۔
’’مگر…‘‘ میں نے احتجاج کرنا چاہا۔
’’چھوڑو بھی عبداللہ وہ بچہ ہے۔‘‘ عاصم بھائی نے میرے ہاتھ میں گیند پکڑاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں نہیں تو اور کیا؟ اتنے دنوں سے آپ مجھے بچہ سمجھ رہے تھے؟‘‘ نکولس نے بلا اٹھاتے ہوئے کہا۔
شروع کی تین گیندیں تو اس نے سکون سے کھیلیں مگر چوتھے گیند عاصم بھائی کے سر پر لگی‘ پانچویں بلی کو لگی اور چھٹی سے شیشہ ٹوٹا‘ جس کا مطلب تھا کھیل ختم۔
’’عبداللہ اور عاصم! کھیل فوراً ختم کرو۔‘‘ امی اب صحن میں آگئی تھیں۔ ہم تینوں اپنے زخمی اعضا سمیٹتے ہوئے اندر چلے گئے۔
…٭…
’’امی! میری فرسٹ پوزیشن آئی ہے۔‘‘ دانیہ نے کھانا کھاتے کھاتے اچانک کہا۔’’یہ خیال تمہیں کیسے آگیا؟‘‘ ابو نے دانیہ کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اصل میں مجھے ابھی یاد آیا ہے۔‘‘ دانیہ نے شرمندگی سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اور نکولس تمہاری عاصم بھائی اور عبداللہ سے دوستی ہوگئی؟‘‘ ابو نے نکولس سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’بہت افسوس ہوا۔‘‘ نکولس نے جواب دیا۔
’’کس بات پر؟‘‘ ابو نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’بہت افسوس ہوا۔‘‘ نکولس نے ایک بار پھر کہا۔
’’وہ تو ٹھیک ہے مگر…‘‘ ابو نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
’’بہت افسوس ہوا…‘‘ نکولس نے ابو کی بات کاٹ کر کہا۔
’’مجھے بھی ہوا۔‘‘ تانیہ نے ہنس کر کہا۔
’’اور مجھے بھی۔‘‘ عاصم بھائی نے ہاتھ اٹھایا۔
’’میں نے تو پیدا ہونے کے ساتھ ہی افسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ میں نے بھی پیچھے رہنا مناسب نہ سمجھا۔
’’مگر تم سب کو کس بات کا افسوس ہے؟ امی نے بالآخر پوچھا۔
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ نکولس نے پھر کہا۔
’’اس کی کیسٹ پھنس گئی۔‘‘ عاصم بھائی نے میرے کان میں کہا۔
’’میرے خیال سے اسے افسوس ہے کہ اس نے عاصم بھائی اور عبداللہ سے دوستی کر لی۔‘‘ تانیہ نے ہمیں چڑاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ نکولس بڑبڑایا۔
’’میں تمہارے افسوس میں برابر کا شڑیک ہوں۔‘‘ میں نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
’’مجھے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’عبداللہ! نکولس کو اس کے کمرے لے جائو۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ نکولس نے کہا۔ میںنے اس کا ہاتھ پکڑا کر اس کو کھڑا کیا۔
’’ہاں ہاں… ہم سب کو افسوس ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
…٭…
’’عبداللہ نکولس کو ڈرائنگ روم میں لے کر جائو۔‘‘ امی نے اگلے دن مجھ سے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ماموں کے وہ دوست جن کے ساتھ نکولس آیا تھا‘ آئے ہیں۔‘‘ امی نے جواب دیا۔ ’’ویسے میں نے تمہارے ماموں کو بتا دیا تھا کہ کل سے یہ عجیب و غریب باتیں کر رہا تھا۔‘‘
’’اور ماموں نے کیا کہا؟‘‘ میں نے نکولس کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔
’’ماموں اندر ہی ہیں‘ خود پوچھ لو۔‘‘ یہ کہہ کر امی چائے بنانے چلی گئیں۔ میں نکولس کو جب ماموں کے دوست کے پاس لے کر گیا تو اس وقت وہ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے۔’’میں نے تم سے کیا کہا تھا؟ یہ ایک ہفتے بھی نہیں چل پائے گا۔ میں صحیح تھا‘ صرف تین دن اس نے ٹھیک گزارے ہیں۔‘‘ ماموں کہہ رہے تھے۔ پھر مجھے اور نکولس کو آتا دیکھ کر کہنے لگے ’’یہ ہے عبداللہ اور یہ تمہارا نکولس۔‘‘ ماموں کے دوست اپنی نشست پر سے اٹھے‘ نکولس کی شرٹ اتاری اور پھر میں دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’یہ… یہ… یہ روبوٹ ہے؟‘‘ میں نے بے یقین کی کیفیت میں کہا۔
’’ہاں! میرے دوست مائیکل کا خیال تھا کہ اس کا بنایا گیا یہ روبوٹ عام بچوں جیسی حرکتیں کر سکے گا‘ پانچ سال کی مسلسل محنت کے بعد بھی مائیکل اپنے اس منصوبے میں ناکام ہو گیا۔ ویسے مائیکل اس میں خرابی کیا ہوئی ہے؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔
’’دو تار جل گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے نکولس کے جسم کے اندر موجود تاروں کی چھان بین کرتے ہوئے کہا۔’’میری بات مانو مائیکل! تو تم خود بھی سمجھ جائو اور اپنے دوستوں کو بھی سمجھا دو کہ انسانی ذہن اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ ماموں نے کہا۔’’عبداللہ تم بتائو‘ یہ عام بچوں کی طرح ہنس کھیل اور بول رہا تھا۔‘‘ مائیکل نے اب مجھ سے پوچھا۔
’’مجھے تو پتا بھی نہیں چلا کہ یہ روبوٹ ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’پانچ سال کی محبت کے بعد تم ایک ایسی چیز بنانے میں کامیاب ہوئے جو صرف تین دن چل پائی اور پھر اپنے عمل کی وجہ سے اپنے دو تار جلا بیٹھی۔‘‘ ماموں نے کہا۔
تھوڑی دیر اور باتیں کرنے کے بعد ماموں اور ان کے دوست رخصت ہو گئے اور نکولس کو انہوں نے میرے پاس ہی چھوڑ دیا۔ مائیکل کا کہنا تھا اب وہ ایک نیا روبوٹ نئے سرے سے بنائے گا مگر کیا آج تک انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی چیز اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کا مقابلہ کر پائی ہے؟
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ میرے عقب سے آواز آئی۔
’’ہاں شاید مجھے بھی۔‘‘ میں نے نکولس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘ نکولس نے پھر کہا۔
’’چپ رہو۔‘‘ میں غرایا۔
nn

حصہ