تحریر و ترتیب: غزالہ عزیز، فائزہ مشتاق
ادب اور آرٹس کی دنیا میں بہت سے نام جو جگمگائے اُن کو ابتدائی طور پر تراشنے میں ریڈیو پاکستان کا ہی کردار رہا۔ لہٰذا بہت سے مایہ ناز اداکار، ڈراما نویس اپنی کامیابیوں کا سہرا ریڈیو پاکستان کے سر باندھتے نظر آتے ہیں۔ سیما رضا داد کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ سیما رضا داد ریڈیو پروڈیوسر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ بے شمار ریڈیو پروگراموں کی میزبانی کرچکی ہیں۔ آج کل لائیو پروگرام ’’باتوںکی پیالی میں یادوں کی چائے،، کامیابی سے نشر ہورہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیما رضا داد ڈراما نویس، افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو پر ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی نشر کیے جا چکے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں ایوارڈ اور اسناد سے بھی نوازا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ان سے گفتگو کی گئی جو قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: آپ اپنے خاندان اور بچپن کے بارے میں بتایئے، ریڈیو سے اپنے سفر کے بارے میں بھی ہمارے قارئین کو بتایئے۔
سیما رضا داد: میرا نام سیما رضا ہے اور میرے والد رضا حسین تھے اور والدہ کنیز بانو۔ میرے والد کا تعلق بھوپال جبل پور سے تھا اور میری والدہ بھی جبل پور سے تعلق رکھتی تھیں۔ میرے ابو نے زندگی بھر بہت محنت کی ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے اس زمانے میں بجلی نہیں ہوتی تھی، وہ گلیوں میں لگی روشنی کی مدد سے پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے محنت سے پڑھا اور پاکستان نیوی میں ملازمت اختیار کی۔ انہیں مطالعے کا شوق بھی تھا، بے تحاشا کتابیں پڑھیں۔ ان کو ہندی، فارسی، انگریزی اور اردو پر عبور تھا۔ وہ بہت اچھے مصور بھی تھے۔ ہمارے گھر میں جو کتابیں رکھی ہوتیں، ابو ان کو میری عمر کے پیش نظر ہاتھ نہیں لگانے دیتے تھے۔ میری امی بالکل معصوم، سیدھی سادی خاتون تھیں۔ پڑھی لکھی بالکل نہیں تھیں، لیکن مجھے آج بھی حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس کے باوجود ٹی وی کے ٹکرز پڑھ لیتی تھیں۔ ان کو سب سمجھ تھی کہ میری بیٹیوں کو کتنا آگے جانا ہے۔ مجھے بینک لے کر گئیں، میرا اکائونٹ کھلوایا۔ میری ماں مجھ سے بہت متاثر تھیں۔ مجھے وہ اتنی سی عمر میں بہت پڑھا لکھا سمجھتی تھیں، کیوں کہ میرے والد مجھے بہت سراہتے تھے۔ انہوں نے مجھے زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھایا… جیسے تقریری مقابلوں میں حصہ لینا۔ اس حوالے سے بہت کامیاب رہی۔ بہت سے مقابلوں میں حصہ لیا، بہت سی ٹرافیاں لیں، گولڈ میڈلسٹ رہی۔ پھر یہ دونوں شخصیات دنیا سے چلی گئیں اور اس کے بعد ریڈیو پر اتفاق سے آنا ہوا۔ اس سے پہلے میں خواتین ڈائجسٹ سے منسلک تھی۔ پھر ریڈیو پر آگئی۔ ’’جمع تفریق‘‘ پروگرام کیا۔ پھر مجھے کملی عباسی صاحب نے کہا کہ ہیڈ کوارٹر میں پروڈیوسر کی کمی ہوگئی ہے، اگر میں آپ کو کروا دوں تو آجائیں گی؟ میں نے ہامی بھر لی۔ پھر میں نے ’’بچوں کی دنیا‘‘ سے تجربہ کرکے دیکھا تو مجھے بڑا اچھا لگا، سیکھنے کو ملا۔ ریڈیو میں اچھا وقت گزرا۔ بہت سارے کام کیے۔ ریڈیو پر کام کرنے کے لیے بڑے شعبے ہیں، آپ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ زندگی میں ایسے لوگوں سے میری ملاقات رہی ہے جن سے ملنے کے لوگ خواہش مند ہوتے ہیں۔ سو اس معاملے میں خود کو بہت داد دیتی ہوں کہ سیما رضا تم نے تو بڑا کام کیا کہ ایسے نایاب لوگوں سے تمہاری ملاقات ہوئی۔
جسارت میگزین: آج آپ جس مقام پر ہیں وہاں پہنچنے کے لیے کیا جدوجہد کی؟ کن مسائل کا سامنا رہا اور ان کو کیسے حل کیا؟
سیما رضا داد: آج میں جس مقام پر ہوں، صرف اور صرف برسوں کی مسلسل محنت اور جدوجہد کی وجہ سے ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ آپ جتنی محنت کریں گے، اتنے ہی کامیاب رہیں گے۔
جسارت میگزین: آپ نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کیسے کیا؟
سیما رضا داد: قلمی سفر کا آغاز تو ہوگیا تھا۔ چھوٹی موٹی کہانیاں، تقریریں اور نظمیں لکھا کرتی تھی، لیکن شاعری کی طرف میں اس انداز سے نہیں آئی جیسے کہ دوسری اصناف میں دل چسپی رہی۔ ہاں نظمیں لکھنے کے لیے میں نے یہ سہارا لیا کہ پہلے ریڈیو پاکستان میں بزم طلبہ کیا کرتی تھی، اس کے لیے کمپیئرنگ لکھنا ہوتی تھی، پھر جب میں نے ڈائجسٹ جوائن کیا تو صحیح معنوں میں افسانہ لکھنا سیکھا۔ میرا پہلا افسانہ ’’اک عمر کے بعد‘‘ چھپا ،اور اس کے بعد میرا قلم کھل گیا۔ پہلے میرے اندر طوالت پسندی بہت تھی، بہت طویل افسانے لکھا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ میں نے بہت مختصر لکھنا شروع کردیا۔ یوں اس طرح میرے قلم کا آغازہوا اور آہستہ آہستہ آگے نکلتی چلی گئی۔ ناول، ناولٹ بھی لکھے۔ ایک ناول ’’عشق ابن السبیل‘‘ کتابی شکل میں آچکا ہے اور دوسرا براڈ کاسٹنگ پر ہے۔ دعا ہے کہ اس میں بھی مجھے کامیابی حاصل ہو۔
جسارت میگزین: ڈائجسٹ میں لکھنے والوں کو کیا مشورہ دیں گی؟
سیما رضا داد: ڈائجسٹ میں لکھنے والوں کے لیے کیا مشورہ دوں! یہ مشورہ تو میں خود اپنے آپ کو دوں گی، کیوں کہ میں آج بھی ڈائجسٹ میں لکھ رہی ہوں۔ مشورہ بس یہ ہے کہ کہانی مضبوط ہونی چاہیے۔ آج کل لوگوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ پاپولر فکشن ہے، اس میں جو ماحول بتایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی بہت ہوتی ہے۔ کوشش کریں کہ مبالغے سے کم کم لیں اورکہانی کو صحیح معنوں میں لکھیں۔
جسارت میگزین: آج کے ادب کے بارے میں کیا تبصرہ کریں گی؟ آج جو کہانی لکھی جارہی ہے آپ اس سے مطمئن ہیں؟
سیما رضا داد: ادب تو ہمیشہ سے ہی اہم ہے۔ سوشل میڈیا کتنا بھی پنپ جائے اور طاقتور ہو جائے، ادب پھر بھی لکھا جا رہا ہے۔ اگر آپ زیادہ فیس بک پر رہتی ہیں، سوشل میڈیا پر رہتی ہیں تو دیکھا ہوگا کہ عالمی منظرنامہ ہو یا عالمی افسانہ… وہاں پر دنیا بھر کا ادب لکھا جارہا ہے۔ میں خود بھی اس میں رہتی ہوں۔ اتنے افسانے اور کہانیاں ہوتی ہیں کہ ان پر کھلے تبصرے ہوتے ہیں۔ تو میں تو بہت پُرامید ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کیا سمجھتی ہیں کہ اردو کی ترویج قوم کے لیے کیسے نتائج کا سبب بنے گی؟
سیما رضا داد: میں سمجھتی ہوں کہ اردو کی ترویج پر آج بھی کام ہورہا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تلفظ خراب ہورہا ہے اور کچھ بنیادی مسائل ہیں جن کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر استعمال کی جانے والی زبان اور الفاظ بھی مسائل کا سبب بن رہے ہیں، پھر رومن اور ہندی اردو کے ساتھ استعمال ہورہی ہے۔ ہمیں انفرادی طور پر خود کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو اگر برقی پیغام دینا ہو تو اردو میں ہی دیتی ہوں۔ ہمارے اپنے گھر کی تربیت بہت اہم ہے۔ والدین اگر بچوں کو صحیح خطوط پر پروان چڑھائیں تو ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ اردو کی ترویج پر کام نہیں ہورہا۔ آج بھی دنیا بھر میں افسانے لکھے جا رہے ہیں، سستی کتابیں چھپ رہی ہیں، پڑھنے والے موجود ہیں۔
جسارت میگزین: ٹی وی اور ریڈیو کے لیے ڈراما نویسی بھی کی؟
سیما رضا داد: میں نے مختلف پلیٹ فارمز پر ڈراما نویسی بھی کی۔ ناظرین کی جانب سے پسند کیا جانے والا ڈراما ’’زندگی گلزار ہے‘‘ میں مشاورت کی۔ ڈراما سیریل ’’کدورت‘‘ کو میں نے مکمل کیا۔ چائلڈ لیبر کے حوالے سے اسپیشل ڈراما ’’پچاس ہزار‘‘ پی ٹی وی کے لیے لکھا۔ اس کے علاوہ رنگ ٹی وی پر میں نے ’’رمضان اور خواتین‘‘ کی سیریز کی، اس کے لیے اسکرپٹ رائٹنگ کی، خواتین کے انٹرویوز کیے۔ کیو ٹی وی کے لیے بھی اصحابِ بدر کے نام سے سیریز کی۔ ریڈیو پاکستان کے لیے بھی ایک ناول کی ڈرامائی تشکیل کی جو ایف ایم 107 سے نشر ہوا اور مقبول ہوا۔ میں نے بہت سے مختلف کام کیے، اب یاد بھی نہیں۔ متعدد اسکرپٹ لکھے، وائس اوور کیں۔
جسارت میگزین: ڈراما معاشرے کا عکس ہے، تفریح ہے یا تربیت کا ذریعہ؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ آج کا ڈراما خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکتا ہے؟
سیما رضا داد: شاید کچھ تلخ لگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کا ڈراما معاشرے کا عکس ہے۔ جتنی بھی برائی ہورہی ہے وہی تو دکھایا جارہا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیںکہ تربیت کا پہلو نہیں ہے۔ تربیت سے عاری ڈرامے دکھائے جارہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے دور میں اور بھی بھیانک ڈرامے آئیں گے۔ جھوٹ کو سچ کی طرح پیش کیا جارہا ہے۔ آپ ٹاک شوز دیکھ لیں، اخلاقیات سے عاری ہیں۔ ادب بالکل نکل گیا ہے۔ ریٹنگ کی خواہش مند لابی بس یہ چاہتی ہے کہ کہانی میں چونکا دینے والا موڑ لے آئیں۔ ایسے میں رائٹرز کیا کریں؟ ٹیلی ویژن چاہے لائونج میں ہو یا بیڈ روم میں، ڈراما دیکھا جارہا ہے اور دیکھا جائے گا۔ دیکھیں، کہانیاں جیسی بھی آئیں چاہے وہ فلم کا چربہ ہی ہوں، خیالی نہیں ہیں، البتہ اب تربیت کہیں نظر نہیں آتی۔
جسارت میگزین: میزبان، پروڈیوسر، مصنفہ… کس شعبے میں سب سے زیادہ انجوائے کیا؟ کچھ نہ کرنے کا افسوس ہے؟
سیما رضا داد: تمام شعبوں میں اچھا تجربہ رہا، مگر مجھے لکھنے میں مزا آتا ہے۔ لکھے بغیر کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کافی ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔ ہاں مجھے بہت کچھ نہ کرنے کا افسوس ہے۔ اپنے والد کی طرح مصوری کا شوق تھا، مگر نہ کرسکی۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ افسوس زندگی میں رہنا چاہیے، تب ہی ہم اللہ کی قریب رہ سکتے ہیں۔ اللہ بتاتا ہے کہ چیزوں کا ہونا یا نہ ہونا اسی کے بس میں ہے۔
جسارت میگزین: سیما رضا کو لوگ کیسے جانتے ہیں؟ اپنی کون سی عادت کو بدلنا چاہیں گی؟
سیما رضا داد: مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی کبھی سخت ہوجاتی ہوں، سمجھوتا نہیں کرتی۔ یہ تب ہوتا ہے جب کوئی میرے خلوص کو غلط رنگ دے، پھر راتوں کو نیند نہیں آتی۔ آپ کو بتائوں میرے اندر مروت بہت زیادہ ہے، اور اس کا مجھے نقصان ہوا۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو آپ کے پاس ہے، جو آپ کو معلوم ہے وہ بتادینا چاہیے، سمجھا دینا چاہیے۔ اس کا مجھے بڑا نقصان ہوتا رہا ہے، لیکن میں باز نہیں آتی۔
جسارت میگزین: زندگی آپ کے نزدیک کیا ہے؟
سیما رضا داد: مختصر الفاظ میں زندگی صرف اور صرف بندگی ہے۔ زندگی اگر آزمائش دے رہی ہے تب بھی صرف بندگی ہے۔
جسارت میگزین: آپ اپنے دن کی ابتدا کیسے کرتی ہیں، یعنی دن بھر کی مصروفیات کیا ہیں؟
سیما رضا داد: میرے دن کی ابتدا اس پاک ذات کے نام سے ہوتی ہے چاہے حالات اچھے ہوں یا برے، وہی تو ہے جو صحت مندی کے ساتھ رکھتا ہے، نیا سورج دیکھنا عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان چلی جاتی ہوں، آج کل میرا وہاں ایک لائیو پروگرام نشر ہورہا ہے ’’باتوں کی پیالی میں یادوں کی چائے‘‘۔ اس میں ایسی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے جنہوں نے ساری زندگی بھرپور جدوجہد کی اور مقام حاصل کیا۔ ایسی شخصیات سے باتوںکا سلسلہ ہے۔ ریڈیو کے بعد عموماً گھر ہوتا ہے اور میں ہوتی ہوں۔
جسارت میگزین: خوشی اور غمی/اداسی کے واقعات بتائیں، آپ کا ردعمل کیسا تھا؟
سیما رضا داد: اداسی کا واقعہ پہلے سنا دیتی ہوں جو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ میرے ابو کوما میں چلے گئے تھے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو گھر لے آئے تھے، لیکن امید کی کرن تو ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ میرے ابو ہماری سالگرہ والے دن شکرانے کے نفل ادا کیا کرتے اور درازیِ عمر اور صحت کی دعا مانگا کرتے۔ یہ میرے ابو کا ہر سال کا معمول تھا۔ جب میرے ابو کوما میں بے خبر لیٹے ہوئے تھے، آکسیجن لگی ہوئی تھی، میں اپنی سالگرہ والے دن ابو کے پاس گئی، ان کی پیشانی پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ ابو آپ مجھے ہمیشہ پیار کرتے تھے، آج میری سالگرہ ہے اور آپ نے مبارک باد بھی نہیں دی۔ اس کے بعد میں بوجھل دل کے ساتھ ایف ایم 101 کا شو کرنے چلی گئی، شو ابھی کررہی تھی کہ ابو کے انتقال کی اطلاع مل گئی۔ تو اب سالگرہ کا دن میرے لیے وہ اہمیت نہیں رکھتا جو اس سے پہلے رکھتا تھا۔ میرے لیے یہ بہت دکھ اور اداسی کا دن ہے۔ خوشی کے واقعات کی طرف آتی ہوں۔ اللہ کی نوازشیں تو ہوتی رہتی ہیں مگر کچھ سال، کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی رحمتیں ہر لمحے برستی ہیں۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا نوازا۔ میں نے منشیات کے حوالے سے ڈاکیومنٹری بنائی تھی جس پر ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے پر مجھے ایوارڈ ملا۔ اس کے ساتھ کیش ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ میری امی جو دماغی طور پر دنیا سے پیچھے چلی گئی تھیں، میں ان کو لے کر گئی تھی، وہ بہت خوش تھیں۔ میرے لیے وہ یادگار لمحہ تھا۔ میری زندگی میں جو خوشیاں آئیں وہ والدین کے دم سے تھیں، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
جسارت میگزین: پسندیدہ کتاب، مصنف، شاعر، لباس، کھانے، لوگ اور مشاغل؟
سیما رضا داد: ابتدا میں تو چھوٹی کہانیاں، افسانے، ناولٹ سب پڑھا، پھر آہستہ آہستہ خودگزشت اور سرگزشت میں دل چسپی پیدا ہوگئی۔ میں نے ممتاز مفتی کو بہت پڑھا، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، مستنصر حسین تارڑ کی بہت تحاریر پڑھیں، مگر مجھے جس کتاب نے متاثرکیا وہ تھی ’’شہاب نامہ‘‘ جو قدرت اللہ شہاب صاحب کی کتاب ہے۔ ان کی شخصیت بھی سامنے آئی۔ وہ بہت بڑے بیوروکریٹ تھے لیکن کتاب میں انہوں نے ملکی حالات لکھے، سیاسی مبصرین کا ذکر کیا۔ وہ تمام واقعات لکھے جو ان کے ساتھ پیش آئے۔ آخر میں ان کی درویشی نظر آئی۔ تو اس کتاب میں مجھے حالاتِ حاضرہ، کرنٹ افیئر، زندگی کے واقعات اور درویش صفتی نظر آئی۔ آخری صفحات نے تو مجھے بالکل گرویدہ کردیا۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس کے علاوہ ان کے افسانے ’’ماں جی‘‘ نے گرفت میں لیے رکھا۔ شاعری کی جہاں تک بات ہے، میں چونکہ بیت بازی میں حصہ لیتی رہی تو تقریباً تمام شاعروں کو پڑھا، لیکن جو دل کے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے وہ اقبال عظیم کی کتاب ’’لب کشا‘‘ ہے جو بے حد پسند ہے۔ وہ نابینا شاعر تھے مگر کمال کے نعتیہ شعر کہتے تھے، ان کا یہ نعتیہ شعر
سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں، لیکن آقاؐ کا منصب جدا ہے
وہ امامِ صفِ انبیاء ہیں، ان کا رتبہ بڑوں سے بڑا ہے
اس کے علاوہ بھی خوبصورت نعتیہ اشعار ان کے یہاں ہیں۔ پھر جب میں غزل کی بات کرتی ہوں تو آپ نے بڑا خوب صورت شعر سنا ہوگا:
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہچلے گے تو پھسل جائو گے
لباس کے حوالے سے میںکہتی ہوںکہ بے شک آپ زمانے کے حساب سے چلیں مگر لباس ایسا ہو کہ لوگ آپ پر انگلی نہ اٹھا سکیں۔ میرا مطلب ہے کہ لباس آپ کا ڈھکا چھپا ہو۔ مجھے کرتا شلوار، لمبی شرٹس اور چوڑی دار پاجامہ، اوپر سے دوپٹہ بہت پسند ہے۔
جسارت میگزین: مائوں کو بچوں کی بہترین تربیت کے لیے آپ کیا مشورہ دیں گی؟
سیما رضا داد: میرے خیال میں مائوں کو بچوں کو یہ تربیت ضرور دینی چاہیے کہ وہ صحیح اور غلط کے مابین فرق جان سکیں۔ دیکھیں اس طرح سب کچھ ہوسکتا ہے، کیوں کہ تربیت مائوں کے ہاتھ میں ہے، سوال تو والدین سے ہوگا کہ انہوں نے بچوں کی تربیت میںکیا کردار ادا کیا؟ اگر ان کی گھٹی میں ہی تربیت کا اچھا عنصر ڈالا جائے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے نوجوان عمدہ اخلاق اور کردار کو اپنائیں گے، اور پاکستان کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے وقت کا بہت شکریہ۔