لکڑ ہارے کی ایمانداری

1656

کسی گاؤں میں ایک لکڑہارا اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر فروخت کرتا تھا جس دن اسے خشک لکڑیاں مل جاتیں تو وہ انھیں بیچتا اور کچھ اشیائے خورونوش خرید لیتا۔ بڑی مشکلوں سے اس کے اخراجات پورے ہوتے۔ لکڑہارے کی بیوی غربت سے تنگ آ چکی تھی اور آئے دن ان کا آپس میں لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا۔ جس دن لکڑہارے کو جنگل سے خشک لکڑیاں نہ ملتیں تو اسے بیوی بچوں سمیت بھوکے سونا پڑتا تھا۔
ایک دن جنگل میں جاتے ہوئے اُسے ایک گھر نظر آیا۔ وہ دبے پاؤں اُس گھر میں چلا گیا۔ گھر بہت خوب صورت تھا ہر چیز صاف و شفاف تھی۔ اتنا صاف ستھرا گھر اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جب اس نے گھر میں نظر دوڑائی تو اسے گھر میں کوئی انسان نظر نہ آیا۔ لکڑہارا سوچنے لگا کہ اگر گھر میں کوئی رہتا نہیں ہے تو یہ گھر اتنا صاف ستھرا کیسے ہے۔ خیر وہ ایک لمبی سانس بھر کے میز پر جاکر بیٹھ گیا اور اپنی بیوی کی باتوں کو سوچ کر پریشان ہونے لگا کہ اگر آج بھی گھر جاتے ہوئے کچھ لے کر نہ گیا تو بہت جھگڑا ہوگا۔ اسی دوران کسی نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا لیکن وہ اپنی پریشانیوں میں گم سم سامنے کی دیوار کو بے خیالی میں گھور رہا تھا اور اندر ہی اندر اپنی حالتِ زار پر رو رہا تھا۔ اچانک اسے اپنے عقب سے آواز آئی‘ وہ خوف زدہ ہوگیا‘ اس کے جسم سے پسینہ چھوٹنے لگا اور کپکپی طاری ہوگئی۔ لکڑہارے نے جب پیچھے مڑ کے دیکھا تو اسے ایک پر اسرار شکل نظر آئی۔
ایسی عجیب وغریب شکل جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ وہ نہ تو انسان لگتا تھا نا گدھا ، اس کا اوپر کا دھڑ گدھے کا اور نچلا دھڑ انسانوں جیسا لیکن وہ انسانی آواز میں بولا گھبراؤ نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا تم سے پہلے بھی یہاں لوگ آتے رہے اور مجھے دیکھتے ہی بھاگتے رہے لیکن تمہیں تو میرے آنے کا پتا ہی نہیں چلا ورنہ دوسروں کی طرح بھاگ کھڑے ہوتے۔ اب اس نے لکڑہارے سے دریافت کیا کہ وہ کیوں پریشان ہے؟
لکڑہارے نے روہانسی آواز میں اپنی غریبی کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے حالات کے بارے میں بتایا۔ وہ پراسرار مجسم سب کچھ سننے کے بعد بولا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں اور تمہاری غربت کے خاتمے کو یقینی بنا سکتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کے تم راز کو راز رکھو گے۔
لکڑہارا یہ سنتے ہی چونک گیا اور فوراً بول اٹھا میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں۔ یہ سن کر اس پر اسرار مجسم نے کہا کہ میں تمہیں ایک درخت کے بارے میں بتاتا ہوں جس کے پتوں میں انسانوں کے لیے علاج و شفا ہے، تم اس کے پتوں سے لوگوں کا علاج کرنا اور جائز منافع کماتے رہنا، لوگوں کو شفا ملتی رہے گی اور تمہاری غربت کا خاتمہ بھی ہو جائے گا لیکن تمہیں مجھ سے یہ عہد کرنا ہوگا کہ تم علاج کا بہت کم معاوضہ لیا کرو گے اور غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا تو مفت علاج کرو گے۔ لکڑہارے نے اس بات کا عہد کر لیا۔
لکڑہارے کے عہد و پیماں کے بعد اس پر اسرار مجسم نے اس درخت کی شناخت کروائی اور فوراً غائب ہوگیا۔ لکڑہارا کچھ غیر یقینی اور تذبذب کی کیفیت میں اس درخت کے پتے اکٹھے کرنے لگا اور اس کے ساتھ بتائی ہوئی دیگر جڑی بوٹیاں جمع کر کے گھر کی طرف پلٹا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کے پاس کھانے پینے کی اشیا نہیں تھیں اُسے خالی ہاتھ دیکھ کر اس کی بیوی اس پر برسنا شروع ہو گئی اور حسب معمول کوسنے دینے لگی۔ لکڑہارے نے جڑی بوٹیاں ایک طرف رکھیں اور چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس کی بیوی پوچھنے لگی کہ یہ کیسی جڑی بوٹیاں اٹھا لائے ہو اور ان کا کیا کرو گے۔
لکڑہارا بیوی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے جڑی بوٹیوں کو کھرل میں ڈال کر کوٹنا شروع ہو گیا۔  دوسرے دن صبح سویرے وہ دوائیں لے کر بازار کی طرف چلا گیا اور آوازیں لگانے لگا کہ ہر قسم کے مرض کی دوا موجود ہے، ہر نئے پرانے مرض کا شرطیہ علاج ہے، اپنا مرض بتائیں مجھ سے دوا لیں اور شفا یاب ہوجائیں۔
لوگ اس کی آوازیں سن کر ہنسنے لگے اور اس کا مذاق اڑانے لگے لیکن لکڑہارا بدستور اپنی آوازیں نکالتا رہا جسے سن کر ایک عورت روتی ہوئی اپنی بیٹی سمیت اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اس کی بیٹی پیٹ درد کی وجہ سے مرے جا رہی ہے اور اس کا درد کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوا۔
لکڑہارے نے اس بوڑھی خاتون سے کہا کہ میری دوا اپنی بیٹی کو کھلاؤ وہ صحت یاب ہو جائے گی۔ بوڑھی عورت نے کہا اس کا علاج تو بڑے بڑے حکیم بھی کرنے سے قاصر رہے تمہاری دوا کیا خاک کام کرے گا لیکن لکڑہارے نے بڑے پُر اعتماد انداز سے اس بچی کو پانی کے ساتھ دوا کھلا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے بچی کا درد غائب ہوگیا۔ یہ دیکھ کر وہ  بوڑھی عورت بہت خوش اور حیران ہوئی۔ یہ سارا ماجرا دیکھنے کچھ لوگ بھی اکٹھے ہوگئے تھے جس دیکھ کرسب حیران ہوئے۔ بڑھیا نے لکڑہارے سے دوا کی قیمت پوچھی تو لکڑہارے نے کہا صرف تین روپے۔
بڑھیا اور باقی تمام لوگوں کو اس دوا کی اتنی کم قیمت پر تعجب ہوا‘ بڑھیا نے شکریہ کے ساتھ تین روپے ادا کردیے۔ لوگوں میں اس کا چرچا عام ہو گیا، جوق در جوق مریض آتے اور سستا علاج کرواتے۔ لکڑ ہارا روزانہ وقت نکال کر جنگل جاتا اور حسب ضرورت اسی درخت کے پتے اور دیگر جڑی بوٹیاں لاتا اور گھر میں پیس کر دوا تیار کرنے کے بعد مریضوں کا علاج کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لکڑہارا امیر ہونے لگا اور اب تو وہ غریبوں کی امداد بھی کرنے لگا تھا۔
ایک روز ایک خوبرو جوان لکڑہارے کے پاس دوا لینے آیا، لکڑ ہارے نے حسب معمول بہت کم قیمت پر اسے دوا دی تو وہ آدمی بہت خوش ہوا اور پوچھنے لگا کہ کیا تم نے مجھے پہچانا؟ لکڑہارا اسے تجسس سے دیکھنے لگا لیکن اسے پہچان نہیں پایا اور کہنے لگا نہیں میں نہیں جانتا آپ کون ہو۔ اس آدمی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں وہی آدمی ہوں جس نے تمہیں اس درخت سے متعارف کروایا تھا جس کی تم آج دوا بنا کر بیچتے ہو۔
لکڑہارا حیران تھا کہ اس کی تو عجیب و غریب ڈراؤنی اور پراسرار شکل تھی اور آج عام انسان جیسا خوب صورت جوان کیسے بن گیا۔ لکڑہارے نے دریافت کیا کہ پہلی ملاقات میں آپ کی شکل ڈراؤنی کیوں تھی؟ وہ آدمی ہنسنے لگا اور بتایا کہ میں دراصل ہیون نگر کا شہزادہ ہوں۔ اس نے آگے بتایا کہ وہ اور اس کا بھائی گیند سے کھیل رہے تھے کہ ان کی گیند جھاڑیوں میں چلی گئی‘ جب وہ گیند لینے گیا تو وہاں ایک بزرگ بیٹھے نظر آئے جو اپنی عبادت میں مصرف تھے۔ دراصل ہماری گیند غلطی سے ان کو جا لگی تھی جس سے ان کی عبادت میں خلل آیا تھا۔ میں تو بچہ تھا اور بہت شرارتی بھی تھا گیند لینے گیا تو ان بزگوں کی ناگواری پہ میں بد تمیزی سے پیش آیا اور ساتھ ہی انھیں ٹھوکر بھی مار دی جس کی وجہ سے بزرگ نے مجھے بد دعا دی اور میری شکل بگڑ گئی۔
شکل بگڑنے کے بعد میں انتہائی پریشانی کے عالم میں ان سے معافی طلب کرنے لگا لیکن بزرگ انسان نے ایک شرط رکھی کہ اس کا حل تب ہی ممکن ہے کہ تم اچھائی بانٹتے رہو اور مخلوق تم سے خائف نہ ہو اور کوئی ایسا اچھا کام کرو جس سے مخلوق مستفید ہو۔ مجھے اس درخت کے بارے اپنے اجداد کی تحقیقی مواد سے معلوم ہوا تھا کہ اس میں ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔ کوئی انسان میرے قریب ہی نہیں ٹھہرتا تھا کہ میں یہ اچھا کام کر کے اپنی سزا کا مداوا کر سکوں۔ جو بھی مجھے دیکھتا ڈر کے بھاگ کھڑا ہوتا۔ میں نے اس سزا کی قید میں برسوں گزار دیے تب جا کر تم سے میری ملاقات ہوئی اور یوں تمہاری ایمان داری کی وجہ سے اس بد دعا کا اثر ختم ہوا اور دوبارہ میری انسانی شکل بحال ہوئی۔ اب مجھے اجازت دو۔
وہ یہ کہہ کر رخصت ہوگیا۔ لکڑہارا اپنی ایمان داری کی وجہ سے امیر سے امیر تر ہوتا گیا اور لوگوں کا بہت قلیل پیسوں میں علاج کرتا رہا اور عیش و عشرت اس کے پاؤں چومنے لگی۔
nn

حصہ