ڈاکٹر سلمان ثروت کا شعری مجموعہ ’’میں استعاروں میں جی رہا ہوں‘‘ شائع ہوگیا

818

ڈاکٹر سلمان ثروت کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے‘ ان کے والد ثروت حسین معروف شاعر تھے‘ اس طرح شاعری ان کی میراث ہے‘ راقم الحروف نثار احمد نثار سے ان کی ملاقات آزاد خیال ادبی فورم کے مشاعرے میں ہوئی جس کے روح رواں سرور جاوید تھے‘ میں سلمان کے کلام سے بہت متاثرہوں‘ میری ذاتی رائے میں سلمان ثروت کراچی کے نوجوان شعرا میں ایک معتبر نام ہے۔ انہوں نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ’’میں استعاروں میں جی رہا ہوں‘‘ عنایت کیا جس کے لیے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس مجموعے کا مطالعہ کیا تو مجھے ایسا لگا جیسے یہ مجموعہ عام مجموعوں ے ہٹ کر ہے اس کتاب میں انہوں نے بہ عنوان’’حواشی‘‘ اپنے اہم دوستوں کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے کہ ہر ایک کے بارے میں ایک یا دو لائنوں میں بہترین معلومات فراہم کی ہیں۔ ان کا یہ اندازِ تحریر قابل ستائش بھی ہے اور اس میں نیا پن بھی ہے۔ یہ شعری مجموعہ 2020ء میں شائع ہونے والی Poetry Books میں شامل ہے اس کتاب کے 253 صفحات ہیں جس میں 213 صفحات اردو کے لیے ہیں اور 41 صفحات پر انگریزی میں LIving withMetaphorz کی ہیڈنگ کے تحت Trams lation of selectd poems ہے جس کو انیس الرحمن نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے ایک فلیپ پر حسن آفتاب نے انگریزی میں تبصرہ کیا ہے جب کہ دوسری جانب کے فلیپ پر افتخار عارف کہتے ہیں کہ سلمان ثروت کا شعری مجموعہ تعطل اور جمود کی فضا میں خوش گوار بشارت کی خبر دیتا ہے‘ ان کی نظمیں اور غزلیں سب سے پہلے تو ایک ایسی تازہ کار لذتِ شعر کی طرف متوجہ کرتی ہیں جہاں لفظوں کا استعمال ان کی ترکیب‘ ان کے اندر ایک ایسا آہنگ پیدا کر دیتی ہے جو نئے شاعروں میں بڑی حد تک مفقود ہو کر رہ گیاہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھانے میں منہمک رہے تو بہت جلد شاعری میں ایک خوش گوار اضافہ ہوگا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ضیا الحسن نے لکھا ہے کہ سلمان ثروت ایک ایسے نفیس اور وضع دار انسان ہیں کہ جن سے مل کر ایک گہرے تعلق کا احساس ہوتا ہے‘ ان کی نظموں میں دور حاضر کے نظام کے انسانی وجود پر اثرات نظر آتے ہیں کہ انسان غیر ضروری اشیا کے حصول کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے اپنے اپنے خوابوں سے دست کش ہو چکا ہے۔ سلمان نے زندگی کے مسائل کو استعاروں کی شکل دی ہے اور بتایا ہے کہ اس زمانے کی زبوں حالی اور معاشرتی و سیاسی خرابیاں ہمیں تباہ کر رہی ہیں اس مجموعے میں غزلیات بھی شامل ہیں جو کہ اپنی رنگا رنگی اور متنوع مضامین کے باعث ہر دل عزیز ہیں۔ سرور جاوید نے سلمان ثروت کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی کچھ غزلیں بھی کمال کی ہیں مگر سلمان کی نظم زیادہ قابل توجہ ہے اگر سلمان اچھی نظموں کا خالق نہ ہوتا تو میں اس کا حامی نہیں ہوتا‘ ان کے یہاں جمالیاتی پہلو بھی ہے اور اظہار کی خوب صورتی بھی۔ ان کی نظموں میں طوالت کے باوجود خیال کے تسلسل اور نظم کی وحدت پر اثر نہیں پڑتا۔ انہوں نے مشکل پسندی اپنائی ہے اور وہ روز مرہ کے موضوعات پر نظر میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے نثری نظم کا تجربہ بھی کیا ہے ان کی غزلوں میں رومان کے بجائے حقیقت اور ذہنی فکر کی عکاسی ہے۔ انہوں نے مختلف مزاج کی غزلیں کہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی شاعری تخلیق دائرہ مکمل کرتی نظر آتی ہے ان کی زیادہ تر غزلیں مترنم بحروں میں ہیں۔ راقم الحروف نثار احمد نے بھی سلمان کے اشعار پڑھے ہیں میری ناقص رائے میں انہوں نے اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کے ساتھ ساتھ انسانی روّیوں پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کی نظمیں ان کی غزلوں پر حاوی ہیں۔ یہ نظم کے بڑے شاعر ہیں۔ انہیں لفظون کی نشست و برخواست پر دسترس حاصل ہیں ان کے شعری مجموعے کے عنوانات میں کیتھارسس‘ خلانورد‘ پیراڈوکس‘ دائمی اداسی‘ ٹرانس‘ روحِ عصر‘ خرد زاویے‘ کلیشے‘ ایک جال شامل ہیں انہی مضامین کے تحت انہوں نے 33 نظمیں اور 45 غزلیں اس کتاب میں شامل کی ہیں۔ بلاشبہ یہ مجموعہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔

مستعد گروپ آف پبلی کیشنز اور بزم اردو پاکستان کا مشاعرہ

کراچی پریس کلب کے کانفرنس ہال میں 7 بنومبر 2020ء کو مستعد گروپ آف پبلی کیشنز اور بزم ارد پاکستان کے اشتراک سے بہ سلسلۂ عید میلادالنبیؐ اور اتحادِ حسنؓ و معاویہؓ مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ رونق حیات مہمان خصوصی تھے۔ مہمانان اعزازی میں علاء الدین خانزادہ اور جمیل ادیب سید شامل تھے۔ راشد نور نے نظامت کے فرائص انجام دیے اور مشاعرے کی غرض و غایت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حسن اور معاویہ اتحاد نے مسلمانوں کو قتل و خون سے روکا یہ معاہدہ تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوا اور مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں مزید کامیابیاں حاصل کیں۔ اس پروگرام میں علیم مجیب رحمانی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ واجد انصاری نے نعت رسولؐ پیش کی۔ ہدایت اللہ نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے پروگرام میں نعت نبیٔ کے ساتھ ساتھ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے اتحاد کو بھی موضوع بنایا گیا ہے کہ فی زمانہ بین المسلمین کے عملی مظاہرہ کی ضرورت ہے‘ ہمیں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتا دیا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے۔ قرآن کریم میں ذکر ہے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو‘ ایک لاکھ صحابہ کرامؓ نے اس پر عمل کیا اور دنیا پر چھا گئے‘ ہم اپنی کوتاہیوں کے سبب پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اگر ہم عرب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حسنؓ و معاویہؓ معاہدے نے مسلمانوںکو یک جان کیا‘ ہمیں اس معاہدے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دینِ اسلام کی ترقی کے لیے اپنے اختلاف ختم کرکے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ میزبانِ مشاعرہ عارف ہاشمی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام شعرا و سامعین کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ وہ ہمارے مشاعرے میں تشریف لائے‘ ہم ہر سال 21 ربیع الاوّل کو اسی عنوان کی تحت مشاعرہ کریں گے‘ آپ ابھی سے یہ پروگرام نوٹ فرما لیں۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحابہ کرامؓ نے اتحاد المسلمین پر زور دیا ہے حسنؓ اور معاویہؓ کے اتحاد نے یک جہتی کی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پروگرام شعیہ و سنی اتحاد کا مظہر ہے۔ مہمان خصوصی نے کہا کہ وہ اپنی زندگی میں حسنؓ اور معاویہؓ معاہدے پر پہلا مشاعرہ پڑھ رہے ہیں یہ ایک مشکل کام ہے جو آج کے منتظمین نے سرانجام دیا۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ طاہر سلطانی‘ آسی سلطانی‘ سعد الدین سعد‘ تاج علی رانا‘ عزیز الدین خاکی‘ سید نہال اور اظہر حسین نے اپنا کلام پیش کیا۔ تمام شعرا شیلڈ پیش کی گئیں عشائیہ کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔

غزل

سلمان ثروت

یہ زندگی ادا ہوئی طوافِ ماہ و سال میں
کہ ہر عمل قضا ہوا خیال ہی خیال میں
تفادتِ جنوں خرد کے مسئلے کا حل‘ کہاں
ہم ہی الجھ کے رہ گئے دماغ و دل کی دال میں
مکاں سے لا مکاں ہوئے‘ زماں سے لا زماں ہوئے
کہیں کے بھی نہ رہ سکے پڑے جو ‘ احتمال میں
رکیں تو کس لیے رکیں‘ چلیں تو کس لیے چلیں
مراقبہ بلا جواز‘ کیا ملا دھمال میں
مروجہ اصول کو‘ الٹ پلٹ کے دیکھ لیں
سوال ہے جواب میں‘ جواب ہے سوال میں
سماج کیا‘ نظام کیا‘ ضمیر کیا‘ دلیل کیا
سمجھ میں آ گیا مگر الجھ گیا ہوں جال میں
نہ جانے کیسی جستجو‘ حواس پر سوار تھی
ہمیں اُڑا کے لے گئی جہانِ صد و بال میں

پاسبانِ دبستان کا نعتیہ مشاعرہ

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی نسبت سے پاسبانِ دبستان کراچی کے بانی الحاج نجمی نے اقبال حسین رضوی کی قیام گاہ پر ایک نعتیہ مشاعرے کا انعقاد کیا جس کی صدارت آصف رضا رضوی نے کی۔ فیاض علی فیاض مہمان خصوصی تھے۔ مہمانان اعزازی میں احمد سعید خان اور ضیا حیدر رضوی شامل تھے جب کہ محمد رفیق مغل اور واحد رازی مہمانان توقیری تھے۔ الحاج نجمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ بروقت شروع ہونے والے اس مشاعرے میں شعرائے کرام نے سیرت مصطفیؐ، قرآن فہمی اور اللہ کی حاکمیت کے حوالے سے بھی اشعار پیش کیے۔ مشاعرے کے سامعین میں اقبال حسن رضوی‘ محمد احمد قادری‘ شیخ محمد شہزاد کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اس موقع پر آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ احمد سعید خان‘ ضیا حیدر زیدی‘ رفیق مغل ایڈووکیٹ‘ واحد رازی اور الحاج نجمی نے کلام پیش کیا۔ الحاج نجمی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ نعت رسولؐ کی برکت سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے‘ جو لوگ نعت کی محفل میں شریک ہوتے ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں جشنِ ولادتِ رسول ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے‘ اس دن پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے‘ چراغاں ہوتا ہے‘ عمارتوںکو سجایا جاتا ہے‘ جلسے ہوتے ہیں اور جلوس کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمؐ کا ذکر بلند کیا ہے یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا۔ الحاج نجمی نے اس موقع پر حکومت فرانس کی مذمت کی کہ اس نے گستاخانہ مواد شائع کیے اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے‘ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اسلامی وقار کے لیے تمام اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں۔

غزل

پروفیسر جاذب قریشی

مجھ میں لکھے ہوئے سب عکس مٹا دیتا ہے
تیرا چہرہ مجھے آئنہ بنا دیتا ہے
کس کی آواز نے دریا کو سفر میں رکھا
کون پیاسا ہے جو صحرا میں صدا دیتا ہے
میں اُسی زندہ قبیلے کا نمائندہ ہوں
جو اجالوںکے لیے خودکو جلا دیتا ہے
کون ہے وہ جو سیہ رات کے سناٹے میں
میرے دروازے پر اک شمع جلا دیتا ہے
میری تہذیب کا باشندہ نہیں ہے وہ شخص
جو درختوں سے پرندوں کو اُڑا دیتا ہے
جس کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہ رکھے میں نے
وہ مرے جسم کوخوشبو کی قبا دیتا ہے
دھوپ اور چھائوں کے پیوند لگے ہیں مجھ میں
زخم دیتا ہے کوئی‘ کوئی دُعا دیتا ہے

حصہ