-6غنائم جنگ اور اموال مفتوح کی تقسیم
اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیںاور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو۔
’’جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس رسولؐ اس کی رشتے داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔‘‘ (سورہ الانفال۔41)۔
اللہ اور رسولؐ کے حصہ سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسول کے تحت حکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسول کے رشتے داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہ تھا۔ اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
قوم کے یتیم بچے تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔
مساکین جن میں بیوہ عورتیں‘ اپاہج‘ معذور اور بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر: اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت‘ سیاحت‘ تعلیم اور مطالعہ و مشاہدۂ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کردیں۔
جنگ کے نتیجے میں جو اراضی اور اموال اسلامی حکمت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضے میں رکھا جائے۔
’’ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستیوں کے باشندوں سے فے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اور رسول کے رشتے داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ یہ مال صرف تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھر بار اور جائدادوں سے بے دخل کردیے گئے ہیں اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے مدینہ میں ایمان لے آئے تھے اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں۔‘‘(الحش : 10)۔
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموالِ فَے کو صرف کیا جائے گا بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے جس کو اسلام نے نہ صرف اموالِ فَے کی تقسیم میں‘ بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیشِ نظر رکھا ہے یعنی ’’مال تمہارے مال داروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے۔‘‘ یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کر دیا ہے‘ اسلامی معاشیات کا سنگِ بنیاد ہے۔
-7 اقتصاد کا حکم
ایک طرف اسلام نے دولت کو تمام افرادِ قوم میں گردش دینے اور مال داروں کے مال میں ناداروں کو حصہ دار بنانے کا انتظام کیا ہے‘ دوسری طرف وہ ہر شخص کو اپنے خرچ میں اقتصاد اور کفایت شعاری ملحوظ رکھنے کا حکم دیتا ہے تاکہ افراد اپنے معاشی و مسائل سے کام لینے میں افراط یا تفریط کی روش اختیار کرکے ثروت کے توازن کو نہ بگاڑ دیں۔ قرآن مجید کی جامع تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ ’’ نہ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھے رکھ (کہ کھلے ہی نہیں) اور نہ اس کو بالکل ہی کھول دے کہ بعد میں حسرت زدہ بن کر بیٹھا رہ جائے۔‘‘(بنی اسرائیل: 29)۔
’’اللہ کے نیک بندے وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل برتتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل رہتے ہیں۔‘‘ (الفرقان: 67)۔
اس تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ ہر شخص جو کچھ خرچ کرے اپنے معاشی وسائل کی حد میںرہ کر کرے۔ نہ اس قدر حد سے تجاوز کر جائے کہ اس کا خرچ اس کی آمدنی سے بڑھ جائے‘ یہاں تک کہ وہ اپنی فضول خرچیوں کے لیے ایک ایک کے آگے ہاتھ پھیلاتا پھرے‘ دوسروں کی کمائی پر ڈاکے مارے‘ حقیقی ضرورت کے بغیر لوگوں سے قرض لے اور پھر یا تو ان کو قرض مار کھائے یا قرضوں کا بھگتان بھگتنے میں اپنے تمام معاشی وسائل کو صرف کرکے اپنے آپ کو خود اپنے کیے کرتوتوں سے فقر و مساکین کے زمرہ میں شامل کر دے۔ نہ ایسا بخیل بن جائے کہ اس کے معاشی وسائل جس قدر خرچ کرنے کی اس کو اجازت دیتے ہوں اتنا بھی نہ خرچ کرے۔ پھر اپنی حد کے اندر رہ کر خرچ کرنے کے بھی یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ اگر اچھی آمدنی رکھتا ہے تو اپنی ساری کمائی صرف اپنی عیش و آرام اور تزک و احتشام پر صرف کر دے‘ درآن حالیکہ اس کی عزیز‘ قریب دوست‘ ہمسائے مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ اس قسم کے خود غرضانہ خرچ کو بھی اسلام فضول خرچی ہی شمار کرتا ہے۔
’’اور اپنے رشتے داروں کو اس حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔ فضول خرچی نہ کر۔ فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نا شکرا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل : 27)۔
اسلام نے اس باب میں صرف اخلاقی تعلیم ہی دینے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس نے بخل اور فضول خرچی کی انتہائی صورتوںکو روکنے کے لیے قوانین بھی بنائے ہیں اور ایسے تمام طریقوں کا سدباب کرنے کی کوشش کی ہے جو تقسیم ثروت کے توازن کو بگاڑنے والے ہیں۔ وہ جوئے کو حرام قرار دیتا ہے‘ شراب اور زنا سے روکتا ہی‘ لہو و لعب کی بہت سی مُسرفانہ عادتوں کو جن کا لازمی نتیجہ ضیاعِ وقت اور ضیاعِ مال ہے‘ ممنوع قرار دیتا ہے‘ موسیقی کے فطری ذوق کو اس حد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے جہاں انسان کا انہماک دوسری اخلاقی و روحانی خرابیاں پیدا کرنے کے ساتھ معاشی زندگی میں بھی بدنظمی پیدا کرنے کا موجب ہو سکتا ہے اور فی الواقع ہو جاتا ہے۔ جمالیات کے طبعی رجحان کو بھی وہ حدود کا پابند بناتا ہے۔ قیمتی ملبوسات‘ زرد جواہر کے زیورات‘ سونے چاندی کے ظروف اور تصاویر اور مجسموں کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احکام مروی ہیں ان سب میں دوسرے مصالح کے ساتھ ایک بڑی مصلحت یہ بھی پیش نظر ہے کہ جو دولت تمہارے بہت سے غریب بھائیوں کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرسکتی ہے‘ ان کو زندگی کے ایحتاج فراہم کرکے دے سکتی ہے‘ اسے محض اپنے جسم اور اپنے گھر کی تزئین و آرائش کر دینا جمالیت نہیں‘ شقاوت اور بد ترین خود غرضی ہے۔ غرض اخلاقی تعلیم اور قانونی احکام دونوں طریقوں سے اسلام نے انسان کو جس قسم کی زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی ہے وہ ایسی سادہ زندگی ہے کہ اس میں انسان کی ضروریات اور خواہشات کا دائرہ اتنا وسیع ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ ایک اوسط درجہ کی آمدنی میں گزر بسر نہ کر سکتا ہو اور اسے اپنے دائرہ سے پائوں نکال کر دوسرے کی کمائیوں میں حصہ لڑانے کی ضرورت پیش آئے یا اگر وہ اوسط سے زیادہ آمدنی رکھتا ہو تو اپنے تمام مال خود اپنی ذات پر خرچ کر دے اور اپنے اُن بھائیوں کی مدد نہ کر سکے جو اوسط سے کم آمدنی رکھتے ہوں۔
ایک سوال
یہ ایک مرقع ہے جس کیں اسلام کے پورے معاشی نظام کو آپ کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔ اب اس تصویر کو دیکھیے اور بار بار دیکھیے اور بتایئے کہ اس میں آپ سود کو کس جگہ کھپا سکتے ہیں؟ اس کی روح کو دیکھیے‘ اس کی ساخت کو دیکھیے‘ اس کے اجزاء اور ان کے باہمی ربط و تعلق کو دیکھیے‘ اس کی ساخت کو دیکھیے‘ اس کے اجزاء اور ان کے باہمی ربط و تعلق کو دیکھیے‘ اس میں جو معنی اور مقصد پوشیدہ ہے اس کو دیکھیے‘ اس میں کہاں سودی لین دین کی گنجائش یا ضرورت ہے؟ کہاں نظامِ سرمایہ داری کے اداروں میں سے کسی ادارے کو رکھنے کی جگہ یا اس کی حاجت ہے؟ اگر جواب نفی میںہے اور یقینا نفی میں ہونا چاہیے‘ تو اس کے بعد دوبارہ ایک غائر نظر اس تصویر پر ڈالیے اور بتایئے کہ اس میں اخلاقی‘ تمدنی اور معاشی نقطۂ نظر سے کہاں آپ کو نقص نظر آتا ہے؟ اخلاق اور تمدن کے بلند تر مصالح کو آپ چھوڑنا چاہتے ہیں تو چھوڑیے‘ اگر معیشت ہی انسانی زندگی میں ایک ہم چیز ہے تو خالص معاشی حیثیت ہی سے دیکھ لیجیے‘ کیا اس نظمِ معیشت کے اصول و فروغ میں کوئی خرابی ہے؟ کیا اس میں دلائل اور شواہد کی قوت سے کوئی ایسی ترمیم پیش کی جاسکتی ہے جس کے بغیر یہ نظم بجائے خود ناقص ہو؟ اس سے بہتر کوئی دوسرا نظم معیشت تجویز کیا جاسکتا ہے جس میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق او مفادات کا اس سے زیادہ صحیح توازن قائم کیا گیا ہو اور انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کو یکساں رعایت اس سے زیادہ بہتر طریقے سے ملحوظ رکھی گئی ہو؟ اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا اور ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں ہوسکتا اور ہم یقین ساتھ کہتے ہیں کہ ہرگز نہیں ہوسکتا تو کیا عقل و دانش کا یہی تقاضا ہے کہ آپ اوّل تو اپنی کمزوری سے بہترین نظم معیشت کو چھوڑ کر دنیا کے سب سے بدتر‘ سب سے زیادہ غلط اور بہ اعتبار نتائج سب سے زیادہ تباہ کن نظم معیشت کی پیروی کریں اور پھر اس پر نادم بھی نہ ہوں۔ اپنے ضمیر پر گناہ کا بار بھی نہ رہنے دیں اور اس گناہ کو صواب‘ اس فسق وعصیان کو طاعت قرار دینے کے لیے آیات و احادیث نبویؐ میں باطل تاویلیں کریں اور اس شیطانی نظم معیشت کے فاسد ارکان کو لے کر اسلام کے پاک اور مطہر نظام معاشی میں پیوست کرنے کی کوشش کریں بلالحاظ اس کے کہ اسلام کے اصول اور اس کی روح اور اس کے مزاج سے ان چیزوں کو کتنی ہی شدید نامناسبت ہو؟ پہلے تو آپ حکیم کے بتائے ہوئے نسخے کو پھینک دیتے ہیں‘ اس کی تدبیر حفط صحت سے اعراض و انکار کرتے ہیںا ورجو پرہیز اس نے تجویز کیا ہے اس پر عمل نہیں کرتے‘ پھر جب مرض بڑھتا ہے اور موت سامنے نظر آتی ہے تو اسی حکیم سے کہتے ہیں کہ جس اتائی نسخوں نے مجھے بیمار ڈالا ہے اسی کا نسخہ تو مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ دے۔ جن بدپرہیزیوں نے مجھے جاں بلب کیا ہے انہی کی اجازت سے دے‘ جس چیز کو تو نے زہر بتایا تھا اسی کو کہہ دے کہ یہ تریاق ہے۔ آخر اس بوالعجبی کی کوئی انتہا بھی ہے؟‘‘
(جاری ہے)