سوشل میڈیا پر بہت سیاسی، سماجی موضوعات ہوگئے بلکہ ہوتے ہی رہیں گے۔ امریکی صدارتی انتخابات کا تو حق بنتا ہی تھا، فرانس، فرانسیسی صدر، فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی خوب شور مچتارہا، ربیع الاوّل کی سرگرمیاں اور ساتھ ہی ناموس رسالت ؐ والا ایشو بھی گرم رہا، گلگت انتخابات، پی ڈی ایم، سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، ایاز صادق، بھارت ، عارض فاطمہ سمیت سب کچھ چلتا رہا۔ اس میں مجھے فرانس میں مقیم 18 سالہ چیچن نژاد شہید عبد اللہ ابویزیدوچ بالکل ہی غائب نظر آیا، جس نے فرانسیسی اُستاد پیٹی کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ پیٹی نے دوران تدریس نبی کریم ؐ کے خاکے دکھائے تھے، بات وہیں سے بڑھی اور میکرون کے اندر بسے ہوئے اسلام و مسلمانوں کے خلاف بغض کو مزید ہوا ملی۔ اُس چیچن مسلمان بھائی کو فرانسیسی پولیس نے شہید کر ہی دیا تھا اس کے باوجود اس کی زیادہ معلومات گوگل بھی نہ دے سکا۔ یہ ضرور ہوا کہ نیو یارک ٹائمز میں ایک دل چسپ مضمون میں اس بات کو زیر بحث لایا گیا کہ ’’کیا فرانس کا زبردست سیکولر نظام تعلیم ایسے بچے نکال رہا ہے؟‘‘ بہرحال ہم آج سیاسی موضوعات کے بجائے کچھ سائیڈ کی بات کرنے جا رہے ہیں جیسا کہ ٹائٹل سے ظاہر ہے ۔کہنے کو تو سائیڈ ہے مگر حقیقت جانیں تو ہے یہی سب سے اہم موضوع، وہ ہے انسانی زندگی جس پر بار بار بات ہونی چاہیے۔سوشل میڈیا جس تیزی سے سرائیت کر رہا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ انسانی زندگی کے تحفظ‘ بہتر صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے لیے مثبت ابلاغی مواد کو ضرور اہمیت ملنی چاہیے۔ مسئلہ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مفت میں ملی اِس انسانی زندگی کی قدر و قیمت کو بحیثیت مجموعی انسان ہی نہیں سمجھ پا رہے۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ انسانوں کی اموات کی وجوہات کی فہرست بنائیں تو اب یوں بن سکتی ہے کہ بیماری، ٹریفک حادثہ، دشمن سے جنگ، قتل، بم دھماکہ، طویل عمر، ٹک ٹاک بناتے ہوئے۔جی ،نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ہم ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے بھی یہ قیمتی زندگی گنوا بیٹھتے ہیں ان واقعات کی صرف اس سال کی تفصیل نکالی جائے تو ایسا ہی کچھ نتیجہ ہوگا۔بہرحال اچھی صحت کااچھی انسانی زندگی سے گہرا بہت گہرا تعلق ہے۔ صحت اچھی ہے تو سب اچھا ہے وگرنہ ایک دانت کا درد بھی ہو تو بڑی سے بڑی خوشی کی تقریب غارت کر دیتا ہے ۔ اقوام متحدہ کا قائم کردہ ذیلی ادارہ عالمی ادارہ صحت کے پیچھے میں نہیں جانتا کہ کیا خفیہ و سازشی مقاصد ہوں گے مگر انسانوں کو زیادہ سے زیادہ صحت مند رکھنے ، اُنہیں بیماریوں سے بچانے ، ہر قسم کی آگہی دینے میں یہ ادارہ بہر حال کام کر رہا ہے ۔کوئی چھ بڑی عالمی زبانوں میں قائم انتہائی فعال ویب سائٹ ڈونیشن سے لے کر ابلاغی مواد، مشورے ، تجاویز ، تکنیکی گائڈنس، نیوز روم، نئی تحقیقات سمیت بہت سارا مواد رکھتی ہے۔ ہر اہم بیماری پر سال میںکم از کم ایک ’عالمی دن‘ عوام تک آگہی پہنچانے کے نام کر رکھا ہے۔ اہم ترین مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہر ہر موقع پر عوام کو متعلقہ بیماری سے بچنے کا پیغام ، ٹول ٹپس، آگہی ، ہدایات وغیرہ دی جاتی ہیں ۔اب دنیا بھرکی سرگرمیوں کی ذیلی تفصیل تو مجھے نہیں پتہ مگر کم از کم پاکستان میں جو میں نے دیکھا وہ یہ ہے کہ ایسے ایام کی تقاریب کو اُنہی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویہ کی ادویہ ساز کمپنی ہی اسپانسر کر رہی ہوتی ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک چکر ہو جس میں ایسا ہی ہوتا ہو، مگر بہر حال آگہی کے لیے جو باتیں بتائی جاتی ہیں وہ درست ہی ہوتی ہیں ۔کورونا کی وبا گو کہ ختم نہیں ہوئی ، دوسری لہر کا شور مستقل مچا ہوا ہے البتہ پاکستان کی حد تک یہ سب کو سمجھ آگیا ہے کہ اس کا مقابلہ مکمل لاک ڈاؤن کیے بغیر بہر حال ممکن ہے اور ساتھ ہی علاج و ٹیسٹ کی سہولیات بھی بدرجہ اتم پاکستان میں دستیاب ہیں ۔
پچھلے ہفتہ عالمی یوم فالج 29اکتوبر کو دنیا بھر میں منایا گیا، اسکے منانے میں یہ ہوا کہ کچھ جگہ پریس کانفرنس ہوئیں، کچھ جگہ طبی کیمپ وغیرہ لگے باقی کورونا کے حفاظتی اقدامات کے مطابق آن لائن سرگرمیاں ہوئیں۔فالج اس وقت انتہائی خطرناک تیزی سے پھیلتی بیماری ہے جو کہ معذوری کے ساتھ شرح اموات بھی بڑھا رہی ہے ۔صرف پاکستان میں 400لوگ روزانہ اس بیماری سے مر رہے ہیں ۔اس ضمن میں مجھے پاکستان اسٹروک سوسائٹی اورا ٓغا خان ہسپتال کے اشتراک سے اس موضوع پر منعقدہ ایک بین لاقوامی ویبینار میں شرکت کا موقع ملا۔سوشل میڈیا پر بھی کچھ جگہ اس پر بات ہوئی مگر اتنی نہیں ہو سکی۔ اس دن پاکستان میں تو فرانس کے بائیکاٹ، ربیع الاول، اسلامو فوبیا، ڈی جی آئی ایس پی آر،ایاز صادق چل رہاتھا۔شعبہ نیورولوجی آغاخان ہسپتال کی سیکشن ہیڈ ڈاکٹر سارا خان اور پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے صدر بولان میڈیکل یونیورسٹی کے سینئر استاد و ڈاکٹر سلیم باری نے سیمینارکی صدارت کی۔ سیمینار میں پاکستان سمیت 5 ممالک سے ماہرین دماغ واعصاب نے فالج پرجدیدعلاج و تحقیق پیش کیں۔ویبینار کے مقررین پاکستان، متحدہ عرب امارات، مصر، کینیڈا و امریکہ سے شامل ہوئے۔
پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے سیکریٹری ڈاکٹر روی شنکر نے موضوع کی شدت پر بات کرتے ہوئے کہاکہ دنیا بھر میں 15ملین لوگ ہر سال فالج کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے 6ملین مر تے اور 5فیصد معذور ہو جاتے ہیں۔50سال کی عمر کے ساتھ اگر بلڈ پریشر اور شوگربڑھا رہے، یاموٹاپے کا شکار افراد فالج کے آسان شکار ہیں۔ امریکہ سے ڈاکٹر فرحان صدیقی نے فالج کی دواقسام پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ فالج کا علاج جتنا جلدی ہو گا اسی قدر اس کے نقصانات کم ہونے کا امکان ہے۔مریض ایک سیکنڈ میں تقریباً ۲ ملین نیورون ضائع کرتا ہے، علاج کے بغیر گزرنے والا1 گھنٹہ مریض کواتنا نقصان پہنچاتا ہے جو عام حالت میں 3.5سال میں ضائع ہونے والے نیورون جتنا ہے۔آغا خان ہسپتال کے نیورولوجسٹ ڈاکٹر محمد واسع نے پاکستان میں فالج کے بوجھ اور اسکی وجوہات پر اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول، تمباکو نوشی کے بعد فضائی آلودگی بھی فالج کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی اہم وجہ بن کر سامنے آئی ہے۔ فالج اس وقت دُنیا میں دوسری بڑی جان لیوا بیماری کے طور پرسامنے آئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً ساڑھے تین لاکھ لوگ اس بیماری کا شکار ہیں یعنی تقریباً ایک ہزار افراد روزانہ پاکستان میں فالج کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان ایک ہزار افراد میں سے تقریباً 400افراد روزانہ فالج کی وجہ سے مر جاتے ہیں،تحقیق کے مطابق اسکے مریضوں کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے ۔البرٹا کینیڈا سے ڈاکٹر اشفاق صہیب نے فالج کی جدید تشخیص کی حکمت عملی پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ فالج صرف بڑھاپے میں نہیں بلکہ کسی بھی عمر کے فرد کو ہو سکتا ہے۔ فشار خون بڑھنے سے اس مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔فالج کی علامات میں شدید سر درد، سر چکرانا، بینائی میں تبدیلی یا دھندلاہٹ، بولنے میں مشکلات، جسم میں سننسی کی لہر دوڑنا وغیرہ شامل ہیں، تاہم چلتے چلتے اچانک گرجانا یا گردن میں درد بھی اس کی نشانی ہوسکتے ہیں۔جس طرح دل کا دورہ پڑتا ہے اور دل کی جانب جانے والے خون کی رکاوٹ سے دل کا دورہ پڑتا ہے اُسی طرح دماغ جو انسانی جسم کے تمام حصوں کو کنٹرول کرتا ہے اُس کی جانب خون کے بہنے یا پہنچنے میں رکاوٹ آجائے تو دماغ کا وہ حصہ کام نہیں کرپاتا اور نتیجتاًوہ حصہ جسم کے جس حصہ کو کنٹرول کر رہا ہووہ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ۔اس لیے اگر ہم اپنے جسم کے اندر خون کی نالیوں میں تنگی نہ آنے دیں تو اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے ۔ ان سے بچنے کے لیے کولیسٹرول، تمباکو نوشی، بلڈ پریشر، شوگر ، فضائی آلودگی، موٹاپے سے بچنا ہوگا۔
کوہاٹ سے ڈاکٹر اختر شیرین نے خیبر پختونخوا میں آبادی پر مشتمل فالج کی بڑھتی شرح پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 1لاکھ میں 1200مریضوں کا ہونا تشویش ناک ہے۔ فالج ایک انتہائی خطرناک مرض ہے جو صرف جسم کے کسی حصے کو مفلوج نہیں کرتا بلکہ موت کا بھی سبب بن سکتا ہے۔ فالج دماغ کو خون پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہونے پر ہوتا ہے۔ اگر دماغ کو خون پہنچنا بند ہو جائے یا رکاوٹ پیدا ہو تو دماغ کے خلیے مرنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے فالج کا حملہ ہوتا ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔پاکستان میں اس وقت فالج کا سب سے موثر و فوری علاج کی سہولت بدقسمتی سے موجود نہیں، ۔ٹی پی اے کا انجیکشن ہے جو چند نجی ہسپتالوں کے سوا کہیں نہیں جو فالج کے مریض کو ابتدائی 4-5گھنٹوںمیں اگر دے دیا جائے تو مریض کی جلد ریکوری کے امکان بہت زیادہ ہیں۔اس حوالے سے اگر حکومت نے اقدامات نہیں کیے تو مریضوںاور ساتھ ہی معذوروں کی تعداد بڑھ کر مسائل ہی پیدا کرے گی۔مصر سے ڈاکٹر فواد عبد اللہ نے ترقی پزیر ممالک میں فالج کی نگہداشت اور نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فالج کے مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا کر ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے اس کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ انکے مطابق سب سے اہم آگہی ہے اوریہی واحد حل ہے کہ ہم اس مرض کو بڑھنے وپھیلنے سے روک سکیں۔مصر کے چار صوبوں میں فالج آگہی کا جائزہ لیا گیا تو اندازہ ہوا کہ عوام کو بہت کم آگہی ہے۔
ڈاکٹر عبد المالک ، ڈاکٹر بشیر سومرو کے علاوہ متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹر ماریہ خان نے فالج کے لیے ادویات کے حوالے سے اور اس دوران ایسٹیرائڈ کی غیر افادیت پربات کرتے ہوئے مختلف تحقیق پیش کیں جن میں مریض کاخون پتلا کرنے اور اس سے متعلق ادویات کی خوراک و اثرات و احتیاطیں بتائیں۔پاکستان اسٹروک سوسائٹی کی صدر بولان میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹر انجم فاروق نے فالج کے مریضوں کی نگہداشت کے یونٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹروک یونٹ کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔فالج کے مریضوں کی نگہداشت خود ایک اہم معاملہ ہے کیونکہ پورا گھر اس میں شامل ہوتا ہے ۔مریض کی ابتدائی نگہداشت بہت ضروری ہوتی ہے وگرنہ ڈپریشن اُس پر طاری ہو جائے تو مزید مسائل بڑھتے ہیں۔ایسے کئی مریضوںکی کامیاب ہسٹری ہے جس میں اُن کے گھر والوں، بر وقت علاج اور ڈپریشن سے بچنے کے نتیجے میں وہ بہت جلد ریکور ہوگئے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک ٹوئیٹ میں یہی احساس دلایا گیا ہے۔
This is how you can prevent stroke:
٭Quit smoking
٭Limit alcohol consumption
٭Control high bloodpressure &high cholesterol
٭Manage diabetes
٭Watch your waist and weight
٭Eat healthy
٭Exercise regularly 30 minutes a day