نظر انداز قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا قابل ستائش ہے‘ پروفیسر سحرانصاری

836

نیاز مندان کراچی اور یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کے زیر اہتمام وقار زیدی اور طاہرہ سلیم سوز کے اعزاز میں ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا جس کے دوسرے دور میں مشاعرہ بھی ہوا۔ کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں منعقدہ اس تقریب میں پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے یہ کراچی کی ایک بے حد فعال تنظیم بن چکی ہے‘ یہ تنظیم نظر انداز قلم کاروں کو سامنے لا رہی ہے۔ آج کی تقریب وقار زیدی اور طاہرہ سلیم سوز کے اعزاز میں سجائی گئی ہے‘ دونوں قلم کار شعر و سخن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وقار زیدی میرے شاگردوں میں شامل ہیں اور یہ بڑی مستعدی سے اپنا ادبی سفر طے کر رہے ہیں جب کہ طاہرہ سلیم سوز نسائی ادب میں اپنا نام پیدا کر رہی ہیں۔ اس موقع پر تنویر سخن نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور سعد الدین سعد نے نعت رسولؐ پیش کی۔ سلمیٰ خانم اور ناصر رضوان ایڈووکیٹ نے کلمات تشکر پیش کیے۔ دونوںقلم کاروں کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرنے والوں میں تنویر سخن‘ پروفیسر فرزانہ خان‘ ڈاکٹر نزہت عباسی شامل تھے۔ رونق حیات اس محفل کے میزبان تھے جنہوں نے کہا کہ وقار زیدی ایک معروف شاعر ہیں اور فیس بک میں بھی مشہور ہیں‘ وہ اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر مشاعروں میں بہت کم شرکت کرتے ہیں ان کے کئی اشعار زبانِ خاص و عام ہیں آج ان کی فیملی بھی ہماری تقریب میں شریک ہے‘ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہماری آج کی ادبی محبت بھری شام کی دوسری صاحب اعزاز طاہرہ سلیم سوز ہیں جو کہ وکالت کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کر رہی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’چاند میرا صنم‘‘ 2017ء میں شائع ہوا تھا یہ کراچی کی مختلف ادبی تنظیموں کے عہدیداروں میں شامل ہیں ان کے شوہر بھی علم دوست شخصیت ہیں ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اج جو لوگ ہماری آواز پر یہاں موجود ہیں ہم ان کے بھی شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ستائش باہمی کی بنیادوںپر لوگوں کی پروموشن ہو رہی ہے اصل قلم کاروں کی حق تلفی ہو رہی ہے ہم نے نظر انداز قلم کاروں کے مسائل پر کئی پروگرام کیے ہیں‘ ہم نے متعلقہ حکومتی اداروں سے مذاکرات کیے ہیں تاکہ قلم کاروں کے مسائل حل ہوں۔ ہم اکادمی ادبیات پاکستان سے اس فنڈ کا حساب بھی چاہتے ہیں جو گورنمنٹ نے قلم کاروں کی مالی اعانت اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے مختص کیا تھا۔ ہماری خواہش ہے کہ اردو ہر سرکاری ادارے کی زبان بن جائے‘ اردو کے نفاذ میں جو لوگ آڑہے آرہے ہیں ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی سعید الظفر صدیقی تھے جنہوں نے راقم الحروف سے فون پر کہا کہ نیاز مندان کراچی کا یہ پروگرام بھی قابل تعریف تھا۔ تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس کی نظامت حنیف عابد نے کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رونق حیات‘ راشد نور‘ وقار زیدی‘ نزہت عباسی‘ ریحانی روحی‘ فیاض علی فیاض‘ نسیم شیخ‘ سعد الدین سعد‘ یوسف چشتی‘ نذر فاطمی‘ افضل ہزاروی‘ ضیا زیدی‘ تنویر سخن‘ ریحانہ احسان‘ طاہرہ سلیم سوز‘ یاسر سعید صدیقی‘ خالد رانا قیصر‘ سحرتاب رومانی‘ خالد میر‘ عشرت حبیب‘ نعیم انصاری‘ شائستہ سحر‘ احمد سعید خان‘ صدیق راز‘ قمر جہاں‘ شجاع الزماں شاد‘ فریدہ عالم فہمی‘ عاشق شوکی اور علی کوثر کے علاوہ دیگر شعرا نے بھی کلام پیش کیا۔ مشاعرے میں تقدیم و تاخیر کے مسائل سامنے آئے جب کہ میزبان مشاعرہ کا فرض تھا کہ وہ جونیئر اور سینئر شعرا کے مقام کا خیال کرتے۔ مہمان شعرا کو شیلڈز بھی پیش کی گئی تھیں۔

بزمِ عاشقانِ ادب کا ’’سمندر کنارے مہمان ہمارے‘‘ مشاعرہ

بزمِ عاشقان ادب ایک فیس بک میڈیا ہے جو فیس بک پر سماجی سرگرمیوں کو وائرل کرتا رہتا ہے۔ عاشق شوکی اور علی کوثر اس کے روح رواں ہیں‘ یہ جوڑی نوجوان شعرا میں شامل ہے اور کراچی کے بیشتر مشاعروں میں ہم ان کا کلام سنتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے محمد علی اشرف کی ساتھ مل کر بینٹ پیڈرک کے ساحلی Hut میں ایک مشاعرہ ترتیب دیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کی۔ مہمان خصوصی اختر سعیدی اور اکمل نوید مہمان اعزای تھے جب کہ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یہ مشاعرہ ایک خوب صورت تجربہ تھا کہ ’’سمندر کنارے‘ مہمان ہمارے‘‘ پروگرام میں پہلے ظہرانہ ہوا‘ پھر مشاعرہ اور بعدازاں تمام شاعروں نے سمندر کی سیر کی۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ محمد علی گوہر‘ راقم الہروف نثار احمد‘ شائستہ سحر‘ صوفیہ‘ محمد علی اشرف‘ ناز اشرف‘ عاشق شوکی اور علی کوثر نے اپنا کلام سنایا۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ تفریحی مقامات پر مشاعرے کا مزا ہی الگ ہے‘ آج کی نشست میں اچھا کلام پیش کیا گیا۔ محمد علی اشرف اور اکمل نوید کی نظمیں بہت شاندار تھیں‘ اس کامیاب مشاعرے پر میں میزبانان مشاعرہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے پاکستانی بیانیے پر تمام پاکستانیوں کو دعوت دی ہے کہ ہم سب ایک بیانیہ اپنا لیں جب تک اہم پاکستانی بیانے پر متحد نہیں ہوں گے ہماری ترقی ممکن نہیں۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے میں تمام شعرا سے درخواست گزار ہوں کہ وہ ہمارے ادارے ’’پاکستانی بیانیہ‘‘ کے ساتھ جڑ جائیں یہ الگ بات ہے کہ شعرا میں مختلف گروپس ہیں جو کہ ہر زمانے میں ہوتے ہیں لیکن ہم اپنی قومی مفاد میں ہمیشہ یک جان ہوجاتے ہیں اور یہی ایک اچھی قوم کی پہچان ہے۔ عاشق شوکی نے خطبۂ استقبالیہ اور علی کوثر نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ بزم عاشقانِ ادب کے تحت ہر ماہ ایک پروگرامِ منعقد کریں گے‘ ہم اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔ مشاعرے کے اختتام پر تمام شعرا کو اجرک پیش کی گئی۔

نعت لکھنا‘ پڑھنا اور سننا عبادت ہے‘ رضوان صدیقی

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں‘ اب کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا‘ آپ رحمت اللعالمین ہیں‘ آپ سے اظہارِ محبت کرنا نعت کہلاتا ہے۔ شعرائے کرام آنحضرتؐ کو اپنے اشعار کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ آپؐ کے زمانے میں جاری ہوا تھا اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ نعت رسولؐ میں شمائلِ رسول اور فضائل رسول کے ساتھ ساتھ امت محمدی کے مسائل و حالات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے نعت میں ہم اپنے احوال اور خواہشات کا ذکر بھی کرتے ہیں اور مدینے جانے کی تمنا بھی کرتے ہیں۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ حبِ رسول ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ نعت اب ایک صنفِ سخن بن چکی ہے‘ نعتیہ ادب کی ترویج و ترقی جاری ہے۔ نعت میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں‘ تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے۔ نعت رسول لکھنا‘ پڑھنا اور سننا عین عبادت ہے۔ امتِ محمدی کو درپیش مسائل اور مشکلات کا حل اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسوۂ محمدیؐ پر عمل کرنے میں ہے پاکستان میں فرقہ واریت‘ صوبائی اور لسانی تعصب پر قابو پانے کے لیے نظامِ مصطفی نافذ کرنا ہوگا‘ ان خیالات کا اظہار معروف سماجی رہنما رضوان صدیقی نے انجمن شیدائیانِ رسول کے زیر اہتمام منعقدہ 31 ویں محفل نعت میںکیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ کورونا کی وبا نے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرز زندگی کوتباہ اور تبدیل کر رکھے دیا‘ مگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اپنے محبوبؐ کے صدقے محفوظ رکھا ‘ ہم پر فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ محفل نعت میں صدیق اسماعیل‘ صبیح رحمانی‘ سعید ہاشمی‘ محمود الحسن اشرفی‘ فیصل نقشبندی‘ خاور نقشبندی‘ حافظ نعمان طاہر‘ ریحان قریشی‘ محمد شائق اور حیدر آباد کے عبدالرئوف نے بارگاہِ رسالت میں نعتوں کا نذرانہ پیش کیا جب کہ مختلف شعبہ جات اور مکتبہ سے تعلق رکھنے والی شہر کی مختلف معروف شخصیات نے شرکت کی ان میں سینیٹر عبدالحسیب خان‘ سابق رکن قومی اسمبلی قمرالنساء قمر‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ صادق دہلوی‘ ڈاکٹر عمران یوسف‘ بیگم فرزانہ واثق‘ پروفیسر فائزہ احسان‘ ڈاکٹر حنا فضل‘ پروفیسر قمر فخر‘ صفدر صدیق رضی مبشر میر‘ اعزازالدین شاہ‘ طارق جمیل‘ نجم الدین شیخ‘ اسلم خان‘ نسیم شاہ نہدیہ عدیل‘ زیڈ ایچ خرم‘ میجر کوثر کاظمی‘ راشد عزیز‘ اویس ادیب انصاری‘ عارف مصطفی‘ عبدالباسط‘ زاہد جعفری‘ یاسر صدیقی‘ انیس مرچنٹ‘ مدیحہ میمن‘ شاہدہ عروج خان‘ ناہید عظمیٰ‘ سعادت جعفری‘ اور دیگر مہمانوں نے شرکت کی۔

۔’’آیاتِ محبت‘‘ ادب کا سرمایہ ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

معروف شاعر فراست رضوی کا شمار سینئر شعرا میں ہوتا ہے‘ آپ ہمہ جہت شخصیت ہیں اور تمام اصنافِ سخن پر دسترس رکھتے ہیں‘ آپ کی تصانیف و تالیفات سے عوام الناس فیض یاب ہو رہے ہیں۔ آج ہم آپ کی کتاب ’’آیاتِ محبت‘‘ کی تقریبات اجرا میں شریک ہیں جس کا اہتمام سلام گزار ادبی فورم نے کیا ہے۔ یہ کتاب نعت‘ سلاماور منقبت کا مجموعہ ہے جو کہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’سلام حسین‘‘ کی ترقی و اشاعت کے لیے سلام گزار ادبی فورم کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ یہ ادارہ ہر ماہ ایک شعری نشست ترتیب دے رہا ہے آج اس ادارے کے تحت 105 ویں ماہانہ تقریب ہے۔ سلام گزار ادبی فورم کی یہ نشست اصغر علی سید کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی جس میں مہمانِ خاص فراست رضوی اور مہمان آعاز ساغر ہاشمی تھے۔ نظامت کی ذمہ داری مقبول زیدی نے انجام دیں۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ آصف رضا رضوی‘ عقیل عباس جعفری‘ سمیع نقوی‘ رئیس حیدر زیدی‘ ضیا زیدی‘ مانوس ناطقی‘ شائق شہاب‘ اصغر علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ شہنشاہ جعفری‘ فرحت عابد‘ ہماساریہ‘ ذوالفقار پرواز‘ آسی سلطانی‘ جمال احمد جمال‘ طاہر رضا زیدی‘ الحاج نجمی اور مہتاب عالم مہتاب نے اپنا کلام پیش کیا۔

غزل

فیاض علی فیاض

جامِ الفت پلا دیا مجھ کو
اک تماشا بنا دیا مجھ کو
اب پلٹنا بھی میرا مشکل ہے
اتنا آگے بڑھا دیا مجھ کو
پائوں کیسے زمین پر رکھوں
تم نے اڑنا سکھا دیا مجھ کو
اب وہ میرے جنوں پہ برہم ہے
پہلے جلوہ دکھا دیا مجھ کو
تم نے بے چہرگی کے موسم میں
آئینہ کیوں بنا دیا مجھ کو
میں تو یہ بھی بتا نہیں سکتا
اس نے سب کچھ بتا دیا مجھ کو
اُس کی فیاضؔ مہربانی ہے
جس نے مجھ سے ملا دیا مجھ کو

حصہ