’’ایکسکیوز می ٹیچر۔‘‘ زینب نے ہاتھ اٹھا کر ٹیچر کو مخاطب کیا۔
’’جی کہیے…‘‘ ٹیچر نے غور سے زینب کو دیکھا۔
’’ٹی…ٹی…ٹیچر… یہ میری ٹیسٹ کاپی میں کچھ گڑبڑ ہے۔‘‘ زینب گھبراتے ہوئے بولی۔
’’گڑ بڑ؟ کیا مطلب…؟‘‘ ٹیچر نے حیرت سے زینب کو گھورا۔
زینب کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں، وہ اپنی بات کہہ نہیں پا رہی تھی، پوری کلاس اس کی طرف توجہ سے دیکھ رہی تھی۔
زینب ٹیچر کے پاس گئی اور کاپی پر اپنا ٹیسٹ دکھایا جس میں اسے دس میں سے صرف پانچ نمبر ملے تھے اور اس میں الفاظ معنی، واحد جمع، صحیح غلط جیسے سوالات کے صحیح جوابات کو کاٹ کر کسی نے غلط جوابات لکھے ہوئے تھے، وہ لکھائی بھی بالکل الگ تھی جس سے صاف نظر آرہا تھا کہ کسی نے اس کی کاپی چیک ہونے سے پہلے ہی کھول کر تبدیلی کر دی تاکہ زینب ہمیشہ کی طرح پورے نمبر نہ حاصل کر سکے۔
ٹیچر نے جب غور کیا تو واقعی زینب کی بات ان کو سچ لگی، انہیں یاد آیا کہ جب انہوں نے ٹیسٹ لیا تھا تو ٹیسٹ کے بعد ہی انہیں کہیں ضروری کام سے جانا پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے تمام کاپیاں کلاس کے شیلف میں رکھوا دی تھیں‘ یقیناً یہ حرکت اسی دوران ہوئی ہو گی کیوں کے ٹیسٹ کے فوراً بعد کھانے کا وقفہ ہو گیا تھا،
ٹیچر نے زینب کو واپس بیٹھنے کا کہا اور اسے تسلی دی کہ میں پرنسپل سے بات کروں گی۔
مس سائرہ بہت غصے میں تھیں انہوں نے پوری کلاس کو بہت ڈانٹا کہ میں نے آپ سب پر بھروسہ کیا اور آپ لوگوں نے ایسی حرکت کی جو ناقابل برداشت ہے۔
زینب بہت ہی نیک اور سمجھ دار لڑکی تھی، شرو ع سے ہی طبیعت کی بہت حسساس اور کم گو تھی لیکن پڑھائی میں ہمیشہ اوّل یا دوم ہی آتی تھی۔ سب ہی لڑکیاں اس سے دوستی کرنا چاہتی تھیں لیکن اسی کی کلاس کی ایک لڑکی حرا اس سے بہت حسد کرتی تھی۔ اسکول میں کسی نہ کسی طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتی تھی، کبھی اس کا مذاق اڑاتی کبھی اس کی چیزیں غائب کر دیتی۔
زینب اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ حرکت حرا نے ہی کی ہے لیکن وہ خاموش رہی اس نے ٹیچر کے سامنے حرا کا نام نہیں لیا۔
گھر آ کر زینب بہت روئی، زینب کو روتا دیکھ کر اس کی باجی نے اس سے پوچھا تو زینب نے پورا قصہ اپنی باجی کو سنا دیا۔
’’باجی میں تو کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کرتی تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اب میں حرا کی شکایات ٹیچر سے کروں گی اور بتاؤں گی کہ وہ کتنی بری ہے۔‘‘ زینب روتے ہے بولے جا رہی تھی۔
’’میری پیاری بہن ! کوئی آپ کے ساتھ برا کرے تو کیا آپ کو بھی شیطان کا ساتھ دیتے ہوئے بدلہ لینا چاہے؟‘‘
’’نہیں…شیطان کا ساتھ تو نہیں…‘‘ زینب بولی۔
’’تو پھر میری زینب درگزر کر دو کیوں کہ یہی اچھے مسلمان کی نشانی ہے۔ ہمارے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے اخلاق تو تم جانتی ہو ناں؟ وہ کافر عورت کیسے روز آپؐ پر کچرا پھینکتی تھی اور ایک دن نہیں پھینکا تو آپؐ اس کی خیریت معلوم کرنے چلے گئے اور وہ عورت آپؐ کا حسن سلوک دیکھ کر اسلام قبول کر لیتی ہے۔‘‘ باجی نے زینب کو مثال دے کر سمجھایا۔
’’ہاں بالکل صحیح کہا آپ نے۔‘‘ زینب نے کہا۔ ’’کاش آج بھی ایسے لوگ ہوتے۔‘‘
’’کیوں… تم نہیں ہو سکتی ایسی؟‘‘ باجی نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں۔‘‘ زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ امتحان سر پر آگئے۔ آج ریاضی کا پرچہ تھا، زینب بہت جلدی اسکول پہنچ گئی تھی، وہ کلاس کی طرف گئی تو اس کی نظر حرا پر پڑی جو کافی پریشان لگ رہی تھی، کبھی کاپی کھولتی‘ کبھی کتاب۔ حرا سے زینب نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو حرا حیرت سے زینب کو دیکھنے لگی۔
’’وہ…وہ مجھے یہ سوالات بالکل سمجھ نہیں آرہے، میں تو فیل ہی ہو جائوں گی۔‘‘ یہ کہتے ہی حرا رونے لگی۔
’’لاؤ میں سمجھاتی ہوں۔‘‘ زینب نے کاپی اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ زینب نے سوچا ابھی کافی وقت باقی ہے اور لڑکیاں بھی بہت کم آئی ہیں کیوں نہ حرا کی مدد کر دوں۔
’’تم… تم مجھے سمجھائو گی…؟ لیکن…‘‘حراشرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
’’ہاں تو کیا ہوا…دوستوں کے کام آنا چاہیے۔‘‘ زینب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
حرا کی مشکل آسان کر کے زینب اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔ پرچے کے بعد حرا بہت خوش تھی اس نے زینب کو گلے لگایا اس سے معافی مانگی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس طرح ان دونو ں کی دوستی کی شروعات ہوئی، جب بھی حرا زینب سے ملتی تو اس کے چہرے پے احسان مندی کے اثرات ہوتے۔
زینب نے اپنے اچھے اخلاق سے حرا کو بالکل بدل دیا تھا۔ اب حرا بھی زینب کی طرح پڑھائی میں آگے آگے ہوتی۔ زینب بھی اب جان گئی تھی کہ حرا دل کی بری نہیں ہے۔ حرا کی تبدیلی دیکھ کر زینب کو دلی سکوں محسوس ہوتا۔
زینب کو احساس ہو گیا تھا کہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا جائے تو کتنی زندگیاں سنور جاتی ہیں، واقعی ہمارا دین کتنا پیارا ہے ۔