جمہوریت کی فطرت میں یہ انسانی جبلّت بھی پیوست ہے کہ جو کوئی بھی جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ’’اکثریت کا ووٹ‘‘ لے کر برسرِ اقتدار آتا ہے، اُس کے اندر چھپا بیٹھا ’’آمر‘‘ اچانک بیدار ہوجاتا ہے۔ ’’اکثریت‘‘ کا غرور اس میں سمایا ہوتا ہے، اقتدار کے ایوانوں کا نشہ اس غرور کی پرورش کرتا ہے، اور پھر ایک دن وہ ایک بہت بڑے ’’عفریت‘‘ کی صورت سامنے آجاتا ہے۔ جو معاشرہ جس قدر عدم برداشت اور مخالفین کو کچلنے والے جذبات سے معمور ہوگا، یہ عفریت اسی قدر خونیں اور بے رحم ہوگا۔ دنیا کی قدیم ترین جمہوریتوں سے لے کر جدید دور کی نمائندہ جمہوریتوں تک، یہی قانون اور کلیہ اپنی تمام تر خون آشامیوں کے ساتھ ہر جمہوریت کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
دنیا کی سب سے ’’قدیم جمہوریت‘‘ یونان کی شہری ریاست ’’ایتھنز‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ آرٹ، ادب، فلسفہ، فکر، سائنس اور جدت ِ خیالات کا مرکز، جس کی مرتب شدہ تاریخ تین ہزار چار سو (3400) سال پرانی ہے۔ سقراط، افلاطون، ارسطو، بطلیموس، سوفوکلیز اور ایسے لاتعداد نابغۂ روزگار افراد کا شہر۔ ایک ایسی ’’مکمل جمہوریت‘‘ کا امین، جس میں ہر شہری اسمبلی کا رکن تھا اور ’’قوتِ مقتدرہ‘‘ بھی اسمبلی کے ہی پاس تھی۔ ایتھنز کی کوئی نمائندہ حکومت نہ تھی۔ سب فیصلے اسمبلی کے اجلاس میں بحث و مباحثے سے طے ہوتے تھے، یہاں تک کہ ’’عدالتی نظام‘‘ بھی مکمل طور پر جمہوری تھا۔ ملزم کو عدالت کی جگہ ایک ہجوم کے سامنے پیش کیا جاتا تھا۔ اس ’’جمہوری‘‘ نظام میں تاریخ کا ایک بہت بڑا کردار ’’سقراط‘‘ جنم لیتا ہے اور زندگی کے پچاس سال اس شہر میں گزارتا ہے۔ اپنی ڈھلتی ہوئی زندگی میں، 399 قبل مسیح، اس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ’’وہ قدیم دیوتائوں کو تسلیم نہیں کرتا اور نوجوان نسل کو گمراہ کررہا ہے‘‘۔ سقراط کو ایک ’’پُرہجوم عدالت‘‘ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جو اسے موت کی سزا سنا دیتی ہے۔
سقراط اس ہجوم کے سامنے طویل تقریر کرتا ہے، جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ انصاف کے فیصلے اصولوں کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، خواہ ان کو ماننے والا پورے شہر میں صرف ایک ہی شخص کیوں نہ ہو۔ اس کی تقریر کے آخری الفاظ اکثریتی جمہوریت پر فیصلہ کن تھے: ’’اے ایتھنز کے رہنے والو! میں تمہاری عزت کرتا ہوں۔ مجھے تمہارا احترام ہے، لیکن میں تمہاری جگہ خدا کی اطاعت کروں گا، جب تک مجھ میں زندگی اور توانائی ہے۔‘‘
اکثریت کی جہالت کے مقابلے میں یہ وہ سچائی ہے جو تاریخ کے ہر صفحے پر ایک ’’الہامی حقیقت‘‘ کے طور پر ثبت ہے۔ انسانیت کی رہنمائی کے لیے اتاری جانے والی آخری ہدایت اور کلام الٰہی ’’قرآن حکیم‘‘ پکار پکار کر رہنمائی کے اصولوں میں ’’اکثریت‘‘ کی نفی کرتا ہے:
’’اے محمدؐ اگر تم زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو گے تو وہ تمہیں راستے سے بھٹکا دیں گے، وہ تو محض گمان پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘(الانعام:116) ۔
یہ وہ حقیقت اور سچائی ہے جو ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک ہر کسوٹی پر سچ ثابت ہوئی۔
ایتھنز سے لے کر آج تک کے جمہوری نظام اور جمہوری طرزِ حکومت نے لاتعداد کروٹیں لی ہیں اور بے شمار روپ بدلے۔ کئی ہزار سال تو یہ صرف کتابوں کی زینت اور مفکرین کے خوابوں میں ہی سجا رہا۔ گزشتہ دو صدیوں میں یہ سب سے پہلے یورپی ممالک میں آہستہ آہستہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا، اور پھر دوسری جنگِ عظیم میں جب ان قوتوں نے فتح حاصل کرلی، دنیا پر غلبہ قائم کرلیا، جس کے نتیجے میں ایک ’’عالمی مالیاتی نظام‘‘ قائم کردیا گیا، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور کاغذ کی کرنسی کی بادشاہت مسلمہ ہوگئی تو اس مالیاتی نظام کے تحفظ کے لیے انہوں نے اس جمہوری نظام کو ’’سکہ رائج الوقت‘‘ قرار دے دیا، اور اس سے انحراف کرنے والوں کو ظالم، جابر اور انسانیت کے دشمن کہنے لگے۔
اس ’’جدید جمہوری نظام‘‘ کا اصل بنیادی مقصد صرف اور صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ چند مقتدر قوتیں اپنے تمام تر فیصلوں پر ’’اکثریت‘‘ کی مہرِ تصدیق ثبت کروانا چاہتی تھیں۔
اکثریت کے بل بوتے پر ایک ایسی حکومت قائم کی جاتی ہے جس کی سرپرستی پس پردہ عالمی معاشی ’’سود خور‘‘ مالیاتی نظام کے ظالم سرمایہ دار کرتے ہیں۔ وہ جیسا فیصلہ چاہے لکھوا (Dictate) دیں، عوام کی اکثریت، منتخب اسمبلیاں، سینیٹ، دارالامراء، دارالعوام، صدور، وزرائے اعظم سب کے سب اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس جمہوری نظام نے اپنے معاشی آقائوں کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے بیسویں صدی کے آغاز سے ہی دنیا بھر پر قتل و غارت گری مسلط کردی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم، دوسری جنگِ عظیم، ویت نام جنگ، کورین جنگ اور ایسے ہی کئی میدان ِ جنگ سجائے گئے، جن کا مقصد اسلحے کی فروخت سے لے کر دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔ برطانیہ کا چرچل، جرمنی کا ہٹلر اور امریکا کا روز ویلٹ سب ’’منتخب‘‘ جمہوری حکمران بھی تھے اور اپنے اپنے جمہوری نظام کے تابع بھی۔ عراق اور افغانستان تو اس جمہوری دنیا کے تازہ ترین خونخوار چہرے ہیں۔
دوسرے ملکوں پر اپنی قوت کو مسلط کرنا اور ان پر چڑھ دوڑنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ملک اور ان کے عوام آپ کے جمہوری نظام کا حصہ نہیں ہوتے، وہ آپ کے ووٹر، سپورٹر اور خیر خواہ بھی نہیں ہوتے۔ کسی امریکی، برطانوی یا فرانسیسی صدر یا وزیراعظم نے کبھی عراق یا افغانستان کے عوام سے ووٹ لینا نہیں ہوتے، اس لیے ان پر ظلم کرتے وقت ان جمہوری حکمرانوں کی بے حسی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن اقتدار اور غلبے کی بے لگام خواہش ایسی ہوتی ہے کہ جو دوسروں کے گھروں میں مقتل آباد کرتی ہے۔ مگر جمہوری نظام تو اپنے ہی ملک کے اندر بسنے والی ’’اقلیت‘‘ کو بھی ایک تاریک اور بند گلی میں چھوڑ دیتا ہے۔
جمہوری نظام میں اقلیت ایک ’’عضو ِناکارہ‘‘ ہے جس کا وجود شاید اس لیے برداشت کیا جاتا ہے کہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم اس اقلیت کے مقابلے میں اکثریت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں رائج جمہوری نظاموں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیت کو ’’اکثریت کی آمریت‘‘ کے مقابلے میں تحفظ دیتا ہو۔
بھارت اور اسرائیل کی جمہوریتیں تو اس آمریت کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔ بھارت میں بسنے والے 25 کروڑ مسلمان اور اسرائیل میں آباد 25 لاکھ مسلمان، جو دونوں ملکوں میں تقریباً 16 فیصد بنتے ہیں، اگلے ایک سو سال تک بھی یہ خواب نہیں دیکھ سکتے کہ وہ بھی اقتدار کے ایوانوں میں آسکیں گے، خواہ اشتراک سے ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی مرضی کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکے گی۔ مرضی تو بہت دور کی بات ہے، انہیں تو انصاف کے معاملے میں برابری کی نظر سے دیکھنے کا خواب بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ دونوں ملکوں میں گزشتہ 70 سال سے جمہوریت کا تسلسل بھی قائم ہے اور کسی جرنیل نے طالع آزمائی کرتے ہوئے تختہ الٹ کر ’’مارشل لا‘‘ بھی نہیں لگایا۔
بھارت اور اسرائیل تو بڑی تلخ حقیقتیں ہیں، عالم یہ ہے کہ فرانس کی 6 کروڑ 20لاکھ آبادی میں 42 لاکھ مسلمان ہیں، جن میں سے پورے پیرس شہر میں صرف 92 عورتیں مکمل حجاب کرتی ہیں، اور ان 92 عورتوں کے خلاف فرانس کی اسمبلی کے 571 ارکان اور فرانس کی سینیٹ کے 378 ارکان قانون پاس کرتے ہیں کہ آپ فرانس میں حجاب نہیں لے سکتیں کیونکہ یہ ہمارے ’’لائف اسٹائل‘‘ پر بہت بڑا ’’حملہ‘‘ ہے۔
برطانیہ میں برٹش نیشنل پارٹی سے لے کر یورپ کی متعصب پارٹیوں تک ہر کوئی اپنے ملک میں اکثریت کی آمریت چاہتا ہے اور اسے نافذ بھی کرتا ہے۔ جمہوریت عوام کو حقِ حکمرانی نہیں دیتی بلکہ عوام میں ایک بڑے گروہ کو چھوٹے گروہوں کا ’’حقِ استحصال‘‘ دیتی ہے۔ وہ تمام مظالم جو کبھی ’’ظالم بادشاہ‘‘ اور ’’فوجی ڈکٹیٹر‘‘ کیا کرتے تھے اور ظالم کہلاتے تھے، بدنام ہوتے تھے، آج ان تمام مظالم پر ’’اکثریت‘‘ کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی مہر لگتی ہے تو یہ ظلم ’’قانون کی بالادستی‘‘ کہلاتے ہیں۔