شمع فکر و نظر اٹھ کے روشن کرو

370

ادبِ اطفال کے ستاروں کے نام پیغام:۔
پھولوں کے لیے لکھنے والو! خوش آمدید…جو ننھے منّوں کے لیے لکھتے ہوں، جو لکھنا چاہتے ہیں، جو لکھنا چھوڑ چکے ہیں ان سب کے لیے پیامِ امید۔
’’شمع فکر و نظر اٹھ کے روشن کرو‘‘ یہ دلچسپ آغاز ہے حریم ادب کراچی کے تحت بچوں کے لیے لکھنے والے ادیبوں کی ایک تربیتی نشست کا،جو ’’ادبِ اطفال کے ستارے‘‘کے عنوان سے منعقد کی گئی۔
پروگرام کی ابتدا ماریہ فاروق کی سورۃ الفجر کی تلاوت و ترجمہ سے ہوئی۔ مہمان مقرر کے انتظار کے لمحات کو سماویہ وحید کی پُراثر نعت سے کارآمد بنایا گیا۔
تربیتی نشست کی ابتدا ممتاز ادیب، بانی مدیر ماہنامہ آنکھ مچولی، سابق میڈیا کنسلٹنٹ یونیسیف، سابق مدیر ہمدرد نونہال محترم سلیم مغل کی گفگتو سے ہوئی۔ انہوں نے بچوں کے ادب کے حوالے سے اپنے تجربے، مطالعے اور فکر کا نچوڑ انتہائی دل چسپ پیرائے میں پیش کیا اور اچھی کہانی لکھنے کے لیے مرکزی خیال، کردار، مکالمے، ماحول، تجسس اور تحیر، ڈرامائی موڑ، زبان پر عبور، جملے کا اختصار، کلائمکس اور اختتامیہ پر مبنی 12 تکنیکی نکات بتائے۔ عالمی ادب کی پُرمغز اور دل چسپ مثالوں سے سمجھایا۔ انہوں نے چینی، جاپانی، فرانسیسی اور روسی کہانیوں اور مشہور کتابوں کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ادب کس طرح قوموں کو عروج پر لے جاتا ہے۔ سلیم مغل صاحب نے خصوصاً چین کا تذکرہ کیا کہ چین کی موجودہ ترقی بڑی حد تک پچھلی نسل میں لکھی گئی کہانیوں کا نتیجہ ہے، جن میں ہیومن اسکل کی تمام خوبیاں بچوں کے لیے دل چسپ، پُراثر اور آئیڈیالائز کرکے پیش کی گئیں۔ نیز انہوں نے زور دیا کہ بچوں کو کہانی ضرور سنائیں۔ کہانی انسان کے ساتھ ہی دنیا میں آئی، اور دنیا اپنی شکل بدلتی رہے لیکن کہانی ساتھ رہے گی۔
انسان کی قوتِ متخیلہ کو بڑھانے میں کہانی کا بڑا کردار ہے۔ کہانی عظیم تصورات کی بنیاد ہے۔ انہوں نے اپنی دانش مندانہ گفتگو میں مزید کہا کہ کہانی کا جملہ مختصر ہونا چاہیے اور ابلاغ آسان، کیوں کہ اصل چیز الفاظ کا رعب نہیں بلکہ انتقالِ خیال ہے۔ نیا خیال ہی توجہ حاصل کرتا ہے۔ دنیا میں بڑے لوگ وہی ہیں جو مائنڈ سیٹ کو توڑنے والے ہوں۔ وہی قوم دنیا میں سرخرو ہوسکتی ہے جو نئی پود کو سوچنا اور مائنڈ سیٹ کو توڑنا سکھا دے۔
سلیم مغل صاحب کی طویل مگر دل چسپ گفتگو کے بعد حریم ادب پاکستان کی صدر محترمہ عالیہ شمیم نے ادبِ اطفال کے ستاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان ستاروں کو حریم ادب کراچی کے تحت جمع کرنے اور ان کی تربیت کی فکر کرنے پر میں حریم ادب کراچی کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ بچوں کے لیے لکھنا ایک بڑا مشن ہے، اور اس مشن میں ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راہنما ہیں۔ ہمارے اندر جو کچھ ہوتا ہے ہم وہی دوسروں کو دے سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں منافقت سے پاک ہونا چاہیے۔ ادب برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی ہمارا سلوگن ہے، اس کے تحت لکھی گئی تحریر بچوں کو اصلاح سے جوڑ دیتی ہے۔
محترمہ عالیہ شمیم نے ’’کہانی کے سولہ سنگھار‘‘ کے خوب صورت عنوان کے تحت کہانی کو خوش نما بنانے کے سولہ گُر بیان کیے جس میں آسان الفاظ، بچے کی عمر کا لحاظ، موضوعات کا تنوع، لکھاری کا مطالعہ و مشاہدہ، اور عمدہ زبان و بیان شامل تھے۔ انہوں نے گفتگو کی ابتدا میں بڑی خوب صورت بات کہی کہ اگر شعور، ضمیر، تمدن، تہذیب، شخصیت، کردار اور انسانیت کو ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو وہ ’’ادب‘‘ ہے۔
تربیتی نشست کی اگلی مقررہ صدارتی ایوارڈ یافتہ اور مدیرہ ماہنامہ ’بچوں کی دنیا‘ محترمہ راحت عائشہ صاحبہ تھیں، جو اتنے بھاری بھرکم تعارف کے بعد اپنی کم عمری کے باعث حیران کر گئیں۔ راحت عائشہ نے ’’بچوں کے لیے کہانی کیسے لکھی جائے‘‘ کے موضوع کے تحت نئے لکھنے والوں کو قیمتی مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے ادب کی مقصدیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کی کہانی کے انجام میں مسئلے کا مثبت حل اور ایک اہم پیغام ضرور پیش کریں۔ نیز بچوں کے لیے ہلکی پھلکی بات کریں اور کہانی میں ایک، دو سے زیادہ نصیحت نہ کریں۔ انہوں نے اچھی اور مؤثر کہانی کی تیکنیک سمجھاتے ہوئے متعدد نکات بیان کیے:
پہلا جملہ پُرتجسس ہو، کرداروں اور ماحول کا تعارف، کنفلکٹ یا ٹکراؤ، غیر ضروری طوالت اور بے ربط جملوں سے اجتناب، کہانی میں کئی حیران کن موڑ ہوں، آخر تک تجسس قائم رہے۔ گرائمر اور املا کی درستی، پنکچوئیشن اور محاوروں کا استعمال کریں۔
انہوں نے ایک دل چسپ اصطلاح استعمال کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ اپنی تحریر کو ’’پال‘‘ لگائیں، یعنی لکھنے کے بعد کچھ وقت کے لیے رکھ دیں، اس دوران اس پر غور کرتے رہیں۔ دوبارہ، سہ بارہ پڑھنے سے اس کی خامیاں خود ہی آپ کی نگاہ میں آجائیں گی۔ کہانی شائع نہ ہونے پر استقامت کا مظاہرہ کریں اور لکھتی رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سروے کے مطابق چھوٹے بچے اب بھی جنوں اور پریوں کی کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ لیکن اس میں نیا پن اور مقصدیت ضروری ہے۔
تقریب میں حریم ادب کراچی کے تحت ہونے والے مقابلے بعنوان ’’میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے‘‘ کے نتائج کا اعلان کیا گیا اور انعامات تقسیم کیے گئے۔
افسانہ نگاری پر پہلا انعام عالیہ زاہد بھٹی، دوسرا انعام بشریٰ منیر اور تیسرا انعام عروبہ عثمانی نے حاصل کیا۔ نظم پر خصوصی انعام کی حق دار مدیحہ صدیقی قرار پائیں۔
حریم ادب کراچی کی نگراں عشرت زاہد اپنی ٹیم ممبرز توقیر عائشہ، افسانہ مہر اور طلعت نفیس کے ہمراہ محفل کی میزبانی اور نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے ہمہ وقت موجود تھیں۔ تربیتی نشست کی نظامت کی ذمہ داری بشریٰ منیر نے انجام دی، اور تقریب کو خوب صورت اشعار سے مزین کیا۔
بلاشبہ بچوں کے ادب کی اہمیت ہے۔ ہمارے ملک میں بچوں کے ادب سے لاپروائی کے اس ماحول میں حریم ادب کراچی کی یہ تربیتی نشست وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔ یقینا اتنے معروف و ممتاز مقررین کی گراں قدر راہنمائی نے نئے لکھاریوں کے عزم و حوصلوں کو جِلا بخشی ہوگی۔ امید ہے یہ ادبِ اطفال کے ستارے بچوں کے ادب کے آسمان پر نئی آب و تاب سے چمکیں گے۔ ان شا اللہ۔
ثمرین صاحبہ کی مختصر دُعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔

حصہ