ریختہ فاؤنڈیشن اردو دنیا کا ادب کے حوالے سے ایک مستند ادارہ بن چکا ہے، اس ادارے کے تحت نہ صرف اردو زبان کے حوالے سے ایک عظیم الشان ویب سائٹ کا قیام عمل میں لایا گیا بلکہ ویب سائٹ کے ساتھ اردو شعر و ادب کا ایک شاندار آرکائیو بھی تشکیل دیا گیا جہاں شاعری، نثر، ڈرامہ، افسانہ کی ہزاروں کتب اب آن لائن پڑھی جاسکتی ہیں، ویب سائٹ پر80 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں اور اتنی ہی کتب پر مزید کام جاری ہے جو جلد ویب سائٹ پر شامل کرلی جائیں گی۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں وڈیوز بھی موجود ہیں جن میں بہت سی ایسی وڈیوز ہیں جنہیں نایاب ہونے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ ریختہ کا ایک اہم کام اردو قوافی کی لغت کا ہے، اب آپ کوئی بھی لفظ لکھ کر اس کے قوافی باآسانی تلاش کرسکتے ہیں، لاکھوں الفاظ پر مشتمل یہ لغت اردو سے محبت کرنے والوں کے کسی نعمت سے کم نہیں، علاوہ ازیں فاؤنڈیشن کے تحت دنیا کی سب سے بڑی اردو لغت پر کام کیا جا رہا ہے، جس میں اردو ہندی اور انگریزی کے الفاظ معانی کے ساتھ شامل ہوں گے۔ ہمیں امید ہے جلد ہی ریختہ فاؤنڈیشن مترادفات کی لغت پر بھی کام کرے گی۔ ادارے کے تحت ہر سال ہندوستان اور دبئی میں مشاعرے اور ادبی کانفرنسز بھی منعقد کی جاتی ہیں اور عظیم شعرا کے دن بھی منائے جاتے ہیں۔ ’’جشن ریختہ‘‘ کے نام سےسال ایک عظیم الشان پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے اردو کے شعرا اور ادیب شرکت کرتے ہیں۔ اس برس یہ جشن کورونا کی پابندیوں کے باعث گزشتہ ماہ ستمبر میں آن لائن منعقد کیا گیا۔
ریختہ فائونڈیشن ڈیجٹل اسپیس میں اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے مسلسل کام کرتی جارہی ہے۔اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ریختہ ویب سائٹ کی نئی اینڈرائیڈ ایپلی کیشن کا اجرا ہے۔ ریختہ ایپلی کیشن پلے اسٹور اور ایپ اسٹور پر پہلے بھی موجود تھی لیکن نئی ریختہ ایپ ٹیکنالوجی کے جدید معیار، صارفین کی نئی توقعات اور سہولت کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔ یہاں آپ بہت آسانی سے اپنی پسند کی شاعری، شاعر، کہانیاں اور دیگر ادبی تحریریں تلاش کرسکتے ہیں اور پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی پسندیدہ تحریروں کا ذاتی گوشہ بنا سکتے ہیں۔ ریختہ ایپ پر اس وقت چار ہزار سے زیادہ شاعروں کی ستر ہزار سے زیادہ تخلیقات، تقریباً چار ہزار اردو کہانیاں اور مضامین مفت دستیاب ہیں اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔نئی ریختہ ایپ میں شاعری کی تقریباً تمام اصناف کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے ریختہ ایپ پر صرف غزلیں، نظمیں اور اشعار دستیاب تھے لیکن اب آپ مرثیہ، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی جیسی اصنا ف میں تخلیق کی گئی شاعری بھی پڑھ سکتے ہیں۔ایپ کے اس نئے ورژن میں ایک اہم اضافہ نثری تحریروں کی شمولیت ہے۔ اس وقت ریختہ ایپ پر چار ہزار سے زیادہ کہانیاں، مضامین، خاکے اور مزاحیہ تحریریں پڑھی جاسکتی ہیں۔
ریختہ ایپلی کیشن بھی ریختہ ویب سائٹ کی طرح اردو، دیوناگری اور رومن تینوں رسم الخط میں مواد فراہم کرتی ہے۔ مزید یہ کہ قرأت کی آسانی کے لیے تمام متن کے ساتھ انبلٹ لغت کے ذریعے کوئی بھی قاری کسی بھی لفظ کے معنی لفظ پر کلک کرے قرأت کے دوران ہی جان سکتا ہے۔ انبلٹ لغت کے علاوہ ’’ریختہ لغت‘‘ ریختہ ویب سائٹ اور ریختہ ایپ کا ایک اہم فیچر ہے۔ ریختہ کی کوشش رہی ہے کہ ایک ایسی لغت تیار کی جائے جو اردو الفاظ کے معنی اردو کے ساتھ ہندی اور انگلش تینوں زبانوں میں فراہم کرے۔ ریختہ کا یہ پراجیکٹ دنیا بھر میں اردو کی سب سے بڑی اردو لغت بنانے کا پراجیکٹ ہے۔ ابھی یہ اپنے ابتدائی مرحلے میں اور ریختہ ٹیم اس کے لیے ہر روز ایک نئے جذبے کے ساتھ کام کررہی ہے۔ فی الحال آپ ریختہ ایپ میں لغت کے ابتدائی ورژن سے استفادہ کرسکیں گے۔مصور شاعری اور شاعروں کی اپنی آواز اور دیگر فن کاروں کی آواز میں ہزاروں آڈیوز اور ویڈیوز ریختہ ایپ کے دو اور اہم سیکشن ہیں۔ ریختہ کی کوشش رہی ہے کہ تمام شاعروں کی آوازوں کو ان کی شاعری کے ساتھ محفوظ کیا جائے۔ اس سلسلے میں ریختہ کی کوششیں کامیاب رہی ہیں اور اس وقت ریختہ ایپ پر سات ہزار آڈیوز اور ویڈیوز سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔
اگر آپ اردو زبان و ادب سے دل چسپی رکھتے ہیں اور صرف ایک کلک میں اپنی موبائل اسکرین پر اردو شاعری، کہانیاں، مضامین، مزاحیہ تحریریں پڑھنا چاہتے ہیں تو ریختہ ایپ آپ کے لیے ایک بیش قیمت تحفے سے کم نہیں۔ آپ ریختہ ایپ پلے اسٹور یا ایپ اسٹو ر سے ڈائون لوڈ کرسکتے ہیں۔
ریختہ فاؤنڈیشن کے بانی سنجیو صراف جو آج کل امریکا میں مقیم ہیں ان کا اصل تعلق تو راجستھان سے ہے لیکن دلّی میں برسوں مقیم رہنے کی باعث اب ان کو دلّی والا ہی کہا جاتا ہے، سنجیو صراف انتہا کا شعری ذوق رکھتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کے اشعار انہیں زبانی یاد ہیں اور محفل میں کوئی موضوع ہو اس پر برجستہ شعر سنا کر اپنے اعلیٰ ذوق ہونے کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔
2013 میں سنجیو صراف نے ایک ویب سائٹ کی بنیاد رکھی جو بہت جلد دنیا میں ریختہ کے نام سے مشہور ہوئی، ابتدا میں یہ چند شاعروں جن میں میر‘ غالب‘ اقبال اور چند دوسرے اساتذہ شامل تھے‘ اُن کے کلام کو شائع کرنے کی بابت تشکیل دی گئی تھی، لیکن دنیا بھر سے پزیرائی ملنے کے بعد سنجیو صراف اور ان کی ٹیم نے اس چھوٹی سے ویب سائٹ کو ایک بڑے ادارے میں تبدیل کردیا۔ آج اس ادارے میں تقریباً 180 افراد درجن بھر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارے بہت پیارے دوست سلیم سالم ایک خوش گو شاعر اور ریختہ فاؤنڈیشن کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں، ان سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ جناب فرحت احساس جو ہندوستان اور پوری اردو دنیا کا ایک معتبر نام ہیں‘ اس ادارتی بورڈ کے سربراہ ہیں۔ ہم نے سالم سے اپنے مخصوص انداز میں سوال کیا کہ یہ جو ریختہ شاعروں اور مختلف موضوعات پر مشتمل وڈیوز سوشل میڈیا پر مشتہر کرتا ہے کیا یہ تمام ادارتی بورڈ کی اجازت کے بعد آگے بڑھائی جاتی ہیں؟ جس پر سالم نے جو جواب دیا اس سے ہمیں کافی اطمینان ہوا، سالم کہنے لگے کہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہماری سوشل میڈیا کی ٹیم اپنے طور پر کوئی وڈیو بنا کر آگے بڑھا دیتی ہے، جس کا ادارتی بورڈ کو علم نہیں ہوتا۔ اس سوال کا مقصد واضح کرتے ہوئے ہم نے مزید کہا کہ دراصل ہوا یہ کہ کورونا کے دنوں میں شاعری کی ایک وڈیو جس کا نام ’’سوشل ڈیسٹینسنگ پوئٹری‘‘ تھی ریختہ نے مشتہر کی، جس میں میر، جون، فراز، شہریار اور نصیر ترابی جیسے شاعروں کے اشعار اس وقت ہیچ و کم تر لگنے لگے جب ہمارے سامنے اچانک ایک شعر آگیا کہ
ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
ہم نے سالم سے کہا کہ بھئی شرمندگی اور رسوائی سے بے پروا ہو کر آپ کو بتلاتے چلیں کہ ہمارے پسندیدہ شاعروں میں میر، غالب اور ادریس بابر شامل ہیں، میر اور غالب کا نام تو اس لیے لکھ دیا کہ دونوں کو کچھ اہمیت دینا مقصود تھی وگرنہ ادریس بابر اکیلے ہی منہ دینے کو کافی ہیں۔ ادریس بابر کی تعریف میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے، یہ الگ بات ہے کہ چراغ کڑوے تیل سے جل رہا ہو۔ اس شعر میں بھی ادریس بابر نے اردو شاعری پر وہ احسان کیا ہے کہ وڈیو میں موجود دوسرے شعرا اس وڈیو کو اپنی وال پر لگاتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ ہم نے سالم سے یہ بھی پوچھا کہ کورونا تو سنا تھا یہ کرونے کیا ہوتا ہے؟ سلیم سالم چوں کہ شریف آدمی ہیں لہٰذا وہ ایک زوردار قہقہہ لگا کر خاموش ہو لیے۔ پنجاب کے کئی شعرا ایسا کرتے نظر آتے ہیں کہ جب شعر وزن میں لانا مقصود ہو یا اسے زبردستی قافیہ بنانا ہو تو آخر میں ی، ے، ا لگا کر اسے مقامی لفظ بنا ڈالتے دیتے ہیں، اب وہ خواہ لفظ ہو یا نہ ہو، معنویت ہو یا نہ ہو، ان کی نظر میں ان کا کام پورا ہوجاتا ہے، یہی وہ کام ہے جو یہاں ’’کرونے‘‘ نے کیا اور بالآخر ادریس بابر میر و غالب کے بعد ہمارے پسندید شاعر ٹھہرے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وڈیو میں میر تقی میر کا ایک اور ادریس بابر کے دو اشعار ہیں۔ خیر یہ ذکر تو برسبیل تذکرہ نکل آیا اور ہم سالم کی اس بات سے مطمئن بھی ہوئے کہ بسا اوقات سوشل میڈیا کی ٹیم ایڈیٹوریل بورڈ سے بغیر کسی مشورے کے وڈیوز بنا کر اسے پیچ پر پبلش کردیتے ہیں اور اس وڈیو کی تیاری میں ہمارا یا فرحت احساس صاحب کا کوئی قصور نہیں اور یہ کہ آئندہ مزید خیال رکھا جائے گا۔
ہماری نظر میں بڑے اداروں میں ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں اور ہماری تنقید کا مقصد بھی اصلاح کی خاطر ہوتا ہے، ریختہ فاؤنڈیشن تو ہر لحاظ سے تعریف کے قابل ہے، یہ ادارہ اپنی جگہ رہ کر بہت بڑا کام کر رہا ہے۔
آخر میں اپنے اس کالم کے توسط سے آرٹس کونسل کراچی، الحمرا لاہور، پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے روح رواں افراد سے درخواست کروں گا کہ آپ تمام ادارے اپنی اپنی جگہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں، خاص کر آرٹس کونسل کراچی اور الحمرا لاہور۔ آپ کے پاس باصلاحیت افراد کی کمی نہیں اور نہ ان لوازمات کا مسئلہ جس کے ذریعے کسی پراجیکٹ کو کامیاب نہ بنایا جائے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ اگر یہ تمام ادارے مل کر ریختہ طرز پر کوئی پراجیکٹ شروع کریں تو وہ زبان کی ایسی خدمت ہوگی جس کی مثال شاید ہی ملے۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی گو کہ اب بطور ادارہ انہدام کا شکار ہیں لیکن ان دو اداروں کی آرکائیو دنیا کی قیمتی ترین آرکائیو میں سے ایک ہے، اربوں روپے کا خزانہ ہے‘ جو ان دو اداروں کے پاس موجود ہے، جس میں اردو مشاعرے، انٹرویوز، ڈراما، تھیٹر، موسیقی غرض فنونِ لطیفہ کا ایسا سامان موجود ہے جس کا مقابلہ دنیا میں شاید ہی کوئی کر سکے۔ آپ بھی ریختہ فاؤنڈیشن جیسا ایک ذیلی ادارے تشکیل دے سکتے ہیں۔ اب چوں کہ انٹرنیٹ کا دور دورہ ہے لہٰذا فیس بک اور یوٹیوب پر آمدنی کے امکانات بھی بہت اچھے ہیں، ایک ایسی ویب سائٹ جس پر لاکھوں لوگ روزانہ وزٹ کرتے ہوں‘ آپ کو لاکھوں روپے ماہانہ کما کر دے سکتی ہے۔ چوں کہ اردو سے محبت کرنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں لہٰذا ایسے پراجیکٹ کی کامیابی کے امکانات بھی بے تحاشا ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ارباب اختیار ہماری ان گزارشات پر توجہ دیں گے۔