جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ رات دن

586

ساری دنیا فرصت کا رونا رو رہی تھی۔ نظامِ زندگی ٹھیر جانے کے افسانے سنائے جارہے تھے۔ ہوائوں اور فضاؤں کو کچھ لمحے کو چین ملا تھا۔ چرند پرند بھی بنی آدم کے گھروں میں محصور ہونے پر انگشت بدنداں مگر شاداں و فرحاں تھے۔ کہیں سے خبریں آرہی تھیں کہ ہوائی سفر بند ہونے کی وجہ سے جہاز فلاں صحرائی علاقے میں کھڑے کیے جارہے ہیں تاکہ پارکنگ کے کرائے بچا سکیں، تو کہیں گوری میمیں مارکیٹیں بند اور پائوڈر خمیرے کی عدم دستیابی پر خمیری روٹیاں گھر کے خمیر سے تیار کرکے گویا نئی دریافت کا جشن منارہی تھیں۔ وہیں پر بچوں کو یہ وبا ناگہانی نعمتِ خداوندی محسوس ہورہی تھی کہ نہ صرف اسکول عین امتحانات کے وقت بند ہوگئے بلکہ قائی قبیلے کے ساتھ گھومتے گھامتے اگلی جماعتوں کا سفر بھی بنا محنت کے طے کرلیا۔ مرد حضرات جو عام دنوں میں دفاتر نہ جانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے اب انہیں دفتر کی یاد ستانے لگی۔ ایسے میں ہماری زندگی یعنی یہ ایک خاتونِ خانہ کی زندگی پر کیا فرق پڑا؟ اکثر سوچتی ہوں یہ خاتونِ خانہ بڑا معنی خیز قسم کا لقب ہے، جس نے بھی دیا بڑا ہی سیانا شخص تھا۔ شخص اس لیے کہ کسی خاتون کے لیے یہ لقب دینا ممکن نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ’’خاتونِ خانہ‘‘کا یہ تاج سر پر رکھ کر بیوی سے گھر بھر کے کام کرائو، بجٹ بنوائو، کپڑے دھلوائو، استری کروائو۔ بچوں کو سنبھالنا، ہانڈی چولہا، خاندان کی خوشی غمی کے موقع پر ناک اونچی رکھنا… غرض یہ ایک پگ سر پر رکھ دی اور مرد بے فکر ہوگیا۔ خاتونِ خانہ کے گلے کا جواب کچھ یوں ملتا ہے ’’ارے آپ جانیں، آپ کا گھر جانے، خاتونِ خانہ ہیں آپ، جو دل چاہے کیجیے، ہم عاجز تو ایک طرف آپ کی مظلوم رعایا کی مانند پڑے رہیں گے۔‘‘ عزیز و اقارب کو بھی کہلوا دیا گیا کہ ہمارے گھر کی حکمران تو ہماری زوجہ ہیں۔
میں فقط زیب ِ داستاں کے لیے ایسا عرض نہیں کررہی، بلکہ اس سارے لاک ڈاؤن میں سب سے زیادہ رگڑا اگر لگا ہے تو خاتونِ خانہ کو ہی لگا ہے۔ اب تو اُس زمانے کی یاد ستاتی ہے جب صبح سویرے میاں اور بچوں کو رخصت کیا جاتا تھا۔ پھر آرام سے لمبی تان کر سویا جاتا۔ بچوں کے اسکول سے آنے سے قبل جھٹ پٹ کچھ ہلکا پھلکا کھانا بنایا جاتا، گھر کی صفائی ستھرائی اور پھر بچوں کو کھلا پلا کر سلا دیا جاتا۔ ناظرہ و قاعدہ اور ہوم ورک کرا دیا جاتا اور میاں کے آنے پر تیار ہوکر بیٹھ گئے۔ ساتھ ہی تھکا دینے والی روٹین پر گہری ٹھنڈی سانسیں بھری جاتیں۔ رات کا کھانا کھایا جاتا اور پھر سونے کا وقت ہوجاتا تھا۔
ہائے اب تو اس وائرس کو کوسنے دینے کا دل چاہتا ہے۔ بلکہ جو منہ میں آئے بس کہہ ہی دیں۔ مگر پھر حیا مانع آجاتی ہے۔ خدا لگتی کہوں تو لوگوں کو فرصت میں لطف آتا ہوگا، مگر یہاں تو حالت بری ہے۔ اس لاک ڈائون نے توہمیں عدیم الفرصت کردیا۔ میاں صاحب (لندن والے نہیں، ہمارے ذاتی میاں) ورک فرام ہوم کررہے ہیں، بچوں کی آن لائن کلاسز ہورہی ہیں۔ ناشتا کراکے اپنے کام پر لگے۔ بچوں کے شوروغل سے بچنے کو میاں جی قلعہ بند ہوگئے۔ بچوں کو لے کر بیٹھے ہیں آن لائن کلاس میں، محسوس ہوتا ہے کہ وقت کئی دہائیاں پیچھے یعنی اپنے اسکول کے زمانے میں چلا گیا۔ خیر یہ الگ داستان ہے جو کسی فرصت کے وقت سنائی جاوے گی۔ کلاس میں ذرا وقفہ ہوا تو موسمی پھل پیش کرنے کا وقت آیا۔ پھر باقی کلاسز۔ جب چھٹی ہوئی تو جلدی سے دوپہر کی ہانڈی روٹی کی۔ ظہرانے کے بعد کچھ مزید کام نبٹائے گئے (نوٹ: کھانے میں برتن دھونا بھی شامل سمجھا جاوے)۔ بچوں کو ہوم ورک کرایا (حالانکہ پہلے بھی سب کچھ ہوم ہی سے تھا، بہرحال) دفتر کی چھٹی کا وقت ہوا، مطلب شام کی چائے یعنی کہ عصرانے کا وقت ہوا۔ عصرانے کے لیے بیکنگ کی کچھ اشیا کا تیار کیا جانا بھی لازم ٹھیرا۔ چونکہ بچے گھر میں بند ہیں تو بچوں کو سیر کرانا بھی ضروری ہے۔ پھر رات کا کھانا بھی تو اہتمام سے ہو، آخر تو اتنا مصروف دن گزارا ہے سب نے۔
عدیم الفرصتی کا اندازہ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ کوئی چار ماہ قبل بچوں کے دو پاجامے بنانے شروع کیے تھے جو گزشتہ ہفتے انجام پذیر ہوئے۔
ہفتہ وار تعطیل مزید مصروفیت کا سندیسہ لیے ہوتی ہے۔ گھر کے سودے سلف کے لیے جاتے ہوئے اضافی داستانے پہنے جاتے۔ اب ہاتھ پسینے سے تر ہیں، عجیب صورتِ حال ہے۔ واپس آکر سینیٹائزر کا استعمال، اور نجانے کن کن نئی پروڈکٹ سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ خیر احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
حال کچھ یوں ہے کہ کام ہیں کہ سمٹنے میں نہیں آتے، اور ’’جس طرف آنکھ اٹھائوں تیری تصویر آئے‘‘ کے مصداق جس طرف رُخ کریں وہیں کچھ کام منتظر ہیں۔
ایسے میں کسی کی طبیعت ذرا سی بھی ناساز ہوجاتی ہے تو فوراً اس کا گھریلو جڑی بوٹیوں سے علاج کرایا جاتا ہے، جس کا فائدہ یہ رہا کہ ہسپتال کی نوبت نہیں آئی الحمدللہ۔
بے شک اللہ نے رات کو سکون کا باعث بنایا ہے، اگر یہ رات بھی نہ ہوتی تو مزید کھانے کے اوقات نکل آنے تھے۔ جیسا کہ پنجابی میں آٹھ پہر(ویلے) معروف ہیں۔ شکر ہے کہ آٹھ پہر کے ساتھ آٹھ کھانے منسوب نہیں۔
اس ساری ورزش کے بعد جب سوشل میڈیا پر لوگوں کو فرصت کے راگ الاپتے دیکھتے ہیں تو جی جان سلگ جاتی ہے۔ اب میاں کو دن بھر کی روداد سنانی نہیں پڑتی جس کی وجہ فرصت نہیں بلکہ کاموں کی بھرمار ہے۔ گویا کہاں تک سنیں گے کہاں تک سنائیں۔
یہ ہے ہماری زندگی قبل از لاک ڈائون اور بعد از لاک ڈائون۔
نوٹ: خاتونِ خانہ کو کام چور تصور نہ کیا جائے۔

کھانا ضائع نہ کریں

دنیا میں ہر سال تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب ٹن کے برابر کھانا ضائع ہوجاتا ہے، اور اس کا بڑا حصہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کا عمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ نیویارک کے مشہور شیف تباخ میکس لامنا کے بقول آج انسانیت کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں سے ایک ’’بہت بڑا مسئلہ خوراک کا ضیاع ہے‘‘۔ کھانا ضائع ہونے کا مطلب صرف کھانا ضائع ہونا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیسے، پانی، توانائی، زمین اور ذرائع آمد ورفت، ہر چیز ضائع ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کھانا پھینک رہے ہیں تو اس سے موسم پر بھی اثر پڑرہا ہے، کیونکہ یہ کھانا اکثر کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں پھینکا جاتا ہے جہاں وہ گلتا سڑتا رہتا ہے جس سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے جو آب و ہوا پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ خریداری، کھانا پکانے اور خوراک کا استعمال کرنے کے اپنے طریقوں میں صرف تھوڑی سی تبدیلی بھی ماحول پر اس کے اثرات میں کمی لا سکتی ہے۔
تھوڑی سی کوشش سے آپ خوراک کے ضیاع سے بچ سکتے ہیں، پیسے اور وقت بچا سکتے ہیں اور دھرتی ماں پر سے بوجھ کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

اہم سوال اور ان کے جواب

سوال: اگر بچے پڑھائی میں دھیان نہ دیں اور کارٹون دیکھنا پسند کریں تو اس کا کیا حل ہے؟
جواب: سات سال سے بڑے بچوں کا روزمرہ کا معمول بنانا بہت ضروری ہے۔ بچے یا تو کارٹون ہی دیکھتے رہتے ہیں یا وڈیو گیم کھیلتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف والدین جب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ خود پڑھائی نہیں کررہے تو انہیں زبردستی پڑھنے بٹھا دیتے ہیں۔ یہ طریقہ کار کچھ اچھا نہیں۔ اس مسئلے کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ بچوں کے کام کرنے کے گھنٹے باندھ دیجیے۔ یعنی کارٹون دیکھنے کے وقت میں بچوں کو اجازت ہو کہ وہ کارٹون دیکھیں۔ اسی طرح جسمانی کھیل کے وقت میں بچے اپنے اپنے کھیل کھیلیں، اور جب پڑھائی کا وقت آئے تو بچے سے کہیں کہ یہ وقت پڑھائی کا ہے اس وقت میں صرف پڑھائی ہوگی۔ یہ ٹائم ٹیبل بچوں کے ساتھ مل کر بنائیں اور اس میں بچوں کی رائے بھی شامل کریں۔ جب بچوں کی رائے شامل ہوگی تو وہ اس پر عمل بھی اچھی طرح کریں گے۔ مثال کے طور پر چار سے پانچ بجے تک جسمانی کھیل کا وقت ہے تو ساڑھے پانچ سے ساڑھے چھ بجے تک کارٹون دیکھنے کا وقت ہے، اور سات سے آٹھ بجے تک ہوم ورک کا وقت ہے۔
سوال: بچوں میں مارنے کی عادت کو کیسے ختم کیا جائے؟
جواب: بچے عام طور پر دو وجوہات کی بنا پر مارنے کی عادت اختیار کرتے ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ خود والدین یا اساتذہ میں سے کوئی بچوں کو مارتا ہو۔ بار بار پٹنے سے بچے یہ عادت خود سیکھ لیتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں فوری طور پر بچے کومارنا بند کیا جائے تاکہ اس کی عادت بدلی جا سکے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کو جسمانی کھیل کود کے مواقع کم ملیں۔ جسمانی کھیل نہ کھیلنے کی وجہ سے ان کے جسم کی طاقت استعمال نہیں ہوتی، پھر یہ طاقت دوسروں کو مارنے میں نکلتی ہے۔ بچوں کو اچھل کود کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، اور انہیں لازماً ایسے کھیل کھیلنے چاہئیں جنہیں کھیل کر وہ تھکیں۔ اس طرح بچوں کی جسمانی صحت بھی بہتر رہتی ہے اور ان کا مزاج بھی اچھا رہتا ہے۔
سوال: دو سال کے بچوں میں ضد کو کیسے ختم کیا جائے؟
جواب: دو سال کی عمر کے بچوں میں ضد ختم نہیں کی جاسکتی، اس عمر میں بچے اپنی مرضی کرنا چاہتے ہیں اور مرضی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کی مزاحمت کرتے ہیں۔ زیادہ روکنے سے بچے مزید ضدی ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو اپنی مرضی کرنے دی جائے۔ اپنی مرضی کرنے میں بچے کچھ ایسے کام بھی کرجاتے ہیں جنہیں والدین اچھا نہیں سمجھتے۔ ایسی صورتِ حال میں بچوں کو مختلف قسم کی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے سے بچے وہ کام چھوڑ دیتے ہیں جس کی وہ ضد کررہے ہوں… جیسے کھلونوں سے کھیلنا، رنگ بھرنا، نظمیں سننا، بلاکس سے کھیلنا، پودوں کو پانی دینا، گھر سے باہر کی سیر کرنا، موقع کی مناسبت سے سرگرمی کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بچوں میں ضد کا یہ مزاج پانچ سال کی عمر تک برقرار رہتا ہے، اس دوران آپ اسے کم تو کر سکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے۔ مندرجہ بالا طریقے اپنائیں گے تو پانچ سال کی عمر تک پہنچے پہنچتے بچیوں کی ضد ختم ہو جائے گی۔

حصہ