عدل و انصاف کے نظام کی لاتعداد بنیادیں ہیں، اُن میں سے ایک بنیاد ایسی ہے جو تقریباً ہر عدالتی نظام میں اساسی حیثیت رکھتی ہے، وہ یہ ہے کہ ’’ملزم قانون کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے‘‘۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جس پر کسی جرم کا الزام ہے، وہ قانون کی نظروں میں اُس وقت تک معصوم رہتا ہے جب تک انصاف و قانون کے تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد اُسے مجرم ثابت نہیں کردیا جاتا۔ اسی لیے مقدمے کے دوران ہر طرح کے شک کا فائدہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا اعتراف ِ جرم بھی اُس وقت تک اُسے مجرم نہیں بناتا، جب تک وہ اپنے اس جرم کا واضح ثبوت فراہم نہ کردے، کیوں کہ عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے کو بچانے کے لیے جرم اپنے سر لے رہا ہو، یا اس اعترافِ جرم کی قیمت وصول کرچکا ہو۔
اسی اصول کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک اور اساسی تصور تمام ’’نظام ہائے عدل‘‘ میں ملتا ہے کہ ’’اگر سو گناہ گار بھی چھوڑنے پڑ جائیں، تو بھی ایک بے گناہ کو سزا مت دو۔‘‘ یہ دونوں اصول نہ صرف جدید دنیا کے ہر عدالتی نظام کا حصہ ہیں، بلکہ ایک روایت کے مطابق ان دونوں اصولوں کا مآخذ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات ہے۔ سیدنا علیؓ وہ شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں سیدالانبیاءؐ نے فرمایا ’’اقضاھم علی‘‘ یعنی فیصلے میں بہترین علیؓ ہیں۔
اسلامی شریعت میں اس قدر احتیاط اس وجہ سے رکھی گئی ہے کہ اسلام اس دنیا کو ’’دارِ جزا و سزا‘‘ نہیں سمجھتا، اور مکمل انصاف کے لیے آخرت پر یقین رکھنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی نظامِ انصاف اس قدر مکمل اور بے عیب نہیں ہے کہ وہ اس دنیا میں ہی کسی مجرم کو اس کے جرم کی مکمل سزا دے سکے۔ کئی سو لوگوں کو قتل کرنے والے کو اگر اذیتیں دے کر بھی قتل کردیا جائے، تو کیا ان سو قتل کیے جانے والوں کو انصاف مل جائے گا؟ اسی طرح ایک زنا بالجبر کرنے والے کو سنگسار بھی کردیا جائے، تو اس مظلوم عورت کی ذہنی اذیت ختم ہوجائے گی؟
اس کے علاوہ لاتعداد ایسے جرم ہیں جو دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت جرم ہی نہیں ہیں، مثلاً ایک شخص ہر روز مرغن کھانوں سے پیٹ بھر کر سوتا ہے اور اس کا پڑوسی کئی دن کے فاقوں کے بعد مر جاتا ہے، اس شخص کا پیٹ بھر کر سونا کسی قانون کے تحت جرم ہے اور نہ ہی پڑوسی کا بھوک سے مر جانا قتل کے زمرے میں آتا ہے۔
دنیا کا کوئی قانون اس شخص کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرتا، لیکن اُس کے اِس جرم کے لیے ہی تو آخرت میں ’’میزانِِ عدل‘‘ سجائی جائے گی۔ دنیا میں شریعت نے جو سزائیں بتائی ہیں وہ دراصل معاشرے میں امن و سکون اور مجرم کی فوری سرکوبی کے لیے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک صالح، نیک اور پُرامن معاشرہ تخلیق ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ زنا اور زنا بالجبر جیسے اخلاقی جرم کی سزا سب سے سخت بھی ہے اور ناقابلِ راضی نامہ بھی۔ یہی معاملہ چوری کا بھی ہے۔ قتل کی سزا قصاص ہے، لیکن اللہ نے معاف کرنے کو’’مقامِ احسان‘‘ سے قریب تر قرار دے کر معاشرے کو ایک ایسا راستہ دکھایا ہے کہ نسل در نسل’’قتل کے بدلے قتل‘‘ کی روایت کا خاتمہ ہوسکے۔ اسی لیے قصاص کو معاشرے کے لیے ’’زندگی‘‘ سے تعبیر کیا گیا، اور معاف کرنے کو آخرت کی بہترین زندگی کے لیے زینہ قرار دیا گیا ہے۔
ان دونوں اساسی نظریوں کو سامنے رکھا جائے تو آج کی دنیا میں رائج کوئی بھی نظامِ عدل معاشرے پر ایک بہت بڑی ذمے داری عائد کرتا ہے۔ جو بھی معاشرہ یہ ذمے داری ادا کرنے سے پہلوتہی کرتا ہے، اس کا نظامِ انصاف دفن ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ ذمے داری ہے بلا خوف ’’سچی گواہی‘‘ دینا۔
اللہ نے فرمایا ’’گواہوں کو چاہیے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں‘‘ (البقرہ:282)۔ یہی نہیں بلکہ گواہی چھپانے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا، فرمایا ’’اور گواہی نہ چھپائو اور جو اسے چھپائے گا وہ گناہ گار دل والا ہے۔‘‘ (البقرہ:283) ۔
اللہ کے رسولؐ نے تو جھوٹی گواہی کو کبیرہ گناہوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانا، ماں باپ کی نافرمانی، کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ (صحیح بخاری: 2653)۔
جو معاشرہ گواہی دینا ترک کردیتا ہے، اُسے چھپاتا ہے یا جن قوموں میں جھوٹی گواہی عام ہوجاتی ہے، وہاں سے انصاف رخصت ہوجاتا ہے۔ ان معاشروں کو اپنے اربابِ انصاف اور حکمرانوں سے انصاف کے مطالبے کا کوئی حق نہیں جہاں لوگ گواہی دینے سے کترانے لگیں۔
آج ہمارے ہاں انصاف اور عدل کی عمارت اسی لیے زمین بوس ہوچکی ہے کیوں کہ ہم بحیثیت قوم نہ سچے گواہوں کی تکریم کرتے ہیں اور نہ ہی اُن کا تحفظ کرتے ہیں۔ ہم خاندانی دشمنی کی بنیاد پر نسل در نسل قتل ہوتے جائیں گے اور اسے نبھاتے رہیں گے، لیکن سچی گواہی دینے کے لیے عدالت میں چند گھنٹوں کی قربانی دینا، دھمکیاں برداشت کرنا، یا جان سے جانا ہمیں ہرگزقبول نہیں۔ ہمارے پورے معاشرے میں ایسے افراد کو آج تک ایک ہیروکی صورت پیش نہیں کیا جاتا جنہوں نے صرف اور صرف انصاف کی خاطر اپنی جان کی پروا کیے بغیر گواہی دی اور ظالموں کے ہاتھوں جان سے گئے۔
یہ ہیں وہ لوگ جنہیں’’نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازنا چاہیے، جن کے خاندانوں کی کفالت ریاست کے ذمے ہونی چاہیے، جن کی تصویریں چوراہوں پر یادگار کے طور پر نصب ہونی چاہئیں۔ ان کے مقابلے میں جھوٹی گواہی دینے والوں کو معاشرے میں نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ ہم وہ قوم ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے جھوٹی گواہی ہماری گھٹی میں پڑ چکی ہے۔
متحدہ برطانوی ہندوستان میں، موجودہ پاکستان کے علاقے میں ایک ہی ہائی کورٹ تھی جسے ’’ لاہور ہائی کورٹ‘‘ کہتے تھے۔ اس عدالت نے چالیس کی دہائی میں ایک فیصلہ دیا کہ برطانوی قانون (Anglosaxon Law) کے تحت مرنے والے کا نزاعی بیان (Dying Declaration) قابلِ قبول ہوتا ہے۔ لیکن یہاں کے لاتعداد مقدمات سننے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہاں کے لوگ مرتے وقت بھی جھوٹ بولتے ہیں اور اپنے قتل کی ایف آئی آر میں بے گناہ دشمنوں کے نام شامل کرواتے ہیں۔ اس عدالتی مہرِ تصدیق اور ایسے ماحول میں یہ تصور رکھنا کہ یہاں سچی گواہی دینے یا گواہی کو نہ چھپانے والے کی معاشرے میں عزت ہوگی، ایک خودفریبی ہے۔
گزشتہ دنوں چند ایسے فیصلے سامنے آئے جنہوں نے ہمارے نظامِ انصاف پر ایک بار پھر لاتعداد سوال اٹھا دیے۔ ان میں مجید اچکزئی کا چوراہے میں کھڑے کانسٹیبل کو گاڑی تلے کیمروں کے سامنے روندنا، اور بلدیہ فیکٹری کا قتل عام شامل ہیں۔ جدید دنیا نے لاتعداد ایسے سائنسی طریقہ کار ایجاد کرلیے ہیں جن میں جرم اور مجرم کی شناخت ہوجاتی ہے۔ لیکن ان تمام سائنسی ثبوتوں کے ساتھ قانون کا ’’لاڈلا بچہ‘‘ عدالت میں اُس وقت تک آسانی سے کھیل سکتا ہے، جب تک موقع واردات پر موجود لوگ عدالت میں گواہی دینے کے لیے میدان میں نہ آئیں۔ دنیا بھر کی ویب سائٹس پر ایسی لاتعداد فوٹیج موجود ہیں جن میں جرم ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے، لیکن عدالت میں ان تمام فوٹیج کو تکنیکی بنیادوں پر رد کروایا جا سکتا ہے اگر ان کو انسانی گواہی کی تائید میسر نہ آئے۔ گواہ بھی ایسے ہونے چاہئیں جنہیں پولیس خود گھڑ کر نہ لائے، بلکہ وہ موقع واردات پر موجود عام آدمی ہوں۔ جس ملک میں روز بے شمار لوگوں کے سامنے لوگ قتل ہوتے ہوں اور نوّے فیصد سے زیادہ مقدمات پولیس کی مدعیت میں درج ہوں اور کوئی موقع واردات کا گواہ مدعی بھی بننے کو تیار نہ ہو، وہاں قانون کا لاڈلا بچہ ’’ملزم‘‘ ہی باعزت طور پر بری ہوتا رہے گا۔ جب تک ہم گواہی کو عام نہیں کرتے، گواہ کا تحفظ نہیں کرتے، سچے گواہ کی تکریم نہیں کرتے، ہم انصاف کی سیڑھی پر پہلا قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔