مائیں، بہنیں، بیٹیاں جنہیں قوموں کی عزت قرار دیا گیا ہے، اگر ان کی ہی عصمت و عزت کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں تو؟
ستمبر کے اوائل میں ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کے موقع پر اصلاح پسند طبقات اسلام کے نظامِ عصمت پر قوم کو تربیت اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی کی جانب سے مذاکرہ بعنوان ’’حجاب… تحفظ بھی، رحمت بھی‘‘ کا اہتمام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، لیکن اسی دوران لاہور اور کراچی میں خواتین اور کمسن بچیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے ایسے روح فرسا واقعات رونما ہوئے جنہوں نے کراچی سے خیبر تک خواتین اور ان کے سرپرستوں کو ہلا کر رکھ دیا اور معاشرے پر خوف کی فضا طاری ہوگئی۔
جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کی بالغ نظر قیادت نے محسوس کیا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ خواتین پر ظلم کے بڑھتے واقعات کے اسباب و عوامل پر گفتگو کی جائے، لہٰذا ’’تحفظ ہمارا حق‘‘کے عنوان کے تحت مذاکرہ منعقد ہوا۔
مذاکرے کا پینل اعلیٰ تعلیم یافتہ، مختلف شعبہ ہائے حیات میں سرگرم عمل باشعور خواتین پر مشتمل تھا۔ اس مذاکرے کی میزبانی ثناء علیم نائب ناظمہ کراچی اور شمائلہ نعیم نے کی۔ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں، امیر جماعت اسلامی کراچی انجینئر حافظ نعیم الرحمن کی اہلیہ ہیں اور ایک پُراعتماد اسپیکر بھی ہیں۔
وقتِ مقررہ پر مہمان اپنے ناموں سے آراستہ نشستوں پر تشریف فرما ہوئے۔ اسکرین پر خواتین کے مرتبے کو اجاگر کرنے والے ترانے اور ڈاکیومنٹری دکھائی جارہی تھی۔ نشستوں کے عقب میں کارڈ آویزاں تھے جن پر مجرموں کے لیے پھانسی دینے کے مطالبات درج تھے۔
سورہ نور کی منتخب آیات کی تلاوت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہدیہ نعت سے مذاکرے کا آغاز ہوا۔ ثنا علیم نے مذاکرے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس نشست میں ہم غور کریں گے کہ معاشرہ اخلاقی انحطاط کی جانب کیوں جارہا ہے، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالتیں اور حکومتِ وقت خواتین اور بچوں کو تحفظ دینے میں کیوں ناکام ہیں؟
جامعہ کراچی کی ہونہار طالبہ اور بلاگر مومنہ عقیل نے مذاکرے میں نوجوانوں کی نمائندگی کی۔ نوجوانوں میں حیا و حجاب کی صورتِ حال جاننے کے لیے ان سے مختلف سوالات کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شخصیت کا پہلا تاثر لباس سے پڑتا ہے۔ حجاب میں ہونے کا مطلب اعتماد سے محروم ہونا نہیں ہے۔ خاتون کا خود کو کور رکھنا اور مرد کا نگاہیں نیچی رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ اسلامی احکامات دونوں صنفوں کے لیے آئے ہیں۔ بولڈ ہونے کا مطلب ان کے نزدیک سوچ کے دائرے کا وسیع ہونا ہے۔
ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے مردوں کی تربیت پر بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں۔ کالم نگار، قلم کار اور صحافی افشاں مراد سے سوال کیا گیا کہ آج کے نوجوان کو آپ معاشرتی کشمکش میں کہاں کھڑا دیکھ رہی ہیں؟ اُن کا جواب تھا کہ نوعمری کے دور میں آکر ایک بچے کو بیرونی دنیا سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایک ماں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ بچے کے رجحانات کیا ہوتے جارہے ہیں، جو تربیت وہ گھر سے لے کر نکلا تھا، بدلتی دنیا تیزی سے اس پر حملہ آور ہے کہ وہ تربیت ناکافی نظر آرہی ہے۔ اگر اس کو سہارا نہ دیا گیا تو یہ نوجوان پُرتشدد اور شکستہ شخصیت میں ڈھلتے نظر آرہے ہیں۔
اس گفتگو نے مزید سوالات کو جنم دیا، جس کے لیے شمائلہ نعیم نے بینکر اور شاعرہ وضاحت نسیم کی جانب توجہ کی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ماں کے علاوہ معاشرہ تربیت میں کتنا شریک ہے؟ وضاحت صاحبہ نے کہا کہ والدین کے بعد خاندان تربیت کا بڑا ذریعہ ہے۔ ددھیال اور ننھیال مل کر شخصیت بناتے ہیں۔ خاندانی نظام کمزور پڑنے سے رونما ہونے والے خلا پر خاندان کے باہر کا سرکل اثرانداز ہورہا ہے۔
یہاں سے ڈاکٹر سمیعہ شعوانہ کو شاملِ گفتگو کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ بحریہ یونیورسٹی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں پیتھالوجی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاندان سے باہر دوست اور معاشرے کے دیگر عوامل اولاد پر دبائو ڈالتے ہیں، مثلاً اگر بچیوں کو کسی خاص ڈریسنگ سے روکا جائے تو جواب ملتا ہے کہ باقی سب بھی تو ایسا کررہے ہیں۔ ہماری نسل نے ان تک وہ سماجی اور مذہبی اقدار منتقل نہیں کیں کہ وہ اس دبائو کو ایک حد تک قبول کریں اور ہماری تربیت انہیں حدیں عبور کرنے سے روک لے۔ دوسرے یہ کہ آج ہر غیر اخلاقی ویب سائٹ ان کی پہنچ میں ہونے سے وہ ایسے مسائل سے دوچار ہیں جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ضروری ہے کہ والدین کو ان کے سماجی سرکل اور دوستوں کا علم ہو۔
جامعہ کراچی سے بائیو ٹیکنالوجی میں ڈاکٹریٹ افشین عارف سے استاد کے کردار پر بات کی گئی۔ ان سے سوال تھا کہ آج استاد کے مرتبہ ومقام میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ انہوں نے کہا کہ آج گھر ہو یا تعلیمی ادارے… رول ماڈلز کی کمی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ گنتی کے چند اساتذہ کو چھوڑ کر کوئی اپنے اصولوں سے مخلص نہیں ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک، تعلیمی اداروں میں نااہل بااثر طبقات کا نفوذ کرجانا بھی ہے، جس کے باعث جاب سیکورٹی کے خدشات بھی استادکو بے بس کردیتے ہیں اور وہ تربیتی رول ادا نہیں کرپاتا۔
یہاں مجرمانہ کردار کے حامل بااثر افراد کا کردار زیر بحث آیا اور میزبان نے افشاں سلیم جو وکیل اور ول فورم میں ریسرچ انچارج ہیں،کو شریکِ گفتگو کیا۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ملکی قوانین زیادتی سے متاثرہ خواتین اور بچوں کو انصاف دلانے میں کیا مدد فراہم کررہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ قوانین کے اطلاق کی صورتِ حال انتہائی شکستہ ہے۔ پہلے FIR تھانوں میں درج ہوتی تھی، جہاں بااثر افراد کا عمل دخل بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا قوت بن کر سامنے آیا ہے اور اب ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ہی جرم سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتا ہے، یعنی سمجھ لیا گیا ہے کہ جب تک سوشل میڈیا پر نہ آئے، قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت نہیں کریں گے۔ زیادتی کے کتنے ہی کیسز کو گھریلو تشدد میں ڈال کر قرار واقعی سزا سے مجرم کو بچا لیا جاتا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے نقائص ہائی کورٹ کے فیصلوں میں نظر آنے سے عدالتی نظام سے اعتبار اٹھ رہا ہے۔
فہمیدہ یوسفی Rava.pk کی کانٹینٹ ایڈیٹر ہیں۔ عورت اور بچے کے موضوع پر خصوصی کام کرتی ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا سوشل میڈیا پر ریپ کے جرم کی تشہیر ہونی چاہیے؟‘‘ فہمیدہ صاحبہ کا خیال تھاکہ اس تشہیر کے باعث ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ پڑتا ہے اور انصاف کی امید پیدا ہوتی ہے، مگر اس موقع پر میڈیا غیر اخلاقی رپورٹنگ کرکے منفی رجحانات میں مزید اضافے کا سامان کردیتا ہے۔
بات سوشل میڈیا تک پہنچی تو اگلا سوال بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اسریٰ غوری سے کیا گیا کہ زیادتی کے واقعات پر ہیجان انگیز رپورٹنگ معاشرے کے لیے کس حد تک مفید ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا واقعات کو غیر اخلاقی انداز سے اچھالتا ضرور ہے لیکن انصاف دلانے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ زینب کے واقعے پر جرم کی تشہیر کرتے ہوئے اتنے ڈرامے بنے کہ انہوں نے درجنوں ایسے واقعات کی بنیاد فراہم کردی۔ میڈیا ان نکات پر بات ہی نہیں کرتا کہ غلط رجحانات معاشرے میں آنے کے اسباب کیا ہیں۔ وہ ’’جلن‘‘ جیسے ڈرامے بناکر محرم رشتوں کو بھی متنازع بنارہا ہے۔ انہوں نے اہم نکتہ بیان کیا کہ اپنے لڑکوں کو بھی سکھائیں کہ اپنی عصمت کے بارے میں وہ بھی اللہ کے آگے جواب دہ ہیں۔
تحفظ اورانصاف کی عدم فراہمی سے خواتین پرکیا اثرات پڑ رہے ہیں؟ یہ سوال ماہر نفسیات اور ٹرینر بینش ضیا سے کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کے ساتھ بھی ہونے والے ایسے واقعات جان کر ہر عورت اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہے، خوف سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت گھٹتی ہے۔ خواتین میں نفسیاتی امراض میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ عمر کے ابتدائی سات سال اقدار کی منتقلی کے ہوتے ہیں، اس کے بعد کردار تشکیل پاتا ہے۔ اوائل عمری میں تربیت کی کمی کردار میں نظر آتی ہے۔ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں سے پڑھنے کے باوجود وہ سماجی رویوں میں ناقص ہوتے ہیں۔ انہوں نے تعلیمی نصاب میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت پر زور دیا۔
ثمینہ قمر جماعت اسلامی حلقہ خواتین کے میڈیا سیل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پھیلتی انڈسٹری میں خواتین کی شمولیت نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ اُن کا جواب تھا کہ انڈسٹریل انقلاب آیا توسرمایہ دار کو مزید لیبر کی ضرورت پڑی۔ خواتین کو باور کرایا گیا کہ سرمائے کا حصول آپ کا حق ہے اور معاشرے کوآپ کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ اور حفاظتی اقدامات کے بغیر خواتین کو گھروں سے باہر لا کھڑا کیا اور انہیں جسمانی تھکن ، گھر کی بے سکونی، اولاد میں تربیت کے فقدان اور تحفظ کے حوالے سے سنگین خطرات میں دھکیل دیا۔
صارم برنی ویلفیئر ٹرسٹ کی وائس چیئر پرسن عالیہ صارم سے خاتون کی عزت اور وقار کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ شمائلہ نعیم نے ان سے پوچھاکہ وہ خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی وضاحت کیسے کریں گی ؟ انہوں نے بات کی ابتدا قیام پاکستان کے وقت سے کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت مرد خواتین کی عصمت کی حفاظت کے لیے بے حد حساس اور مضبوط تھے، بعد کے ادوار میں مال و زر کی ہوس بڑھ گئی، پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حرام کھاکر جو نسل پروان چڑھے اُس میں اخلاقی جوہر کم ہی رہ جاتا ہے، اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ اس وقت وہاں کھڑا ہے کہ آج سگے رشتوں پر بھی اعتبار نہیں رہا۔ خواتین کی ضرورت ہے کہ انہیں ایسا ماحول دیا جائے جہاں ان کی عزت اور جان کو کوئی خطرہ نہ ہو، اور وہ آزادانہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں۔
اب تک تربیت، تعلیم، خاندان، میڈیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدالتوں سب ہی کا کردار سامنے آگیا۔ معاشرے کے اس درجہ بگاڑ کا حل کیا ہے؟ عورت عصمت کی پامالی کے خطرے سے کیسے نجات پائے گی؟ اورکب قوم کے لیے اعزاز قرار پائے گی؟ قیمتی گفتگو کا نتیجہ مرتب کرنے والے ان سوالات کے جواب کے لیے ثنا علیم نے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی کی ناظمہ اسما سفیر کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔ اسما سفیر نے تمام معزز شرکا کی آمد کو سراہا کہ ایک حساس موضوع پران کا جمع ہونا دلِ درد مند ہونے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نچلی سطح سے خواتین کو قرآن و سنت سے جوڑنے کے لیے گلی محلوں میں قرآن کی کلاسز اور دروس کا اہتمام کرتی ہے اور انہیں اسلامی اقدار پر قائم رہنے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ میڈیا کا بگاڑ کون درست کرے گا؟ نظامِ انصاف کے نقائص کون دور کرے گا؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کون قانون سکھائے گا؟ اس سب کی ذمے دار ریاست ہے۔ اقتدار کی قوت اُن کو سونپی جائے جن کے سینوں میں قرآن ہے، جب ہی جرائم پر قابو پایا جا سکے گا۔ ان کی گفتگو سے یہ شعر اپنے پورے مفہوم کے ساتھ آشکار ہورہا تھا:۔
تقاضا کر رہا ہے اب وطن کا ہر گلی کوچہ
یہاں جاری کسی صورت نظام مصطفی کر دو
آخر میں معروف ڈراما نویس حسینہ معین کا ویڈیو کلپ بھی دکھایا گیا جس میں خصوصی طور پر آج کے مذاکرے کے لیے انہوں نے پیغام دیا تھا۔ انہوں نے موجودہ دور میں انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں عورت کی تذلیل پر دلی رنج کا اظہار کیا۔ شمائلہ نعیم کے اختتامی کلمات اور دعا کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا عزم رکھنے والی متحرک اور باشعور خواتین کا یہ مذاکرہ اختتام پذیر ہوا۔