عالمی طاقت بننے اور پوری دنیا کی سیاست، معاشرت اور معیشت پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کرنے کا خواب، گزشتہ ایک صدی سے مسلم امہ کے مرکزی علاقوں کے دونوں کناروں پر آباد نوزائیدہ ممالک بھارت اور اسرائیل دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ اسرائیل کو ’’نوزائیدہ‘‘ لکھنے پر حیرت نہیں ہوئی ہوگی، لیکن بھارت کو نوزائیدہ لکھنے پر سوال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے پروپیگنڈے نے بھارت میں بسنے والے ہندوئوں کو خصوصاً اور دنیا بھر کے عوام کو عموماً یہ باور کروایا ہے کہ ہمالیہ کے دامن میں آباد برصغیر کئی ہزار سال سے ایک متحدہ وطن رہا ہے۔ یہ وہ تاریخی جھوٹ ہی ہے جس کی بنیاد پر ایک بھارت دیش اور ’’ہندوتوا‘‘ کا تصور کھڑا کیا گیا۔
پانچ ہزار سالہ تاریخ میں صرف ڈھائی سو سال موریا اور گپتا کے نکال دیے جائیں تو پورا ہندوستان پانچ سو سے لے کر ایک ہزار تک چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ملغوبہ تھا، جن کے راجے مہاراجے ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکومت میں بھی کبھی مکمل ہندوستان (موجودہ شکل والا) ایک ملک یا سلطنت کی حیثیت سے نہیں رہا۔ انگریز نے ایک نوآبادیاتی سلطنت کے طور پر اسے منظم کیا اورپہلی دفعہ ایک جھنڈا، ایک فوج، ایک کرنسی، ایک نظامِ تعلیم اور ایک عالمی طاقت کی غلامی میں اسے ایک ملک بنادیا۔ جو کام انگریز نے کیا وہ تو ویدوں میں مذکور ہندو دیوتا اور اوتار بھی نہیں کر پائے تھے۔ انگریز جنگِ عظیم دوم کے بعد جب واپس جزائر برطانیہ کی حدود میں سکڑا تو ہندوستان کو ورثے میں ملنے والی ان 565 ریاستوں میں تقسیم کرکے نہیں گیا بلکہ ایک متحدہ بھارت کا پرچم جواہر لال نہرو کے ہاتھ میں تھما کر گیا۔ اس متحدہ ملک کی منتقلی نے اُس ہندو توا تحریک کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی جو چالیس سال سے ’’شدھی‘‘ اور ’’سنگٹھن‘‘ سے شروع ہوکر ’’راشٹریہ سیوک سنگھ‘‘ اور ’’بجرنگ دل‘‘ کی کوکھ میں پروان چڑھ رہی تھی۔
تقسیم کے بعد کے ستّر سال کی محنت سے اب ہر بھارتی بچے، جوان اور بوڑھے کے دماغ میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ آج کا بھارت دراصل صدیوں سے ایسے ہی تھا اور یہی دیوتائوں کی زمین تھی جسے باہر سے آنے والے مسلمانوں نے بھرشٹ (ناپاک) کردیا ہے۔
مشرق کی سمت بھارتی ہندوئوں کو ایک قومی ریاست کی صورت مستحکم کیا گیا، اور مغرب کی سمت یہودیوں کو پوری دنیا سے لاکر آباد کرکے اسرائیل کی ایک قومی ریاست بنادی گئی۔ اسرائیل تو شروع دن سے یہودی مذہبی قومیت والی ریاست کے طور پر وجود میں آیا، مگر بھارت اپنے آغاز میں ایک سیکولر ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا۔ لیکن جیسے ہی صہیونیت 1920ء کے عشرے میں پھیلنا شروع ہوئی، ویسے ہی اسی عشرے میں ’’ہندوتوا‘‘ کا نظریہ بھی بھارت میں مقبول ہونا شروع ہوا اور اس تنظیم کی کوششوں سے آج بھارت اپنی تمام تر صفات و خصوصیات کے اعتبار سے ایک ہندو مذہبی ریاست بن چکا ہے۔ حیران کن مماثلت یہ ہے کہ اسرائیل میں تقریباً 17فیصد مسلمان اقلیت میں ہیں، اور بھارت میں بھی مسلمانوں کی تعداد 17 فیصد کے قریب ہی ہے۔ یہ دونوں ملک اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہی دونوں وہ محاذِ جنگ ہیں، جن کی نشاندہی سید الانبیاءؐ کی احادیث میں زمانۂ آخر کی بڑی جنگوں میں ملتی ہے، جو مسلم امہ کو بحیثیت ’’امت‘‘ لڑنی ہیں۔
تازہ ترین مماثلت دیکھیے کہ 2017ء میں بھارت اور اسرائیل میں دوعلیحدہ علیحدہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں میں دونوں ملکوں کے عوام کے سامنے ایک ایسے ’’عظیم ہیرو‘‘ کا تصور پیش کیا گیا جو انہیں ماضی کی عظمتوں سے ہم کنار کردے گا اور معیشت، معاشرت اور سیاست کے میدانوں میں ان کا عالمی اقتدار قائم کرے گا۔ اسرائیل میں ریلیز ہونے والی فلم کا نامA New Spiritتھا، جبکہ بھارت کی فلم کا نام ’’وشو گورو‘‘ تھا۔
یہودیوں کے ہاں تو عظمتِ رفتہ کی بحالی اور حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ والی عالمی حکومت کی پیش گوئیوں کا تسلسل پہلے سے موجود تھا اور ان کے آنے والے ’’مسیحا‘‘ کا تذکرہ بھی لاتعداد فلموں میں کسی نہ کسی حوالے سے مل جاتا تھا، مگر اس تازہ اور موضوع پر مکمل فلم نے وہاں ایک جشن کا سماں پیدا کردیا۔ تل ابیب اور یروشلم کے بازار اس کے پوسٹروں اور بل بورڈوں سے آراستہ ہوگئے اور ٹیلی ویژن کی خبروں میں 13 منٹ لمبا تبصرہ اس پر نشر کیا گیا۔ اس فلم نے گزشتہ چار سال سے اسرائیلی معاشرے میں ایک ایسی بحث کو جنم دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب ایسی کئی فلمیں، کتابیں اور ڈاکومنٹریاں وجود میں آئیں گی جو آنے والے ’’مسیحا‘‘ کے لیے پوری یہودی قوم کو تیار کریں گی۔
’’وشو گورو‘‘ یوں تو ’’ملیالم‘‘ زبان میں بننے والی فلم تھی لیکن اس کے تصور نے پورے بھارت کو یکدم اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہاں تک کہ نریندر مودی نے اعلان کیا کہ ہم بھارت کو ’’وشو گورو بھارت‘‘ بنائیں گے۔ وشو گورو کا مطلب ہے ’’پوری دنیا کا استاد‘‘۔
بھارت کی عالمی سیاست و معیشت پر بالادستی کا تصور ’’سوامی وویک نند‘‘ نے 1880ء کے آس پاس پیش کیا تھا۔ اسی نے ویدانت اور یوگا کے فلسفوں کو مغربی دنیا میں عام کرکے ہندو مذہب کو عالمی مذاہب کی صف میں لاکھڑا کیا، ورنہ اس سے پہلے ہندو مذہب کی اہمیت ایک تہذیبی روایت جیسی تھی۔ ہندو ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے اسی تصور کو رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اپنے لیکچروں میں ’’مشرق کی واپسی‘‘ جیسے عنوانوں میں سمویا، جب کہ سول سروس کا ایک سابق آفیسر ’’سری اورویندو‘‘ جب نوکری چھوڑ کرہندو روحانیت کی طرف مائل ہوا تو اُس نے بھی بھارت کے روحانی اور معاشرتی ورثے کو پوری دنیا پر غالب کرنے کا تصور دیا۔
’’وشو گورو‘‘ فلم بھی دراصل1855ء میں پیدا ہونے والے ’’سری نارائن گرو‘‘ کی زندگی اور تصورات کے گرد گھومتی ہے۔ پہلے والے تینوں فلسفی، سوامی اور روحانی شخصیات یعنی وویک نند، ٹیگور اور اورویندو بنگال سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ سری نارائن گورو کا تعلق ہندوستان کے جنوب مغربی کونے میں واقع ریاست ’’ٹیراون کور‘‘ سے تھا۔ ان تمام شخصیات نے یہ تصور پیش کیا کہ ایک دن دنیا اپنے معاشی، سیاسی، تہذیبی اور روحانی میدانوں میں بھارت کو اپنا گرو مان لے گی۔ اس عالمی بالادستی کو ’’وش گرو‘‘ یعنی دنیا (Universe) کا گرو کہا جائے گا۔ ’’وشو‘‘ ہندی زبان میں ہماری کائنات کو کہتے ہیں۔ تصور دراصل یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام طاقتیں بھارت کو رہنما لیڈر اور قائد تسلیم کرلیں گی۔
بھارت میں وشوگرو بننے کا خواب دیکھنے کی تاریخ یہودیوں کی طرح پرانی نہیں ہے۔ اس طرح کے تمام تصورات 1857ء کے بعد ہندوئوں میں اُس وقت پیدا ہونے شروع ہوئے جب انگریزوں نے صدیوں سے راجائوں، مہاراجائوں کی ریاستوں میں تقسیم بھارت کوایک قومی ریاست کی شکل دے دی۔ جب ایک منظم وطن کی صورت ملک نظر آیا تو 1920ء کے آس پاس ہی سوامی دیانند سرسوتی کی شدھی، مدن موہن مالویہ کی سنگٹھن، ساوریکر اور گول وارکر کی راشٹریہ سیوک سنگھ نے اس ملک پر برطانوی یونین جیک کی جگہ سیکولر ترنگے کے بجائے ہندو ’’زرد‘‘ پرچم لہرانے اور انگریزی قانون کی جگہ ’’منو سمرتی‘‘ نافذ کرنے کی باتیں شروع کردیں، اور اس کے ساتھ ہی بھارت کو عالمی قیادت بننے کے خواب بھی دکھائے جانے لگے۔
ایک طرف متشدد، متعصب اور اسلحہ سے لیس’’آر ایس ایس‘‘ شروع ہوئی اور دوسری طرف ٹیگور نے پُرامن چہرے کے ساتھ بھارت کو دنیا بھر کا ’’استاد‘‘ (Guru) بنانے کے لیے جو ادارے بنائے وہ سری اورویندو کے ’’گرو کلا‘‘ کے تصور جیسے تھے، جن کا مقصد یہ تھا کہ اگر دنیا کے تمام علوم پر بھارت کی ہندو دانش اور روحانیت کو غالب کردو گے تو خودبخود پوری دنیا پر بھارت کا سیاسی اور معاشی اقتدار قائم ہوجائے گا۔
مراکش سے لے کر پاکستان بلکہ بنگلہ دیش تک یہ دونوں ممالک آج اپنے اپنے آنے والے ’’مسیحائوں‘‘ کے پرچم لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ دونوں بظاہر بات تو علم، روحانیت اور معیشت کی کرتے ہیں لیکن تیاریاں جنگ کی کررہے ہیں، یعنی عسکری قوت میں اضافہ کررہے ہیں۔ کیا خوب محاورہ ہے ’’بغل میں چھری، منہ میں رام رام‘‘۔ ان دونوں ملکوں کی یہ عسکری قوت ہی تو ہے جس کا مقابلہ ان دو مسلمان لشکروں سے ہوگا، ایک ’’غزوۂ ہند‘‘ والے اور دوسرے ’’عیسیٰ ابن مریم‘‘ والے۔ اور دونوں کو میرے آقاؐ نے جنت کی بشارت دی ہے۔