ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں اپنا اثررسوخ بڑھایا تو زندگی کے انداز و اطوار بدلنے لگے، گفتگو کا سلیقہ بھی! جس آزاد دنیا کی ٹیکنالوجی تھی اُنھی کی تہذیب بھی کھسکتی ہوئی ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی۔ انسان نے ان مشینوں سے دوستی کی تو ان سے برق رفتاری بھی سیکھ لی، یا اپنی اقدار اور قیمتی میراث کو بھی داؤ پر لگا کر ہوا کے گھوڑے پر اُڑنے لگا۔کہاں تو انسانوں کے باہمی روابط میں اتنے ادب و آداب کے سابقے اور لاحقے تھے کہ ان میں سے مسمی یا مسمات کو تلاش کرنا کارِ دارد تھا، اور کہاں ایسی برق رفتاری کہ آپ کو مخاطب کی بات سمجھنے کے لیے بھی دس بار سر کھجانا پڑے۔
ذکر ہورہا ہے دورِ جدید کی انتہائی کارآمد اور مفید ٹیکنالوجی موبائل یا سیل فون کا، جس کی جدت میں حیرتوں کے سمندر آباد ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں پاکستان میں پہلا موبائل فون متعارف ہوا، جو چند خواص کے ہاتھوں تک ہی پہنچ پایا۔1990ء کی دہائی عبور کرنے سے پہلے ایک اور کمپنی اس میدان میں کود پڑی۔ اس سے پہلے فاصلوں کو کم کرنے اور رابطے بڑھانے کے لیے ٹیلی فون ہی بڑا ذریعہ تھا۔
موبائل میں گفتگو کے علاوہ تحریری پیغام ارسال کرنے کی سہولت بھی تھی، اگرچہ پیغام کے الفاظ کی حد قائم تھی اس لیے پیغام انتہائی مختصر الفاظ میں لکھا جاتا، اور ابتدا میں اسی اختصار نے لوگوں کو مخفف لکھنے کی جانب مائل کیا۔ اس پر مستزاد لکھائی کا تختہ بھی انگریزی میں تھا اور زبان بھی انگریزی۔ اگر آپ کو تحریری پیغام بھیجنا ہے تو تحریر بھی اسی بدیسی زبان میں ہوگی۔
بیسویں صدی کے آخر میں پاکستان میں خواندگی کی شرح بہ مشکل چالیس فیصد تھی، جن میں وہ افراد بھی تھے جنہیں محض اپنا نام لکھنا آتا تھا، تو پھر موبائل پیغام رسانی کے لیے غیر ملکی زبان میں پیغامات کیسے لکھتے؟ تو اس کا آسان حل یہی نکلا کہ اردو کو انگریزی یعنی رومن رسم الخط میں تحریر کرلیا جائے۔ ایک جانب زبان بدیسی اور دوسری جانب الفاظ کی بندش۔ اگر الفاظ کی تعداد مطلوبہ حد سے ذرا سی باہر نکلتی تو صارف کی جیب پر ایک اور پیغام کی اضافی قیمت کا بوجھ پڑ جاتا۔ ہمارے عوام نے کسی اور مد میں بچت کی ہو یا نہ کی ہو، مگر اس حوالے سے بچت کے سارے طریقے اور داؤ پیچ آزما لیے، گویا ان بچتوں سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضے ادا کرکے ہم خودمختار قوم بن جائیں گے اور پھر ہمارے سارے قومی فیصلے باہر سے دباؤ کے نتیجے میں مسلط ہونے کے بجائے ہمارے ملک میں کیے جائیں گے ’’حقیقی ملکی مفاد‘‘ میں! پیغامات کے اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض صارفین تو ادب اور احترام تک بھول گئے، اور وہ گھرانے بھی جہاں بآوازِ بلند سلام کیے بغیر اندر داخل ہونے والے بچے کو سزا کے طور پر باہر بھیج دیا جاتا تھا، کہ صحیح طریقے سے اندر آؤ، وہاں تحریری پیغامات کچھ یوں موصول ہونے لگے:۔
’’لاہور پہنچ گیا۔‘‘
’’امتحان ختم، اچھا۔‘‘
’’ماما بیمار، دوا لی‘‘۔ (یہ سب رومن میں)۔
ادب احترام کی روایات کے پاسداروں نے شور مچایا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ تو جواب میں انہیں نئی ٹیکنالوجی کے ادب میں سپر ڈالنے کا مشورہ ملا، اور جب وہ محاذ پر ڈٹے رہے تو ایک نئی راہ نکال لی گئی۔ السلام علیکم، ’’اے او اے‘‘ بن گیا، وعلیکم السلام ’’ڈبلیو اے کے ایس‘‘ بن گیا، جزاک اللہ ’’جے زیڈ کے‘‘ اور ان شاء اللہ ’’آئی اے‘‘ اور ما شاء اللہ ’’ایم اے‘‘ کی صورت میں ڈھل گیا، اور یہ وبا اتنی تیزی سے پھیلی کہ بڑے بڑے لوگ اس کا شکار ہوگئے۔ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ الفاظ کی تخفیف میں بڑے بڑے الفاظ اس طرح سکڑ گئے جیسے کسی نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ بہتا ہوا پانی شاید کوزے میں حبس اور بساند محسوس کرتا ہو، تبھی الفاظ سے ان کی روایتی خوشبو ہی عنقا ہوگئی۔
بات کرنے کا حسین طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
اردو انگریزی لیٹرز یعنی رومن رسم الخط جسے ’’منگلش‘‘ کے جدید نام سے پکارا گیا، کو اختیار کرنے سے اردو لکھائی کا حسن دیکھنے کو آنکھیں ترسنے لگیں۔
کہیں دور سے آواز سنائی دی کہ موبائل میں اردو تختہ کا اختیار بھی موجود ہے اور اپنی پسند کی زبان کو اس کے رسم الخط میں بڑی آسانی سے تحریر کیا جا سکتا ہے۔ اب موبائل کی دنیا بھی وسعت اختیار کر چکی ہے، واٹس ایپ، میسنجر، آئی ایم او، اور بوٹم کے علاوہ بھی رابطے کے کئی آئی کونز موجود ہیں۔ ان سب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں لفظوں کو گن کر کوئی آپ کا منہ بند نہیں کرواتا، آپ بولیے یا لکھیے اور خوب دل کے ارمان نکالیے۔
جب یہ سب میسر آگیا تو اردو زبان کے رکھوالوں اور محبت کرنے والوں نے آواز لگائی: پیارے پاکستانی عوام، اپنی زبان بولو اور اپنے رسم الخط میں لکھو۔ بزرگوں کو تو پھر بھی اردو لکھنا پڑھنا آتا ہے، مگر نئی نسل کی بڑی تعداد رومن لکھائی کی اتنی عادی ہوچکی ہے کہ انہیں واپس لانے میں بڑی تگ و دو کرنی پڑے گی۔
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
ہمارے نوجوانوں میں جذبۂ حب الوطنی موجود ہے، چند دن پہلے یومِ آزادی پر پاکستان سے محبت کا ثبوت سب نے اپنے اپنے انداز میں دیا ہے۔ ہمارا نوجوان ’’بلیڈ گرین‘‘ کی علامت کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسّی برس تک کے ان سب نوجوانوں سے درخواست ہے کہ جس طرح پاکستان کا جھنڈا اس کے وجود کی نشانی ہے، اس کی قومی زبان اردو اور اس کا نستعلیق رسم الخط بھی پاکستان کی پہچان ہے۔ دنیا میں کئی زبانیں ایسی ہیں جن کا رسم الخط ہی موجود نہیں، جیسے انگریزی رومن رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری زبان دنیا کی ایک خوب صورت زبان ہے، اس کو بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔ اس کا ادب ایک ہزار سال کی تاریخ رکھتا ہے، یہ معاشرت کی زبان بھی ہے اور دین سمجھانے کی بھی۔
ہم اس زبان کو اجنبی نہ بننے دیں، بلکہ اردو زبان ہمارے وطن کی پہچان رہے، اس سال ہم اپنے روابط کو اردو زبان کے فروغ کا ذریعہ بنائیں۔