مشکل

366

ہم اسکول میں بچوں کا رزلٹ لینے موجود تھے۔ گل کے نتائج تسلی بخش تھے، بلکہ اس کی کارکردگی میری توقع سے بڑھ کر تھی۔ ہم کویت سے دو ماہ قبل ہی اسلام آباد منتقل ہوئے تھے۔ خوش قسمتی سے بچوں کو اچھے تعلیمی ادارے میں داخلہ مل گیا تھا۔ باقی مضامین میں تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر بیٹا اردو میں کچھ کمزور تھا، کیوں کہ وہ چار سال کویت کے اسکول میں پڑھا تھا، جہاں اردو کا مضمون نصاب میں شامل نہیں تھا۔
وہ مجھ سے کئی الفاظ کا املا پوچھتا رہتا، البتہ ٹیسٹ کے نمبر مجھے نہیں دکھاتا تھا، بلکہ ٹیسٹ کے نمبروں پر کاغذ رکھ کر مجھ سے دستخط کرواتا، اور میں محض اُس کی دل جوئی کی خاطر کردیتی۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا: امتحان ہوگا تو ایک بار ہی دیکھ لیجیے گا۔ اور آج بھی سب مضامین کے اساتذہ سے مل چکی تھی اور اب سب سے آخر میں اردو ٹیچر کے پاس لے جارہا تھا۔
دروازے پر پہنچ کر وہ کچھ ہچکچایا اور ہولے سے بولا ’’آپ اکیلے ہی چلی جائیں ناں۔ میں گاڑی میں جاکر بیٹھتا ہوں۔‘‘
مجھے اس کی عرق آلود پیشانی دیکھ کر اس پر ترس آگیا۔ میری آنکھوں میں ترحم دیکھ کر وہ فوراً ہی باہر کی جانب بھاگا اور میں مس شانزے کے پاس!
یہ ایک بزرگ استانی تھیں، مجھے دیکھ کر انہوں نے کوئی خاص خوشی کا اظہار نہ کیا۔ گل کا پرچہ میرے ہاتھ میں تھما کر وہ اس کی اغلاط کے بارے میں بیان کرنے لگیں۔ پھر اچانک بولیں ’’بڑا اچھا بچہ ہے، تمیزدار بھی ہے اور محنتی بھی، لیکن… میں نے آپ کو اس کی کاپی بھیجی تھی دستخط کرنے کے لیے۔ آپ کیا کہتی ہیں اس معاملے میں؟‘‘
اور میں ذہن پر زور ڈال رہی تھی کہ کون سا معاملہ؟ یقینا اس نے کاغذ رکھ کر مجھ سے دستخط کروائے تھے، مگر کیوں؟
مس شانزے عجیب کشمکش میں بولیں ’’یہ دیکھیے اس نے پرچے میں بھی وہی جملہ بنایا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا وہ میرے ساتھ ایسا کیوں کرتا ہے…؟‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ میں پرچے پر جھک گئی۔ محاورات کے جملے بنانے تھے۔ پانچویں نمبر کا محاورہ تھا:
’’منہ نہ لگایا‘‘ جس کے سامنے جملہ لکھا تھا ’’گھوڑی نے گھاس کو منہ نہ لگایا‘‘، جسے انہوں نے ڈبل انڈر لائن کیا ہوا تھا۔ ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گھوڑی ہی کے جملے کیوں بناتا ہے!‘‘ میں نے ان کی جانب دیکھا، وہ عمر رسیدہ خاتون تھیں، کپڑے شوخ رنگ کے زیب تن کر رکھے تھے، حتیٰ کہ لپ اسٹک بھی شوخ رنگ۔
مجھے کچھ مزید کہے سنے بغیر ہی بیٹے پر سخت غصہ آیا، جس محاورے نے میرا دماغ پگھلا دیا تھا وہ ’’بوڑھی گھوڑی لال لگام تھا‘‘۔ گل ایسے جملے بناکر ان کی توہین کررہا تھا۔
میں ان سے معذرت کرکے تیز قدموں سے گاڑی تک پہنچی۔ آج مجھے گل کی خوب خبر لینی تھی۔ اسے استاد کے وقار کا ذرا بھی خیال نہیں! میں نے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور پرچہ اس کے سامنے لہرایا ’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’مجھے پتا ہے جملہ غلط ہے، مجھے محاورات نہیں آتے۔ بس مجھے جو سمجھ آیا اس کا جملہ بنا دیا۔‘‘
’’لیکن گھوڑی ہی کیوں، کوئی اور جانور کیوں نہیں… گھوڑا کیوں نہیں؟‘‘میں طیش میں چلّائی۔
’’وہ… وہ… یہ نہیں معلوم تھا کہ ’’گھوڑا‘‘ ہوتا ہے یا ’’گھوڑہ…‘‘ گھوڑی کی املا درست آتی تھی اس لیے…‘‘ وہ اسی معصومیت سے بولا۔ اور میری کیفیت شادیِ مرگ کی سی تھی۔

حصہ