آخری حصہ
۔”دانی آؤ۔۔۔دانی آؤ ۔۔۔“یہ سن کر دانی کے ہوش اُڑ گئے، یہ آواز تو اس کے پالتو طوطے کی تھی۔ پر وہ یہاں کیسے پہنچا؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ طوطے کی نظر اس پر پڑى اور ديکھتے ہى دیکھتے وہ ایک اڑان بھرتے ہوئے دانى کو اپنی بڑی سی نوکدار چونچ میں اٹھا کر لے اڑا، سب پرندے بھی اس کے پیچھے ہولیے۔ اسکول کے سب لڑکے شور مچا رہے تھے، مگر طوطا اڑان بھر چکا تھا اور سب کی نظروں سے اوجھل ہونے میں کامياب بھی ہوگیا۔
طوطا، دانی کو جنگل کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑے پنجرے میں لے آیا۔ دانی کا رنگ فق تھا، وہ زور زور سے رونے لگا۔
طوطے نے دانی کو روتے دیکھا تو کہا ”دانی میاں ہم تو تمہارا کب سے انتظار کررہے تھے۔ رو کیوں رہے ہو، تمہارے استقبال کے لیے تمہارے پسندیدہ چیری، اسٹرابیری اور انگور جمع کررکھے ہیں۔ تم انہیں کھاؤ اور آرام سے یہاں رہو۔ اب یہی تمہارا گھر ہے۔ ہم تمہارا ہر طرح سے خیال رکھیں گے،تم اب ہمارے پاس ہی رہو گے۔“طوطے کی باتیں سن کر دانی چکرا گیا۔۔۔ تمام پرندے پنجرے کے باہر کھڑے اسے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ وہ سرکس کا کوئی جانور ہو۔ دانی کو اپنے پسندیدہ پھل بھی اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ شام ہونے کو آئی تھی۔ اس نے پنجرے میں چکر کاٹ کر دیکھا کہ شايد باہر نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ مگر ناکام رہا۔۔ آخرى کوشش کے طور پر اس نے تنگ آکر پنجرے کی لکڑیوں کو زور لگا کر توڑنے کی کوشش کی، مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ دانی نے طوطے کی منت سماجت شروع کردی ”پیارے طوطے مجھے جانے دو، میرے امی ابو بہت پریشان ہوں گے۔ وہ مجھ سے بے حد پیار کرتے ہیں اور میرے بغیر رہ نہیں سکتے۔“طوطے نے کہا ”ہم بھی تو تمہارے گھر رہتے تھے، اب تمہاری باری ہے۔ ہم تمہارا بہت خیال رکھیں گے۔ تم بے فکر ہو کر یہاں ٹھیر جاؤ۔دانی میاں نے روہانسی آواز میں کہا: ”مگر پیارے طوطے یہ میرا گھر تو نہیں ہے، مجھے اس طرح کے گھر میں رہنے کی عادت نہیں، مجھے اپنے گھر والوں کی یاد ستا رہی ہے۔ مجھے آزادی سے چلنے پھرنے کی عادت ہے، اس پنجرے میں میرا دم گھٹ رہا ہے“۔دانی میاں کا جواب سن کر طوطے کو بھی غصہ آگیا، وہ چلاّتے ہوئے کہنے لگا:”ہمیں بھی آزاد فضا میں اڑنے کی عادت تھی، ہمارا بھی جنگل میں گھر تھا، ہمارے بھی گھر والے ہم سے پیار کرتے تھے، ليکن تم انسانوں نے ہمیں پکڑکر قید کردیا، اور ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کردیا جو ہمیں بالکل پسند نہ تھی۔ اب ہم تمہیں بھی اپنی قید میں رکھیں گے تاکہ تمہیں ہمارے دکھ کا احساس ہو۔“
طوطے کی چیخ پکار سن کر تمام پرندے بھی شور مچانے لگے۔ دانی کے کانوں کے پردے پھٹنے لگے تھے۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ ديے اور زور زور سے چّلانے لگا ”مجھے معاف کردو… خدا کے لیے مجھے معاف کردو۔ میں اب کسی پرندے کو قید نہیں کروں گا۔ مجھے آزادی کی اہمیت معلوم ہو گئی ہے، مجھے جانے دو ۔“
دانی میاں کے چیخنے چلاّنے کی آوازیں سن کر اس کے بابا جان اور امی جان دونوں دوڑے چلے آئے۔”کیا ہوا دانی بیٹا، آپ رو کیوں رہے ہیں؟ کس سے باتیں کررہے تھے آپ؟“
دانی میاں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں تھے۔ امی ابو کو سامنے کھڑا ديکھ کر دانی میاں حیران ہوئے۔
”امی جان کیا میں کیمپنگ پر نہیں گیا؟“دانی نے ان سے پوچھا۔
”نہیں دانی بیٹا، آپ رات کھانا کھا کر جلدی سو گئے تھے۔ میں آپ کو اٹھانے ہی والی تھی کہ آپ کے چلاّنے کی آواز سن کر دوڑ کر یہاں پہنچی“۔”اس کا مطلب ہے میں کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہا تھا؟“ دانی حیرت زدہ تھا۔پھر دانی نے انہیں اپنا پورا خواب سنایا تو بابا جان مسکرا دئيے اور کہنے لگے:”دانی بیٹا یہ سچ ہے کہ آپ اپنے پرندوں سے بے حد محبت کرتے ہیں اور ان کا بہت خیال رکھتے ہیں، پر یہ بھی سچ ہے کہ پرندوں کا اصل گھر تو درختوں اور جنگلوں میں ہوتا ہے۔ انجانے میں ہی سہی آپ نے پنجرے کی قید میں رکھ کر ان پرندوں کو ناخوش کيا۔ آپ ایک اچھے اور نیک بچے ہیں اسی لیے خواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس غلطی کی طرف اشارہ کیا ہے، کیونکہ کسی بھی جاندار کو قید میں رہنا پسند نہیں، چاہے وہ انسان ہوں یا پرندے… اس لیے ان پرندوں کو آزاد کردینا ہی ٹھیک ہے“۔
بابا جان نے اپنے لاڈلے بیٹے کو بہت پیار سے اس کے خواب کی تعبیر سمجھائى۔”تو بابا جان اگر میں ان سب پرندوں کو آزاد کردوں گا تو کیا وہ مجھ سے ناراضی ختم کردیں گے؟“ دانی نے بابا سے معصومیت سے پوچھا۔
”کیوں نہیں دانی بیٹا ضرور، وہ راضی بھی ہوں گے اور دعائیں بھی دیں گے“۔ بابا جان نے يقين دہانى کروائی تو دانی میاں اچھل کر فوراً بستر سے نیچے اترتے ہوئے بولے ”پھر تو بابا جان میں کیمپنگ پر جانے سے پہلے ہی تمام پرندے آزاد کردیتا ہوں“۔
اس کے بعد دانی نے اپنے بابا جان اور امی جان کی مدد سے طوطے سمیت تمام پرندوں کے پنجرے کھول کر انہیں آزاد کردیا۔
خوشی سے چہکتے تمام پرندے پنجرے سے فوراً نکل کر آزاد فضاؤں میں اڑ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔دانی میاں کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر اب کى بار یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ آج دانی نے پرندوں کو آزادی دے کر وہ سچی خوشی پائى تھی جو اس سے پہلے اُس نے کبھى محسوس نہ کى تھى اور وہ حقيقتاً آزادى کی اہمیت کو جان چکا تھا۔