وزیراعظم کے ایک سو ارب روپے

411

کراچی والوں کو اب اور مزید کیا چاہیے ؟ملک کی معیشت چلانے کے لئے کم و بیش 62 فیصد سے زیادہ ٹیکس ریونیو دینے والے اس شہر کے مکین ایک عرصے سے مطالبات کر رہے تھے کہ وفاق کی جانب سے اضافی رقم دی جائے تاکہ اس شہر کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاسکے –
کیونکہ یہاں کی سندھ حکومت اور خیر سے بلدیاتی حکومت یہاں کی ترقی کے لئے جو بجٹ منظور کرواتی ہے وہ ان حکومتوں کے شکم کی آگ ٹھنڈا کرنے میں خرچ ہوجاتی ہے –
ان طوفانی اور جا ن لیوا بارشوں میں جس قیامت کی تباہی ہوئی اور اکتالیس سے زیادہ انسانی جانیں کام آئیں ،یہ مطالبہ شدت اختیار کرگیا ، سیلا ب کی تباہ کاریوں ، کوروونا کی وبا میں بیروزگار یوں اور روپے کی مٹی میں ملتی بے وقعتی نے کراچی والوں کی چیخیں نکال دیں – ماضی میں خان صاحب سے کبھی دو سو ارب روپے کی ڈیمانڈ کی جاتی تو کبھی پانچ سو ارب کی رقم کی ، آخری مرتبہ یہ مطالبہ جماعت اسلامی کی لیڈر شپ نے کیا تھا کہ کراچی کی ترقی ، ماس ٹرانزٹ پروگرام ، سرکلر ریلوے کی بحالی کے لئے کم از کم پانچ سو ارب روپے فراہم کیے جانے چاہئیں ، ہمارے پیارے وزیر اعظم نے اپنے ایک اعلان سے ہی سب کا دل باغ باغ کردیا – اور ایسے برے وقت میں جب سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے ، ہمارے چہیتے وزیر اعظم صاحب نے ،اپنے قیمتی بجٹ ، سے ایک دو سو ارب نہیں بلکہ سب کی توقعات کے برخلاف پورے گیارہ سو ارب روپے کا ترقیاتی پیکج دینے کا اعلان کیا – سیاسی اختلاف اور ناراضی اپنی جگہ مگر شکریہ تو بنتا ہے !
خیر آپ وزیر اعظم سے لاکھ اختلاف کریں مگر ہمارے وزیر اعظم کےVISION اور اس میں پوشیدہ اسرار و رموز کی گہرائی سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا – کیونکہ دنیا بھر اب غذا سے زیادہ دوا پر انحصار کرتا ہے ، اور دواؤں میں ایک بنیادی جز بھنگ یا افیون کے پودے سے کشید کی جاتی ہے اس اہم اور کارآمد جڑی بوٹی اور صحت عامہ کے اہم ترین جز کو دنیا کے کئی ممالک نے ممنوعہ کاشت کہہ کر اپنے پیروں پر کلہاڑا مار لیا ، جس کی وجہ سے ان کی معیشت کو نا قا بل بیان حد تک نقصان بھی پہنچ چکا ہے ، مگر ان ڈھیٹ ممالک کو ابھی تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا ہے ، مگر یہ ان کا اپنا مسئلہ ہے ، ہمارے وزیر اعظم نے تو وقت سے بہت پہلے ہی پاکستانیوں کو خوشخبری سنا دی تھی کہ نیا پاکستان سرسبز و شاداب پاکستان ہوگا – مگر ہم نادان اپنے وزیر اعظم کےاس VISION کو سمجھنے میں ناکام رہے ، اس میں غلطی ہماری ہی ہے ، ، بھنگ کے پودوں کی کاشت کی سرکاری اجازت ملنے کے بعد اندازہ ہوا کہ جو باغات قوم کو دکھائے گئے تھے وہ درحقیقت بھنگ کے تھے –
اس سے پیشتر جب پہلی مرتبہ انہوں نے مرغی اور چوزوں کی مدد سے سے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہا را کی بات کی تھی کچھ نا عاقبت اندیشوں نے اس اہم ترین معاشی نکتے کا بھی مذاق اڑایا تھا – لیکن جس طرح چاند پر تھوکا منہ پر آگرتا ہے اسی طرح سیاسی مخالفین کے ہنسی ٹھٹھے خود مخالفین کے منہ پر آگرے ہیں – خان صاحب کی جانب سے دی گئی مرغیاں اور چوزوں کی مدد سے پاکستان کی معیشت نے جس طرح کم بیک کیا ہے اس کی تمام دنیا معترف ہے ( اگر ان کے مخالفین نہیں مانتے تو نہ مانیں )- سچ کو آنچ نہیں، خان صاحب کو ان کے منصوبوں اور حکمت عملی کے سبب دنیا بھر میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کی داد تو مخالفین بھی دیتے ہیں –
وزیر اعظم سے ،کنگ آف یو ٹرن ، کی بھپتی بھی شریفوں نے ہی اڑائ تھی- ان کے ساتھ این آر او دیکر اصل میں خان صاحب نے اعلی ترین انسانی اقدار کا معاملہ رکھا مگر ان کے اس انسان دوست رویے کی قدر نہ کرکے شریفوں نے اپنا منہ ہی پر ا گندہ کیا ہے – این آر او سے متعلق وہ ابھی بھی اپنے پچھلے موقف پر ہی قائم ہیں اور جہاں تک ان کی ذات کا تعلق ہے وہ کسی کو بھی این آر او نہیں دیں گے ، مگر این آر او لینے والے چاہے شریف ہوں یا عاصم باجوہ صاحب جیسے نامور سپاہی ہوں جہانگیر ترین جیسے منکسر المزاج ذخیرہ اندوز ہوں یا خسرو پرویز جیسے محب وطن سیاستدان ہوں ، ڈاکٹر عاصم جیسے نامی گرامی ڈاکٹر یا شرجیل میمن جیسے دیانت دار سیاستدان ان سب نے رات کے آخری پہر این آر او مانگا ، یہ قبولیت کا وہ وقت ہوتا ہے جب وزیر اعظم صاحب کے منہ سے، انکار، کا لفظ نہیں نکل پاتا – ان کی طبعیت رات کے آخری پہروں میں عاجزی انکساری اور رحمدلی پر مائل ہوجاتی ہے -( یہ رمز ہر کم و ناکس نہیں پا سکتا ، وہی جان سکتا ہے جو آخری پہر کی لذت سے آشنا ہو )جہاں تک انسانی زبان کی لغزشوں اور کوتاہیوں کی بات ہے اس سے کون مبرا ہے ؟
اسی زبان کی لغزش کے سبب دنیا بھر میں انٹرنیشنل بے عزتی کروانے کاطعنہ بھی ہمارے پیارے وزیر اعظم عمران خان کو سننے کو ملتا ہے
جب ہمارے وزیر اعظم نے 50 لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریاں اور 200 ارب منہ پر مارنے کے اعلانات کی بات ہے ، سچ سچ بتائیں کون کہہ سکتا تھا کہ کورونا سیلاب کی حشر کاریوں کا ہم پاکستانیوں کو سامنا کرنا پڑ جائے گا اسی اعلان کے نتیجے میں ایسی ایسی وبائیں پھوٹ پڑیں لاکھوں برسر روزگار افراد نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہزاروں ہنستے بستے گھر دیکھتے ہی دیکھتے سیلاب کی نذر ہوگیے – ظاہر ہے ان بےگھر اور بے روزگار افراد کے لئے کئے گئے پیشگی اعلانات پر طرح طرح کی باتیں بنائیں گئیں – اور وقت نے دکھا دیا کہ ہم نے اپنے آرمی چیف کے ہاتھوں سعودی عرب کے دو سو ارب روپے ان کے منہ پر مار کر ان کا یہ احسان بھی چکا دیا ہے – با قی احسانات چکتا ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے اس کے لئے مراد سعید کی نگرانی میں کمیٹی بنا دی گئی ہے –
اب آجائیں دو روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت والے وعدے پر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ،، اللہ گواہ ہے کہ میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ، میں دو روپے فی یونٹ بجلی کی بابت نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اعلان کرنے ہی والا تھا کہ میرے سکریٹری نے مجھے بتایا کہ ٹھہرئیے اعلان کرنے میں جلد بازی نہ کریں ایک مرتبہ انتخابی وعدوں کی فائل دیکھ لیں ، اس سکریٹری کے کہنے پر جب میں نے فائل دیکھی تو معلوم ہوا کہ اخبارات کی اور میڈیا مالکان کی سازش تھی دو روپے فی یونٹ کے نعرے میں سے میڈیا والوں نے سو روپے کا لفظ منہا کردیا تھا ، اصل میں ہم نے کہا تھا کہ دو سو روپے فی یونٹ – اور میں اب بھی اپنے وعدے پر قائم ہوں-
میرے ایک وعدے کو اپوزیشن والے نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا ، کہ ” چپڑاسی نہیں رکھوں گا، چناچہ کوئی چپڑاسی نہیں رکھا ،شیخ رشید جیسے آدمی کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں یہ بات میں کیسے بھول سکتا ہوں ، شیخ رشید اب وزیر ریلوے ہیں اسطرح کچن کابینہ بنا کر سب کو چپڑاسی کے عہدے پر ترقی دے دی –
ہم نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب باہر سے لوگ کام ڈھونڈنے آئیں گے- اسٹیٹ بینک ، وزارت داخلہ وزارت خارجہ اور تعلیم کے محکموں میں ہم نے تمام اہم ترین عہدے اور اہم ترین اڈے غیر ملکی افراد کو نوکریوں کے لئے وقف کردیے ہیں – چند ہی دنوں میں اس کے اثرات عوام کے سامنے آنے والے ہیں – ”
ویسے اپنی عوام کے لئے اپنے پیغام میں وزیر اعظم صاحب نے فرمایا کہ، میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ مجھ پر بھروسہ رکھیں ، جس طرح میں نے اور میری بہن نے منی ٹریل دکھا کر اپنے آپ کو سچا ثابت کیا ہے ، آئندہ بھی میں اور میری کابینہ ان شا الله عوام کے سامنے سچے ہی ثابت ہوں گے ، بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے! ، جلد ہی اس سے بھی بڑے پیکج کا اعلان کرنے والا ہوں اس وقت وقت تک بھنگ کی پہلی فصل مارکیٹ میں آجائے گی اور آپ سب ہماری طرح عیش و مستی میں کھو جائیں گے”۔

حصہ