دانی میاں کی کہانی

1272

آج “دانی میاں “کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا-ان کے” بابا جان” دفتر سے واپسی پر اُن کے من پسند رنگ برنگے پروں والا طوطا جو لا ئے تھے۔دانی میاں ہمیشہ کلاس میں اول پوزیشن لاتے تھے اس سال پانچویں کلاس میں بھی اول رہے اسی لیے انعام میں اپنے بابا سے آسٹریلین طوطے کی فرمائش کردی ۔جو آج انہوں نےپوری بھی کردى۔ بچپن ہی سے دانی میاں کو پرندے پالنے کا شوق تھا ان کے اسی شوق کو دیکھ کر بابا جان لال رنگ کا بڑا سا پنجرہ لائے اور لان میں رکھوا دیا-پھر اس میں بہت پیاری رنگ برنگی چھوٹی چڑیاں بھی خرید کر ڈال دیں آسٹریلین طوطا تو سب سے منفرد تھا ۔۔۔وہ طوطا باتیں بھی کرنا جانتا تھا-“دانی میاں ” اپنے پرندوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔۔کبھی باجرے سے بھرے پیالے پنجرے میں رکھتے تو کبھی تازہ پانی بھرتے ۔۔۔پنجرے کی صفائی بھی وہ باقاعدگی سے کرتے ۔روزانہ ٹرے صاف کر کے نئى اخبار بچھا دیتے ۔بارش سے بچاؤ کے لیے امی جان نے بازار سے ایک خوبصورت پھولدار پلاسٹک شیٹ لا دی تھی۔جیسے ہی بارش شروع ہوتی جھٹ سے دانی میاں اپنے پرندوں کو اس سے ڈھانپ دیتے ۔دانی میاں کو دیکھ کر ان کے پرندے ادھر اُدھر پھدکنا شروع کر دیتے ۔دانی میاں خوشی سے تالیاں بجانے لگتے اور بڑے فخر سے سب کو بتاتے کہ ”
دیکھ لیں میرے پرندے مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔جب بھی یہ مجھے دیکھتے ہیں خوشی سے چہکنے لگتے ہیں ”
طوطے کو آئے کئى دن گزر گئی تھے ۔اب وہ دانی کا نام بولنا بھی سیکھ گیا تھا ۔جیسے ہی دانی میاں اسکول سے آتے طوطا ” دانی ْ آؤ ۔۔دانی آؤ۔۔۔۔ “کی رٹ لگا دیتا ۔
دانی کے اسکول کى طرف سے ہر سال بچوں کو کیمپنگ کا ٹرپ کروايا جاتا۔۔اس دفعہ انہیں قریب ہی موجود ہرے بھرے پہاڑی علاقے میں تین دن کی کیمپنگ پر لے جایا جارہاتھا ۔ سب بچے بہت خوش تھے ۔دانی میاں نے امی جان سے خاص طور سے اپنے من پسند کھوپرے کے بسکٹ بنوائے تھے بابا جان دانی اور اس کے دوستوں کے لیے چاکلیٹس اور چپس کے پیکٹ لائے _ہائکنگ کے لیے دانى مياں اپنے سنیکرز کو دھو کر صاف ستھرا بھی کرچکے تھے۔ شام تک دانی کا کیمپنگ کا چھوٹا سا بیگ تیار تھا ۔اب دانی کو بے چینی سے اگلے دن کا انتظار تھا ۔انہیں صبح سویرے اسکول پہنچ کر سب کے ساتھ نکلنا تھا ۔پرنسپل نے بتا دیا تھا کہ دیر سے آنے والوں کے لیے انتظار نہ کریں گے اور ٹھیک 7 بجے بس روانہ ہو جائے گی ۔
رات کا کھانا کھا کر دانی میاں جلدی سو گئے۔فجر کى نماز اور ناشتہ سے فارغ ہو کر دانى مياں نے جاتے ہوئے اپنے پیارے پرندوں کو بھی الوداع کیا ۔جوابا تمام پرندے زور زور سے پھدک کر ادھر سے ادھر پنجرے میں چکر لگانے لگے
طوطے نے بھی دانی آؤ ۔۔۔دانی آؤ کا شور مچا دیا ۔لیکن آج نہ جانے دانی میاں کو ان کی بے چینی دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ بھی پنجرے سے نکل کر اس کے ساتھ آنا چاہتے ہیں۔۔۔ دانی میاں نے اپنے پرندوں کو دلاسا دیا ۔۔” میرے پیارے پرندوں میں جلد ہی لوٹ کر آ جاؤں گا ۔جب تک امی جان تمہارا خیال رکھیں گی ۔”اللہ حافظ ۔یہ کہہ کر وہ جلدی سے باہر آگیا ۔
بابا جان کے ساتھ موٹر سائیکل پر وہ کچھ ہى دير میں اسکول پہنچ چکا تھا۔۔ مقررہ وقت پر تمام بسیں روانہ ہوئیں ۔۔۔
تقریبا” 4 گھنٹے کے بعد سب ہل اسٹیشن پہنچ چکے تھے ۔
سب بچوں کے ساتھ اساتذہ نے مل کر کیمپس لگائے ۔۔کھانا کھا کر کچھ دیر سب سستانے لگے ۔۔دانی بھی اپنے کیمپ میں آرام کرنے لگا ۔۔ابھی بمشکل کچھ لمحے ہى گزرے ہوں گے کہ چاروں طرف سے بے حد عجیب وغریب اور خطرناک آوازیں آنے لگیں۔۔سب لڑکے خوفزدہ ہو کر کیمپوں میں سے نکل آ ئے ۔وہ یہ دیکھ کر ہکّا بکّا رہ گئے کہ ان کے کیمپوں کو چاروں اطراف سے دیو ہیکل پرندوں نے گھیر رکھا ہے ۔۔ان میں سب سے بڑا ایک رنگ برنگے پروں والا طوطا تھا جو سب سے آگے کھڑا تھا اور زور زور سے چلا رہا تھا۔
جاری ہے

حصہ