پردے کے پیچھے

310

۔’’عورت کا نام ذہن میں آتے ہی جو پہلا تصور دماغ کے پردے پر ابھرتا ہے وہ شرم وحیا کا پیکر ہے، اور جب میں فیشن کے نام پر ان نیم عریاں لباس والی لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو ان کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے‘‘۔ میں جو اپنے نوٹس کھولے پورے انہماک سے ان کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی ہادیہ کی بات پر قریب سے گزرتی لڑکیوں کی بغیر آستینوں کی قمیصوں اور ٹخنوں سے اوپر پاجامے دیکھ کر افسوس سے سر ہلانے لگی۔
’’ہمیں تو روزانہ یہی سب دیکھنے کو ملتا ہے، نت نئے فیشن کے نام پر بگڑی ہوئی شکلیں…‘‘میں نے دوبارہ پڑھنے پر توجہ مرکوز کی۔
’’لیکن دیکھو ناں ان فیشن زدہ لڑکیوں کی وجہ سے شریف خاندان کی لڑکیاں بھی تو بدنام ہوتی ہیں جو اس بے حیائی کو پسند نہیں کرتیں… اور حجاب والی تمام لڑکیوں کو بھی ایک جیسی سوچ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔‘‘ ہادیہ نے بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں جی، ایسا ہی ہے، لیکن اگر ہم ایسی لڑکیوں کو کچھ سمجھا نہیں سکتے تو ان پر جان کیوں جلائیں؟ ہمیں اپنے اعمال کے ساتھ جانا ہے، انہیں اپنے اعمال کے ساتھ۔‘‘ میں نے لاپروائی کا مظاہرہ کیا۔
’’سعدی! بات جان جلانے کی نہیں ہے، کل جب میں یونیورسٹی سے نکلی تو اُس وقت تک بس نہیں آئی تھی اس لیے بس اسٹاپ پر کچھ دیر کے لیے کھڑا ہونا پڑا۔ میرے پیچھے کچھ لوگ کھڑے آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے۔ میں نے ان کی گفتگو پر غور نہیں کیا کہ کیا باتیں کررہے تھے۔ اتنے میں ایک لڑکا میرے برابر آکر کھڑا ہوگیا اور کان کے پاس آکر سرگوشی میں بولا ’’محترمہ! ایسا کیا گناہ کیا ہے جس کی وجہ سے منہ چھپا کر نکلتی ہو، کبھی ہمیں بھی دیدار کروا دو۔‘‘
میرے سٹپٹانے پر وہ اپنے گروپ کے ساتھ قہقہے لگانے لگا۔ اور شکر ہے بس آگئی اور میں جلدی سے اس میں سوار ہوگئی، ورنہ مجھے تو وہی بے ہوش ہوجانا تھا، پھر بھی سارا راستہ میں کانپتی ہوئی گھر پہنچی‘‘۔ ہادیہ نے کل کا واقعہ افسردگی سے سنایا تو میں بھی اُس کی بات سن کر چونک گئی۔
’’اوہ اس لیے تمہیں ان لڑکیوں پر غصہ آرہا ہے… یہ جو غیر محرموں کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش ڈھونڈنے کے لیے اپنا حلیہ بگاڑ کر آتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ٹھٹھے لگاتی ہیں انہوں نے مردوں کی نظر میں اپنی عزت تو ختم کی ہی تھی، ان کی وجہ سے ہمارے جیسوں کی عزت بھی دو کوڑی کی ہوکر رہ گئی ہے… اور کل جو تمہاری روٹ فیلو ہیں وہ کہاں تھیں؟‘‘میں نے پوچھا تو ہادیہ بولی ’’کل دونوں چھٹی پر تھیں، آئندہ تو میں بھی نہیں آؤں گی اگر وہ دونوں نہ آئیں۔‘‘
’’ہادیہ! مجھے تو ان نوٹس سے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا، چلو لائبریری چلتے ہیں، کچھ اور کتابیں لے لیتے ہیں شاید کچھ سمجھ میں آجائے۔‘‘ ہادیہ کے ہامی بھرنے پر میں نے اپنا ساز و سامان سمیٹا اور لائبریری کا رُخ کیا۔
لائبریری میں معمول سے زیادہ رش تھا، خاصے لوگ لائبریری سے باہر بھی کھڑے تھے۔ میں نے لائبریری کے دروازے پر کھڑے ہوکر تفصیلی جائزہ لیا تو کچھ غیر معمولی صورت حال کا اندازہ ہوا، ورنہ عام طور پر ایسی افراتفری نہیں ہوتی۔ اسٹوڈنٹ لائبریری میں خاموشی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں، خاموشی سے بک ریڈنگ ہوتی ہے یا نوٹس بنائے جارہے ہوتے ہیں۔ بک ریک سے کتابیں ڈھونڈنے والے بغیر آواز کے کتابیں ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور لائبریرین رجسٹر پر اندراج کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ لیکن آج صورتِ حال کچھ مختلف تھی، لوگ اونچی آوازوں میں جیسے چلّا رہے تھے۔
’’سعدیہ، ہادیہ لائبریری میں جھگڑا ہورہا ہے، اندر مت جاؤ‘‘۔ مجھے قریب سے رحما کی آواز آئی۔
’’کیا ہوا ہے یہاں؟‘‘ میں نے پلٹتے ہوئے پوچھا۔
’’آؤ کینٹین چلتے ہیں، وہاں چل کر تفصیل سے بتاتی ہوں‘‘۔ رحما نے کینٹین کی طرف رخ کیا تو ہم دونوں بھی اس کے پیچھے چل پڑیں۔
’’اب بتاؤ بھی کون جھگڑا کررہا تھا؟ کیا ہوا ہے؟ اس طرح تو پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘‘ ہادیہ کو تفصیل جاننے کی جلدی تھی تو میں بھی تجسس سے بھری بیٹھی تھی۔
’’صبر کرو، پہلے ایک ایک پلیٹ سموسے اور دہی بھلے آرڈر کردیں تاکہ باتوں کے درمیان کھایا بھی جائے، ورنہ کلاس شروع ہوجائے گی اور کچھ کھائے بغیر ہی بھاگنا پڑے گا‘‘۔ رحما آرڈر کرنے کے لیے کاؤنٹر پر گئی اور واپسی اُس کی کولڈ ڈرنک کے ساتھ ہوئی۔ کچھ دیر بعد آرڈر بھی سرو ہوگیا۔
’’کل چھٹی کے ٹائم فورتھ سمسٹر کے دو اسٹوڈنٹ ایک لڑکی اور لڑکا لائبریری میں بیٹھ کر نازیبا حرکات کررہے تھے اور لائبریری میں سوائے لائبریرین کے کوئی تھا بھی نہیں۔ اس نے سی سی ٹی وی کیمرے پر انہیں فوکس کیا اور ان دونوں کو جاکر منع کیا تو وہ دونوں لائبریرین سے جھگڑنے لگے کہ وہ ان کے پرسنل معاملے میں کیوں ٹانگ اڑا رہا ہے۔ لائبریرین نے ڈپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی کو شکایت کی۔ اس نے آج صبح ان کے والدین کو بلا لیا‘‘۔ رحما نے ایک ہی سانس میں تفصیل بتانی شروع کی۔
’’اوہ، تو والدین بیچارے شرمندہ ہوں گے‘‘۔ میں نے تاسف سے سر ہلایا۔
’’جی نہیں، وہ آج کل کے ماڈرن والدین ہیں، دونوں اسٹوڈنٹ امیر کبیر فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، جو گھر کے ماحول سے سیکھا باہر بھی وہی کچھ کرنا ہے انہیں‘‘۔ رحما نے میری بات کی تردید کردی۔
’’اچھا بولو ناں پھر کیا ہوا؟‘‘ ہادیہ کے پوچھنے پر رحما نے سلسلہ کلام دوبارہ جوڑا ’’ان دونوں کے والدین ایچ او ڈی کے پاس آئے، جب وہاں سے معاملہ معلوم ہوا تو آگ بگولا ہوئے کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمارے بچوں کے پرسنل معاملے میں دخل اندازی کرنے والے؟ ایچ او ڈی نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کا ماحول خراب نہیں ہونے دیں گے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو یا تو اس طرح کی نازیبا حرکات سے منع کریں یا مہربانی فرما کر کسی اور یونیورسٹی سے ان کی ڈگری مکمل کروا لیں۔
ایچ او ڈی کے سیدھا جواب دینے پر پہلے تو وہ ان کو دھمکیاں دینے لگے کہ ہمارے بہت اوپر تک تعلقات ہیں، پھر وہ لائبریرین پر چڑھ دوڑے کہ تمھاری اوقات کیا ہے! تمھاری وجہ سے ہماری بے عزتی ہوئی ہے، تمہیں یہاں نہیں رہنے دیں گے…‘‘ رحما نے پوری تفصیل بتائی جو ابھی وہ خود اپنے بھائی سے سن کر آئی تھی۔
’’ اوہو…‘‘ میرے اور ہادیہ کے منہ سے اکٹھے آواز نکلی۔ ’’اور تمہیں یقینا بھائی سے ساری بات معلوم ہوئی ہے۔‘‘میرے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلانے لگی۔
’’میں تو والدین پر حیران ہوں جو اپنے بچوں کا قصور ماننے کے بجائے دوسروں کو قصوروار ٹھیرا رہے ہیں، اسی لیے معاشرے میں اتنا بگاڑ پیدا ہوتا ہے‘‘۔ مجھے تفصیل سن کر بہت دکھ ہوا۔
’’الحمدللہ ہمارے والدین نے ہمیں اچھے برے کی تمیز سکھائی ہے۔ اگر انسان گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھے تو وہ ساری زندگی نفس کے دھوکے میں گزار دے اور سمجھتا رہے کہ جو وہ کررہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے‘‘۔ ہادیہ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد پھر بولی:
’’ہم بہنیں جب اماں کے ساتھ کہیں جانے لگیں تو اماں سر سے پیر تک ہمارا جائزہ لیتی ہیں اور اکثر کہتی ہیں کہ بن سنور کر جانے والی لڑکیوں کو مرد سر سے پاؤں تک غور سے دیکھتا ہے، آنکھوں کو بھی سینکتا ہے اور اس لڑکی کی ماں کو بھی گالی سے نوازتا ہے کہ اس کو گھر سے نکلتے اس کی ماں نے نہیں دیکھا؟ اماں کہتی ہیں وہ آپ کی آنکھوں میں حیا نہیں ڈھونڈتا کہ حیا ہے یا نہیں… وہ صرف لباس اور میک اَپ سے سجے چہرے کو دیکھتا ہے۔‘‘ ہادیہ نے اپنی امی کے خیالات ہمارے گوش گزار کیے۔
’’بالکل ٹھیک کہتی ہیں آنٹی۔ میری امی بھی کہتی ہیں کہ جب گھر سے نکلو تو سادگی سے نکلو اور حجاب کے ساتھ جایا کرو تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ رہو‘‘۔ ہادیہ نے کہا تو میں بھی اپنی اماں کی نصیحت بتائے بغیر نہ رہ سکی۔ ’’میں جب حجاب سے نکلتی ہوں تو لگتا ہے کہ کوئی گارڈ ہے میرے ساتھ، ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ رحما نے کہا اور وال کلاک پر نظر ڈالتے ہی اونچی آواز سے بولی ’’ اٹھو اٹھو لڑکیو! پیریڈ نکل جائے گا، باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا‘‘۔ اس کے کہنے پر ہم دونوں نے بھی گھڑی پر نظر ڈالی اور جلدی جلدی اپنے بیگ اٹھا کر آگے پیچھے بھاگتے کلاس روم کی راہ لی۔

حصہ