چوتھی قسط
سید مودودی ؒنے اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا کہ کوئی شخص بیک وقت مومن اور مارکس کا پیروکار بھی ہو سکتا ہے۔ یہ انتہا درجے کا تناقض اور بے حد افسوس ناک صورت حال ہو گی۔ سید مودودیؒ‘ ہیگل کے نظریات کو ۱۰۰ فی صد غلط قرار نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک تاریخ کے بارے میں ہیگل کا فلسفہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ارتقاے انسانی متضاد نظریات کے تصادم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تصفیے کا مرہون منت ہے۔ لیکن تاریخ کے اس پہلو کی تشریح اس قدر خوب صورتی سے کرنے کے بعد ہیگل ایسے تصورات پیش کرنے لگتا ہے جو بالکل ہی بے بنیاد ہیں۔ مثال کے طور پر ہیگل‘ اﷲ تعالیٰ کو ’’روح عالم‘‘ (World Spirit) سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس پردے میں آپ اپنی نمایش کر رہا ہے۔ اپنی ذات کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ تاریخ کی شاہراہ پر مارچ کر رہا ہے۔ رہا انسان‘ تو وہ بے چارہ محض خارجی مظہر یا آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔سید مودودیؒ ،ہیگل کے جدلی نظریے کے اس پہلو کو خالص فریب نظری قرار دیتے ہیں۔
سید مودودیؒ ہیگلی نظام میں پائے جانے والی ناہمواریوں کو ایک چیستان سے تشبیہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’باوجود یکہ یہ نظریہ اپنے اندر صداقت کی ایک جھلک رکھتا ہے‘ ہمیں اس کے اندر قیاس آرائی (speculation) کا عنصر بہت زیادہ اور تاریخ کے حقیقی واقعات سے استشہاد بہت کم نظر آتا ہے۔ اس نے واقعات کے اندر اتر کر یہ تحقیق کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی کہ جن اضداد کے درمیان نزاع ہوتی ہے‘ ان کی حقیقی نوعیت کیا ہے‘ پھر ان کے درمیان مصالحت کیوں ہوتی ہے‘ اور اس مصالحت سے جو مرکب بنتا ہے‘ وہ آگے چل کر پھر کیوں اپنے اندر سے اپنا ایک دشمن پیدا کر دیتا ہے۔ اس جدلی عمل کا تفصیلی اور تحلیلی مطالعہ کرنے کے بجائے ہیگل اس پر یوں نگاہ ڈالتا ہے جیسے کوئی پرندہ فضا میں اڑتے ہوئے کسی شہر کا ایک طائرانہ جائزہ لیتا ہو‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۰-۲۷۱)
سید مودودیؒ کے خیال میں جہاں ہیگل کے نظریے میں ٹھوس پن مفقود ہے وہاں مارکس کے خیالات سطحی نوعیت کے ہیں: ’’وہ انسان کی فطرت‘ اس کی ساخت اور اس کی ترکیب کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ باہر کے حیوان کو تو فوراً دیکھ لیتا ہے جسے معاشی ضروریات لاحق ہوتی ہیں مگر اس کے اندر کے انسان کو نہیں دیکھتا جو اس بیرونی رُوبہ کار خول میں رہتا ہے۔ مارکس انسانی فطرت کے مقتضیات سمجھ نہیں پاتا‘ جو بیرونی حیوان کی طبیعت سے بہت مختلف ہیں‘‘۔
سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ مارکس کے کام کا یہ پہلو انتہائی کمزور ہے اور اس کے عمرانی تصور کے غیرمتوازن ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ مارکس کا خیال ہے کہ نفس انسانی‘ نفس حیوانی کا غلام ہے۔ اس کے قواے ذہنی‘ قوت مشاہدہ‘ قوت تخلیق اور وجدانی ساخت‘ سب کے سب اسی بیرونی حیوان کی خدمت کے لیے وقف ہیں: ’’]مارکس کے نزدیک[ اندر والے انسان نے آج تک اس کے سوا کچھ نہیں کیا‘ نہ وہ آیندہ کرے گا‘ نہ وہ اس کے سوا کچھ کر سکتا ہے کہ بس اپنے آقا‘ یعنی باہر والے حیوان کی خواہشات کے مطابق اخلاق اور قانون کے اصول بنائے‘ مذہب کے تصورات گھڑے‘ اور اپنے لیے زندگی کا راستہ معین کرے — انسان کی حقیقت کا یہ کتنا ذلیل تصور ہے۔ کتنا پست ہے وہ ذہن جس نے اس تصور کو پیدا کیا اور کتنے پلید ہیں وہ ذہن جو اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)
تاہم سید مودودیؒ نفس انسانی پر حیوانی ہیجانات (impulses) کے اثرات کو یکسر نظرانداز نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کی تردید بھی نہیں کی جا سکتی کہ نفس حیوانی‘ نفس انسانی پر برتری حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن سید مودودیؒ کے نزدیک مارکس کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ’نفس حیوانی پر نفس انسانی اثرانداز نہیں ہو سکتا‘۔ تاریخ کے متعلق اس کا مطالعہ بالکل باطل نظر آتا ہے‘ جب وہ یہ کہتا ہے کہ تہذیبوں کا نشوونما محکوم افراد پر منحصر ہے جو انسانیت کے نہیں بلکہ اپنے حیوانی نفس کے تابع ہوتے ہیں۔ سید مرحوم فرماتے ہیں: ’’اگر وہ آزادانہ نگاہ سے دیکھتا‘ تو اسے نظر آتا کہ انسانی تہذیب میں جو کچھ قیمتی اور شریف اور صالح‘ ہے وہ سب ان لوگوں کا عطیہ ہے جنھوں نے حیوانیت کو انسانیت کا تابع اور محکوم بنا کر رکھا تھا‘‘۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲)
m متبادل نقطۂ نظر: دنیا میں انسان کے مقام و مرتبے کے بارے میں موجودہ نظریات کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ان کے مقابلے پر اسلام کا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے سید مودودیؒ فرماتے ہیں : قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان محض ایک حیاتیاتی وجود نہیں ہے جس میں بھوک‘ جنس‘ طمع‘ خوف اور غصے جیسی صفات کا بسیرا ہے‘ بلکہ اس میں ایک روحانی جوہر بھی ہے جو اخلاقی ارتعاشات کے ساتھ ساتھ گھٹتا بڑھتا ہے۔ انسان دوسرے جانوروں کی طرح جبلت کا محض پابند نہیں ہے‘ بلکہ اسے ذہانت‘ صوابدید اور علم حاصل کرنے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیتیں بھی عطا کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کسی طے شدہ راستے پر چلنے کے لیے مجبور نہیں کرتا‘ نہ وہ انسانی وجود کو مکمل طور پر اپنا پابند بناتا ہے۔ اس کے برخلاف اس نے انسانوں کو جدوجہد کرنے کی صلاحیت سے مالا مال کیا ہے تاکہ وہ زندہ رہنے کے لیے جفاکشی کو اپنا شعار بنائیں‘ اپنی مخفی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں اسے اپنی کوشش سے حاصل کریں۔ ایک خودمختار وجود کے طور پر جدوجہد کرنے کی قابلیت ہی کا نام انسان ہے۔(ایضاً‘ ص ۲۷۲-۲۷۳)
اس بیرونی نفسِ حیوانی کو‘ جو ایک سرکش اور غیر مہذب عامل ہے جسے اپنی خواہشات اور شہوات کو پورا کرنے کے علاوہ کسی اور چیز سے غرض نہیں ہوتی– اللہ تعالیٰ نے دراصل اندرونی انسان کی خدمت پر مامور کیا ہے۔ جب یہ جذبات سے بے قابو ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کو تلپٹ کر کے نفسِ انسانی کو اپنا ماتحت بنا لیتا ہے‘ تاکہ اس کی ذہنی صلاحیتوں پر تصرف کر کے اس سے اپنے سفلی مطالبات پورے کروا سکے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی صفات ترقی نہ کر سکیں‘ اس کی بصیرت محدود ہو جائے‘ اور اس کے اندر جاہلیت کے جذبات بھڑکتے رہیں۔ انسانی نفسِ لوّامہ‘ نفس حیوانی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اسے عدل و انصاف‘ زہد و تقویٰ اور صحیح و غلط کی رہنمائی کرنے والا الہامی علم میسر ہے۔ یہاں تک کہ اپنی جبلی خواہشات کی تسکین کے لیے بھی وہ اس علم کی روشنی میں صحیح راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے مقاصد نفسِ حیوانی کی سفلی خواہشات کے مقابلے میں نہایت بلند ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی نظروں میں‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی‘ اچھا بننا چاہتا ہے۔ اس کا وجدان اسے ایک اخلاقی وجود کی حیثیت سے خوب سے خوب تر بننے پر اکساتا رہتا ہے۔
سید مودودیؒ کہتے ہیں کہ انھی وجوہ سے بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ نفسِ انسانی اور اپنے مدمقابل نفسِ حیوانی کے درمیان جاری کش مکش سے عبارت ہے۔ نفسِ انسانی اپنے وجدان کی ترغیبات پر عمل کرنا چاہتا ہے ‘جب کہ نفسِ حیوانی اسے نیچے کی جانب کھینچ کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جو خطرناک ہیں اور خود پرستی‘ اختلافِ رائے‘ شہوت (lust) ‘ اور نا انصافی سے پُر ہیں۔ ایک دفعہ پٹڑی سے اتر جائے تو یہ اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے‘ لیکن نفس حیوانی کے زیر اثر اپنے لیے غلط علاج تجویز کر لیتا ہے۔ وہ رہبانیت میں پناہ لیتا ہے‘ نفی ذات کی ریاضتوں کا سہارا لیتا ہے ‘یا پھر معاشرے کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں ڈھونڈتا ہے۔ لیکن بجاے اس کے کہ نفس ِ حیوانی پر اس کی گرفت مضبوط ہو‘ زندگی سے اس نامطلوب دست برداری کی بدولت وہ دوبارہ غلط راستوں پر چل نکلتا ہے۔ اور اس مرتبہ اس کا حیوانی نفس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہ ہو جائے۔
سید مودودی کہتے ہیں: ’’افراط و تفریط کی یہ دونوں طاقتیں ]یعنی رہبانیت اور مادیت[ بار بار اپنا زور لگاتی ہیں جو حیات انسانی کو ادھیڑ دیتی ہیں۔ ہر ایک کے اثر سے کچھ ایسے نظریات‘ اصول اور طریقے پیدا ہوتے ہیں جو ایک عنصر حق کا اور کچھ عناصر باطل کے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کچھ دنوں تک انسان ان مخلوط اصولوں اور طریقوں کا تجربہ کرتا ہے۔ آخرکار اس کی اصلی فطرت‘ جوشعوری یا غیر شعوری طور پر صراط مستقیم کے لیے بے چین رہتی ہے‘ ٹیڑھے راستوں سے بیزار ہو کر ان کے باطل عناصر کو پھینک دیتی ہے اور ان کے صرف وہ حصے انسانی زندگی میں باقی رہ جاتے ہیں جو حق اور راست ہیں‘‘۔
سید مودودیؒ کا ٹیڑھے راستے کا تصور ’’قرآن مجیدکی اصطلاح ’’سواء السبیل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہیگل جس ٹیڑھے راستے کا ذکر کرتا ہے‘ اس کا تصور اس نے کہاں سے لیا؟ کیا اس نے بھی قرآن ہی سے یہ تصور لیا ہے؟ بہرصورت‘ یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ اینجلز کے بیانات کے مطابق ہیگل نے بُھول بھلیوں پر مبنی حرکات‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر اینجلز کی کتاب Ludwig Feuerbach سے یہ عبارت ملاحظہ کیجیے:
According to Hegel, therefore, the dialectical development apparent in nature and history, i.e.., the causal interconnection of the progressive movement from the lower to the higher, which asserts itself through all zigzag movements and temporary setbacks, is only a miserable copy of the self-independently of any thinking brain.
ہیگل کے خیال میں فطرت اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی جدلّی نشوونما ‘یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ کی جانب ترقی پذیر حرکت کاتشبیبیربط باہم جو تمام کج مج حرکات اور عارضی رکاوٹوں میں اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے‘ اس تصورکی محض ایک منحوس نقل ہے‘ جو ازل سے رواں دواں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس کی منزل کیا ہے۔ لیکن تمام واقعات و حوادث کسی سوچنے سمجھنے والے ذہن سے آزاد ہیں۔
قرآن مجید اور ہیگل کے موقف میں بہرحال ایک بنیادی نوعیت کا فرق ہے: جہاں ہیگل پیچ دار حرکات کو کسی معاشرے کے اندر تناقضات پر قابو پانے کی کش مکش کا پرتو قرار دیتا ہے‘ وہاں قرآن حکیم اس تلوّن مزاجی کو اسلامی اور غیر اسلامی طریق ہاے زندگی کی کش مکش قرار دیتا ہے۔
(جاری ہے)