شور مچاتے ساکن لمحے

217

وہ اپنی ترشی پر بے باک، بپھرا ہوا، اپنی پرجلال شخصیت کا رعب و دبدبہ دلوں میں بٹھا کر دور بیٹھے ناظرین کو بھی مسخ کرنے کی سعی میں مصروف لگتا تھا۔ میں دور ایک تماش بین کی طرح اس کی وسعتوں اور اس کے چنگھاڑتے انداز کو للکارنے کا سوچ رہی تھی لیکن وہ اپنی وجاہت کے ساتھ ایک لطیف ناظر بھی تھا جو میرے دل میں پلنے والے خیالات کو میری آنکھوں میں جھانک کر بھانپ کرجھٹ میری طرف تیزی سے لپکا اور مجھ پر منوں پانی انڈیل کر یکدم میرے پیروں کو کھینچ کر لے جانے لگا، میں اپنے اعصاب پر بمشکل قابو پاتے ہوئے اٹھ کر پیچھے کی جانب دوڑی اور محفوظ مقام پر جاکر من ہی من میں اس پر غصے میں بڑبڑائی، ’’مغرور کہیں کا، اپنی بڑائی پر نازاں، ظالم سفاک، خود کو سمجھتا کیا ہے، حدود سے باہر نکلنے والا‘‘ میں اور بھی بہت کوسنے والی تھی اسے کہ وہ پھر مجھ تک پہنچ گیا اور میرے قدموں سے گھسیٹتا ہوا مجھے پھر سے ڈبونے لگا، میں اس سے پیچھا چھڑاتی دوڑتی ہوئی اس سے بہت دور جا بیٹھی۔
وہ کن اَنکھیوں سے مجھے گھورتا ہوا مسکرا کے گویا ہوا ’’ عائشہ! میں حدود سے نکلنے والوں میں کیوں لگا تجھے؟ میں نے غور سے اسے دیکھا وہ غصے میں نہیں تھا، کوئی غرور نہیں تھا، وہ تو عاجزی سے سرشار تھا البتہ روٹھا ہوا تھا۔ میں شدمندہ ہونے لگی اسے محسوس کرنے کی امنگ دل میں نجانے کیوں کوند آئی۔ میں اس کی نزدیک آبیٹھی وہ ہولے ہولے میرے قدموں کو مس کرکے گزرنے لگا۔ میں نے ہمت کرکے اس سے کہہ ڈالا اتنا رعب کیوں دکھاتے ہو؟ وہ خفا سا کہنے لگا تمہیں یہ کیوں لگتا ہے کہ یہ رعب میرا ہے ؟ میں بھی مان سے تن کے کہنے لگی رعب نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے ساری حدود توڑ کر تم تو سب ڈبو ہی ڈالو گے۔ اتنی جرات کیسے دکھا سکتے ہو تم ؟ کیا یہ نہیں جانتے کہ میں تم سے بہتر ہوں؟
اس کی مغرور سکوت لمحے بھر کو پھر طاری ہوئی اور اچانک اس نے جو حرکت کی وہ لمحے بھر کو میرے وجود کو آگ کرگئی اس نے ڈھیروں کچرا میرے منہ پہ دے مارا۔ میں بے اختیار چلائی، جاہل ، وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا کیا میں؟ کیا یہ میری حرکت ہے؟ میں تو تمہاری کارستانی تمہیں لوٹائی ہے ۔ میں اس کا مطلب سمجھ گئی، میرا غصہ پشیمانی میں بدل گیا اس کے سکوت میں، اس کے اختصار میں کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں تھی، بہت کچھ تھا جو وہ خاموشی سے اپنے اندر جذب کیے چلا جارہا تھا۔
وہ سکوت اختیار کرگیا تھا اور میرے اندر ایک شور بپا تھا وہ بالکل صحیح تھا ،وہ تو حدود کا سچا پابند تھا ، حدود و ضوابط کو توڑ کر نکل جانے والی تو میں تھی، وہ غصے میں نہیں تھا وہ تو ضبط کے اس مقام پر تھا جہاں میری رسائی نہ تھی ، وہ نیلگوں بشات بھری وسعتوں پھیلا سمندر اطاعت الٰہی میں سرگرداں تھا، اس کی اٹھتی، بچھتی لہریں اس کے ہر پل قیام و سجود کی گواہی دے رہی تھیں اور میں ؟ میں بس میں میں کی شکار، اس کی سطح پر بیٹھی ایک سطحی عورت تھی، جس کے شکوے بھی شکستہ اور عمل بھی۔ سوچا تھا کہ سمندر سکون دے گا وہاں پہنچی تو لگا کہ یہ بے سکوں لہریں بھی کسی کو تسکین دے سکتی ہیں؟ پھر معلوم ہوا کہ وہ بے سکونی کا شکار نہیں، میں بے سکونی کا شکار ہوں، ان لہروں پر تو سکینت طاری ہے اور میں اس سے محروم۔ آہ! آشنائی بھی کتنی کرب ناک ہوتی ہے۔

حصہ