درندہ

298

نصراللہ صاحب ایک دفتر میں کمپیوٹر انجینئر تھے، اچھی خاصی آمدنی تھی، مگر آگے دو بیٹیاں تھیں، ان کے جہیز کی تیاری ان کے پیدا ہوتے ہی شروع کردی گئی تھی۔ اب تو ماشاء اللہ دونوں کے نام پر ایک ایک پلاٹ بھی لے لیا تھا، اور یہ ممکن ہوا تھا ان کی بیگم تحریم صاحبہ کی ملازمت کی وجہ سے۔ وہ ایک کالج میں پروفیسر تھیں، ان کی تمام آمدنی مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے محفوظ رہتی تھی۔ خیال تھا کہ ایک دو سال میں اپنا گھر لینے کے لائق ہوجائیں گے۔ شروع سے دونوں میاں بیوی نے بہت محنت کی۔ آپس میں بے انتہا محبت تھی، حتیٰ کہ کھانا تک دونوں مل کر پکاتے۔ جب معاش کی تگ و دو میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے تھے تو ظاہر ہے گھر کے کام بھی کسی ایک کی ذمہ داری نہیں تھی۔ دونوں کا ایک ہی بیٹا تھا عمیر جو 18 سال کا ہوچکا تھا۔ پڑھائی میں بھی بے مثال تھا، گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا تھا۔ یوں سمجھیے ایک خوش حال گھرانا۔
ٹی وی پر ایک ایوارڈ شو چل رہا تھا، رات 9 بجے کا وقت تھا۔ سب اپنے کاموں سے فارغ ہوکر ٹی وی دیکھ رہے تھے، بس تحریم بیگم اپنے لیے دوسرے دن پہننے کے لیے لباس کے انتخاب میں مصروف تھیں۔ وہ جونہی ٹی وی لائونج میں داخل ہوئیں، چیخ پڑیں ’’یہ کیا بے ہودہ پروگرام لگا رکھا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ ہالی ووڈ کا کوئی ایوارڈ شو چل رہا ہو، نصراللہ صاحب بند کیجیے اسے، کچھ تو خیال کریں، گھر میں بچے…‘‘ نصراللہ صاحب نے کوئی جواب نہ دیا، وہ اور بچے ایک شوخ سے گانے میں، ادھورے لباس والی خاتون کا رقص دیکھ رہے تھے۔
’’نماز پڑھی تم لوگوں نے عشاء کی؟ نصراللہ صاحب آپ پڑھیں گے تو یہ لوگ پڑھیں گے۔‘‘ وہ چلّائیں۔
’’اوہو بھئی، سب کو تنگ کرتی ہیں آپ، جایئے سوجایئے، پڑھ لیں گے ہم نماز‘‘۔ نصراللہ صاحب جھنجھلا کر بولے۔
تحریم صاحبہ شوہر کے آگے بے بس ہوجاتی تھیں، بچوں کو شہ مل جاتی تھی، اس قدر واہیات شو تھا کہ ان کی آنکھیں نہیں اٹھ رہی تھیں، اور بچوں کا یہ حال کہ سانس روک کر دیکھ رہے تھے۔
30 مارچ کو عمیر کی سالگرہ تھی، کیوں کہ وہ پہلی اولاد تھا، تو اس کی سالگرہ ہمیشہ دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اس کے آٹھ دس دوستوں کو بلا لیا گیا۔ نصراللہ صاحب اور تحریم صاحبہ نے گھر میں مل جل کر لوازمات تیار کرلیے۔ بہنوں نے گھر کی خوب صفائی کی، غبارے اور جھنڈیاں لگائیں، کیک بھی خود بنایا۔ یوں کہیے کہ سارا گھر عمیر کی سالگرہ کی تیاری میں لگا ہوا تھا۔ ’’آپ تحفہ کیا دے رہے ہیں عمیر کو؟‘‘ تحریم نے شوہر سے پوچھا۔
نصراللہ صاحب مسکرائے ’’45 ہزار روپے کا اسمارٹ فون لایا ہوں اپنے پیارے بیٹے کے لیے‘‘، وہ بولے۔
تحریم کے چہرے پر فکر کی لہر گزر گئی ’’کیا کرتے ہیں نصر صاحب! نہ جانے نیٹ پر کیا کیا الٹا سیدھا دیکھے گا، ہم تو نظر بھی نہیں رکھ سکیں گے۔ کوئی کتاب دے دیتے‘‘، وہ بولیں۔
’’آپ تو محترمہ نہ جانے کون سی صدی میں جی رہی ہیں، ماشاء اللہ 19 سال کا ہوگیا ہے، اچھا برا سمجھتا ہے، اس کے سب دوستوں کے پاس اسمارٹ فون ہے، وہ احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوجائے، وہ دَور چلا گیا جب کتاب تحفے میں دی جاتی تھی‘‘، نصر صاحب نے فرمایا۔
تحریم شوہر کے خیالات سے متفق نہ تھیں حالانکہ تینوں بچوں کے پاس سادہ فون تھے جن سے گھر سے رابطہ رہتا تھا، ان کو ڈر تھا کہ اسمارٹ فون آگیا تو بچے کہیں پڑھائی پر دھیان دینا نہ چھوڑ دیں۔ جب گھر پر کمپیوٹر تھا تو اسمارٹ فون کی کیا ضرورت!
نصراللہ صاحب کے چھوٹے بھائی انواراللہ روزگار کے سلسلے میں لاہور میں مقیم تھے، چونکہ پہلے مشترکہ خاندانی نظام میں ساتھ ہی رہتے تھے تو انوار صاحب کی بیگم رضیہ اور تحریم میں بڑی محبت تھی، رمضان کا مہینہ آیا تو انوار صاحب نے اپنی بیگم اور دونوں بچیوں کو کراچی نصراللہ صاحب کے گھر بھیج دیا کہ تحریم بھابھی ملازمت کرتی ہیں، رمضان میں کام بہت ہوتا ہے تو رمضان وہاں گزار لو، اور عید پر انوار صاحب خود بھی آنے والے تھے۔ رضیہ بیگم کے آنے سے گھر میں رونق آگئی۔ ان کی دو چھوٹی بچیاں تھیں نمرہ 9 سال کی اور ماہرہ 5 سال کی، دونوں گڑیا لگتی تھیں، تحریم صاحبہ کی تو جان تھی دیور کی بچیوں میں۔ ان کے آنے سے پہلے ہی ان کے لیے کھلونے، کپڑے وغیرہ خرید کر رکھ لیے۔ چھوٹی چھوٹی جاء نمازیں خریدیں کہ بچیوں کو نماز سکھائوں گی۔
رات کے تین بج رہے تھے، تحریم تہجد کی نماز کے لیے اٹھیں، عمیر کے کمرے کے سامنے سے گزریں تو اندر سے گانوں کی آواز آرہی تھی، اور تحریم کو تو یوں لگا جیسے سگریٹ کی بو آرہی ہو۔ انہوں نے بیٹے کے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو اندر سے مقفل تھا، انہوں نے دھڑ دھڑ دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ خاصی دیر بعد عمیر نے دروازہ کھولا، اس کی آنکھیں لال اور بوجھل تھیں۔ تحریم کا تو دل ہی بیٹھ گیا کہ ’’کہیں عمیر نشہ تو نہیں کررہا؟‘‘ ’’دروازہ کیوں لاک کر رکھا ہے؟ چلو اٹھو تہجد پڑھو، سحری کا وقت ہونے والا ہے۔‘‘ انہوں نے بیٹے سے کہا۔ وہ دھڑام نیچے گر گیا۔
اسپتال میں 3 گھنٹے بعد عمیر کو ہوش آیا۔ نصراللہ بے تابی سے سگریٹ پر سگریٹ پیے جارہے تھے۔ تحریم نے ان کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر پھینکی۔ ’’یہی سب دیکھ کروہ نشہ کرنا سیکھا ہے‘‘، انہوں نے شوہر کو خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ شرمندہ سے ہوکر رہ گئے۔ معلوم یہ ہوا کہ عمیر برے دوستوں کی صحبت میں سگریٹ، چرس، شیشہ، ہیروئن ہر قسم کا نشہ کررہا ہے۔ چونکہ نیا نیا نشہ شروع کیا تھا اس لیے برداشت نہ کرسکا اور بے ہوش ہوگیا۔
گھر آنے کے بعد نصراللہ صاحب نے مستقل طور پر عمیر کے کمرے میں رہنا شروع کردیا۔ امیر گھرانوں میں بچوں کے علیحدہ کمرے بھی بچوں میں جرائم بڑھنے کی بڑی وجہ ہیں، خود نصراللہ صاحب اسے یونیورسٹی لے کر جاتے اور لے کر آتے۔ عمیر بدتمیز بھی بہت ہوگیا تھا اور باپ کا مسلسل ساتھ رہنا اسے شدید ناگوار گزرتا تھا، ہر وقت باپ بیٹے میں جھگڑا رہتا، مگر نصراللہ صاحب نے عمیر کو نہ چھوڑا۔
عمیر کی بہنیں، نمرہ اور ماہرہ ٹی وی لائونج میں کھیل رہی تھیں، ان کی چہکار سے پورا گھر گونج رہا تھا، وہ گڑیا کی شادی کررہی تھیں، گانے بھی گا رہی تھیں۔ نصراللہ صاحب نے جو یہ دیکھا تو اپنے موبائل پر گانے بھی لگادیے اور خود بھی بیٹھ کر میز بجانے لگے۔ بچیوں نے ڈانس شروع کردیا۔ خوب رونق لگ گئی۔ عمیر بھی آ کر بیٹھ گیا اور تالیاں بجانے لگا۔ نصر صاحب کو اچھا لگا کہ عمیر گھریلو سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہے اور نارمل ہورہا ہے۔ عمیر غور سے نمرہ کو دیکھ رہا تھا، وہ بالکل فلمی ہیروئنوں جیسا ڈانس کررہی تھی۔ ظاہر ہے جو ٹی وی پر دکھا دکھا کر اس کی تربیت کی گئی، وہ سامنے تو آنا ہی تھا۔ تحریم اور رضیہ باورچی خانے میں افطار کی تیاری میں مصروف تھیں، تحریم بیگم نے جو گانے بجانے کی آوازیں سنیں تو لائونج میں گئیں۔
’’نصر صاحب! کیا بالکل ہی دین سے بے گانہ ہوگئے! افطار میں دو گھنٹے رہ گئے ہیں، بجائے بچوں کو قرآن کا ترجمہ، احادیث و غیرہ بتانے کے آپ نے انہیں ناچ گانے میں لگا رکھا ہے!‘‘ وہ چلّائیں۔
’’افوہ… ایک تو آپ نے جینا حرام کردیا ہے، ہر وقت بلاوجہ جھگڑا کیے رکھتی ہیں، بچوں کی ذرا سی خوشی آپ سے برداشت نہیں! یہ گھر ہے، ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے۔‘‘ نصر صاحب نے کہا۔
’’آپ کو جتنا بھی برا لگے، میں بولنا نہیں چھوڑوں گی، کم از کم اللہ کے آگے کہہ تو سکوں گی کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا، آگے آپ خود اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ تحریم نے غصے سے کہا اور واپس چلی گئیں۔
رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا، تحریم سارے بچوں کو لے کر عشاء کے بعد بیٹھ جاتیں، قرآن کا ترجمہ، تفسیر وغیرہ بتاتیں، اتنے میں نصر صاحب اور عمیر تراویح پڑھ کر آجاتے، پھر سب مل کر باہر نکل جاتے، کھانا کھاتے، شاپنگ کرتے اور سحری کرکے واپس آتے۔ فجر کی نماز پڑھ کر سب سو جاتے۔ تحریم کو یہ سب پسند نہیں تھا، وہ نہیں جاتی تھیں، اور ان کی شاپنگ بھی رضیہ نے کی۔ نصر صاحب کھلے دل سے پیسہ خرچ کررہے تھے، جب کہ تحریم اس سب کو پیسے کی بربادی سمجھتی تھیں۔ نصر صاحب کو یہ بھی خوشی تھی کہ عمیر سب کے ساتھ گھل مل کر خوش ہے اور اس کا دھیان بھی کسی غلط جانب نہیں رہا۔ مگر یہ خوشی عارضی تھی۔
’’ہائیں! کیا بالکل ہی باولے ہوگئے ہو، ابھی عمر ہی کیا ہے تمہاری، ابھی سے کیسے شادی ہوگی! کچھ بن جائو، کچھ کمانے لگو تو پھر ہوگی ناں تمہاری شادی۔‘‘ تحریم نے عمیر کے شادی کے مطالبے پر کہا۔
عمیر کے چہرے پر بے بسی تھی اور ہاتھ میں وہی اس کا اسمارٹ فون۔ وہ مایوس سا ہوکر اٹھ گیا، لائونج میں جاکر ٹی وی لگا لیا۔
26 ویں روزے کو نمرہ کی طبیعت کچھ مضمحل تھی، وہ افطار کرکے سو گئی تو تحریم نے کہا ’’آج نمرہ کو مت لے جائو، یہ میرے پاس رہے گی‘‘۔ رضیہ مطمئن ہوگئیں۔ باقی سب گھومنے چلے گئے۔ تحریم نے جاکر نمرہ کو دیکھا، وہ آرام سے سورہی تھی۔ انہوں نے اس کا ماتھا چوما اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔ لائونج میں جاکر جاء نماز بچھائی اور صلوٰۃ التسبیح کی نیت باندھ لی۔ دو گھنٹے گزر گئے، انہیں بھوک لگی تو باورچی خانے کی طرف جانے سے پہلے سوچا نمرہ کو دیکھ لوں… ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، نمرہ کمرے کے فرش پر خون آلود پڑی تھی، اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور کھلی فق آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کہ زندگی اس معصوم جسم سے روٹھ کر دور جا چکی ہے۔
کہرام مچ گیا۔ انوار اور رضیہ کا برا حال تھا۔ پوسٹ مارٹم میں نمرہ سے زیادتی کی تصدیق ہوچکی تھی۔ تحریم الگ غش کھا رہی تھیں کہ میری موجودگی میں یہ سب کیسے ہوگیا! پولیس نے سب محلے والوں کو DNA چیک کرنے کرنے شروع کردیے۔ خبر میڈیا پر آچکی تھی۔ سوشل میڈیا پر ’’نمرہ کو انصاف دو‘‘ کا ٹرینڈ بن گیا۔ عمیر کسی دوست کی شادی میں شرکت کے لیے حیدرآباد چلا گیا تھا۔ تین ہفتے میں معاملہ کافی ٹھنڈا ہوگیا۔ انوار اور رضیہ اپنی چھوٹی بچی ماہرہ کو لے کر واپس لاہور چلے گئے۔ تحریم اداس بیٹھی تھیں، نصر صاحب حسبِ معمول ٹی وی پر ایک شو دیکھ رہے تھے جس میں ایک جوڑے کی شادی ہورہی تھی اور مرد اور عورتیں مل کر ناچ رہے تھے۔ ’’نصر صاحب! اس رات آپ لوگوں نے باہر کیا کھانا کھایا تھا، کون سے ریسٹورنٹ گئے تھے؟‘‘ تحریم نے سوال کیا۔
’’ساحل پر گئے تھے، تلی ہوئی مچھلی کھائی تھی، بڑی لذیذ تھی‘‘، نصر صاحب نے جواب دیا۔
’’مگر عمیر تو کبھی مچھلی نہیں کھاتا، اس نے کیسے کھا لی؟‘‘ تحریم نے تعجب سے پوچھا۔
’’وہ تو ہمارے ساتھ گیا ہی نہیں تھا، اسے کسی دوست کے پاس جانا تھا، وہ تو تقریباً تین بجے رات ہمارے پاس آیا، اس کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا،کپڑے پھٹ گئے تھے، پھر سحری کی‘‘، وہ بولے۔
تحریم کے چہرے پر تشویش پھیل گئی، انہوں نے اپنا فون اٹھایا اور پولیس کو فون ملا دیا۔ ’’سر! میرا بیٹا ایک دو روز میں آجائے گا، اس کا بھی DNA چیک کرلیں۔‘‘
عمیر کا DNA میچ کر گیا تھا، وہی نمرہ کا قاتل تھا، اسے معلوم تھا کہ امی ہر رمضان کے آخری عشرے میں روز رات کو صلوٰۃ التسبیح پڑھتی ہیں اور اس دوران نمرہ اکیلی ہوگی، اس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر نمرہ پر حملہ کردیا، اس کا منہ باندھ دیا تاکہ آواز تحریم تک نہ پہنچے۔ نصراللہ نے بڑے سے بڑا وکیل کیا، ساری جمع پونجی لگا دی مگر ملک میں اس وقت ہر آواز، ہر ٹی وی چینل اور ہر اخبار عمیر کے خلاف تھا، اس کو بچانا ناممکن تھا۔ اسے درندہ قرار دیا جاچکا تھا، دو مہینے کے ٹرائل کے بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔
قارئین! یہ کوئی خیالی کہانی نہیں ہے۔ یہ واقعات روز ہمارے ٹی وی چینل ہمیں سناتے ہیں، یہ سب سچ مچ ہورہا ہے، ہمارے قریبی رشتے بھی اعتبار کے لائق نہیں رہے۔ آخر کیوں ہم اتنے بدکردار ہوتے جارہے ہیں! کیا ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے باقاعدہ ایک سازش کے تحت ہماری نسلوں کو بگاڑا جارہا ہے، یا ہم اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کررہے ہیں؟ آج ہم اور ہمارے بچے خطرے میں ہیں، معاشرہ خطرے میں ہے، براہِ کرم آنکھیں کھولیں، اپنے گھر میں دین کو جگہ دیں۔ کوئی غیر اخلاقی تعلیم صرف مسئلے کو بڑھائے گی۔ روحوں کو پاک کیجیے، شیطان خود ہار جائے گا۔

حصہ