شکار

436

بڑے زورو شورسے شکار پر جانے کی تیاری کی جارہی تھی۔ ضرورت کی چیزیں یاد کر کے رکھی جارہی تھیں، آلات شکار چیک کیے جارہے تھے۔ ایسے میں روما اور صوبی کادل پکار رہا تھا کہ وہ بھی ابو کے ساتھ شکار کو چلیں۔ ویسے بھی اسکول کی ہفتے بھر کی چھٹیاں تو تھیں ہی، کیوں نہ اس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ روما نے منے بسورتے ہوئے صوبی سے سرگوشی کی۔ لیکن مسئلہ تھا اجازت کا، وہ کیسے لی جائے؟ کیا ابو جان لے جانے کی ہامی بھرلیں گے؟ کیا انہیں بھی ایڈونچر میں شامل کیا جاسکتاہے…… جسکا نام ہے ”شکار“؟
رات کوسب کھانا کھارہے تھے اور خوش گپیاں بھی جاری تھیں۔ دادی جان نے پان کے پتے کو مروڑی دی اور گال کے حوالے کرتے ہوئے عینک کے پار سے مخاطب ہوئیں:
”حمادکب تک کا پروگرام ہے؟“
”بس امی جان ایک ہفتہ، کیوں کہ پھر تو شہریار کو واپس بزنس ٹور پر انگلینڈ جانا ہے نا۔“ ابو نے پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے اطلاع فراہم کی۔
”ایک ہفتہ!“دادی جان نے گلوری کو دوسرے گال میں منتقل کر کے ناک پھننگ پر آئی عینک کو شہادت کی انگلی سے پیچھے دھکیل کر تعجب سے کہا۔ ”ہاں امی…… بس ایک ہفتہ۔“ ”اے لو، تم تو ایک ہفتہ ایسے کہہ رہے ہو جیسے ایک آدھ گھنٹہ“۔
”امی کبھی کبھی تونکلناہوتاہے۔“ حماد نے ہفتہ بھر کی توجیح پیش کی۔ ”ہاں ورنہ تو گھر میں قید پڑے رہتے ہیں بے چارے۔“ شاہدہ بیگم نے ڈش میں چاول نکالتے ہوئے پہلی بار گفتگو میں حصہ لیا۔ ”ابو! شہریار انکل اور آپ کے علاوہ کون کون جائے گا؟“ ”بس منشی بابا مدد کو اور ہم ہوں گے۔”
”بس اتنے سے افراد“
”اور تمہارا کیا خیال ہے، بارات جائے گی!“ دادی جان نے چشمے کے پیچھے سے آنکھیں گھمائیں۔ ”نہیں بھیا کا مطلب تھا کہ ہماری بھی چھٹیاں ہیں اور اگر ہم بھی اس مرتبہ آپ لوگوں کے ”شکار“ کو چلیں تو کتنا مزہ آئے گا۔ ”روما تصور میں اس دلفریب منظر کو لاتے ہوئے آنکھیں موندے معصوم سا منہ بنا کر ابو کے کاندھے پر جھول گئی۔ ”نہیں بیٹا اب کے ہم جس طرف جارہے ہیں، وہاں جنگل ذرا خطرناک ہے، شیر بہت ہیں۔“ ”ارے پھر تو بڑا مزہ آئے گا“ صوبی نے بات بڑھائی۔
”ہاں شیروں کے شیر صاحب جو ساتھ ہوں گے“ دادی اماں نے ٹھوڑی پر انگلی رکھ کر طنز کیا۔ ”اے لو! بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، پدی کے بھی پرنکلے“۔ امی کھانا سمیٹتی سنانے لگیں۔ وہ پہلے ہی ابو کے ان شکاری پروگراموں سے عاجز اور تنگ تھیں۔ ”ہاں بہو! اب تو رائفل سے روما اور تیرے صوبی شکار کریں گے شیر تاکہ تمہارے لئے شیر کے کمبل، لحاف بنیں۔“ دادی اماں بھی پاندان پر طبع آزمائی کرتے ہوئے بولیں اتنے میں شہریار انکل آگئے۔ ”ارے کیا کھایا پیا جارہاہے۔ اور کس کے لحاف شیر کے بن رہے ہیں؟“
”صاحبزادہ بھی شکار پر جانے کی ضد کررہا ہے۔“ دادی اماں نے دوسرے پان پر ہاتھ صاف کرتے کتھا چاٹتے چونا لگاتے بات بڑھائی۔ ”تو کیا حرج ہے انکل!“روما کو شہریار انکل بڑے پسند تھے کہ وہ اس کی بات کبھی رد نہیں کرتے تھے۔
شہریار انکل کی آمد ان کے حمایتی ووٹ کا اضافہ ثابت ہوئی اور تھوڑی پس و پیش کے بعد انہیں آخر اجازت مل ہی گئی۔
امی جنگل میں شکار اور دور اپنے لخت جگروں کے ان کے ساتھ پر، ہولائی جارہی تھیں۔ خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ بہلادے پھسلادے دیئے۔ لیکن بچے ابو اور انکل کی شہہ پاکر اڑیل ٹٹو سے ہوگئے تھے۔ مجال ہے شکار کے پروگرام سے دستبردار جو ہوئے ہوں۔
جنگل پہنچ کرابو اور انکل نے ایک درخت پر مچان بنایا، جو خوب اونچا اور گھنا تھا، او رمنشی بابا کو تاکید کی کہ دیکھنا ادھر اُدھر نہ ہونا بچوں کے پاس رہنا، ہم ذرا شکار کر کے ابھی لوٹے کہ لوٹے۔ روما نے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ ایک خوفناک آواز سے اُچک کر بیٹھ گئی۔ صوبی ادھر اُدھر تانک جھانک کررہا تھا۔ یہ کون ہے؟ ایسی آواز، ایسی چنگھاڑ…… لگ رہا تھا جنگل لرز رہا ہو، زلزلہ آگیا ہو۔ اُس کی آنکھوں سے نیند بھک سے اُڑ گئی تھی اور خوف سا چھا گیا تھا۔ ”لگتا ہے یہ شیر ہے“ منشی بابا نے معلومات بہم پہنچائی۔ ”تو اب کیا ہوگا؟“ صوبی نے خوف سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے جھرجھری لی۔
”بڑے ڈرپوک ہو!“ روما نے مونگ پھلیاں چھیلتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہاں آپ تو بڑی تیس مار خان ہو“، صوبی جھنجھلا کر بولا۔ ”بھئی ایسا کرتے ہیں“ روما نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا ”ہم سامان میں سے لکڑیاں اور ماچس نکالتے ہیں“۔ وہ سامان میں سے تیل، ماچس اور لکڑیاں گھسیٹتی ہوئی بولی تو صوبی نے بھی منشی بابا کے ساتھ نیچے کود ماری ور لکڑیاں کے گھڑ میں آگ لگاکر ادھر اُدھر سے اور لکڑیاں لاکر اس میں ڈال دیں اور خود مچان پر نشانہ لے کر بیٹھ گیا۔ پھر وہی خوفناک دھاڑ، ایسا لگ رہا تھا جیسے بالکل ان کے نزدیک ہی سے شیر پکار رہا ہو کہ میں آگیا بچو! اور وہ واقعی ان سے کچھ گز ہی کے فاصلے پر تھا۔ منشی بابا بچوں کے ساتھ تنہا ہونے پر بے چین، مضطرب سے ہوگئے تھے کہ دھڑ دھڑ، انہوں نے فائر کی آواز سنی، پھر دھاڑ، پھر فائر، پھر دھاڑ۔
وہ بڑے جوش اور ولولے سے رات کے قصے ابو جانی اور انکل بتلا رہے تھے کہ انہیں پتا ہے شیر آگ سے ڈرتا ہے، اس لئے ہم نے آگ روشن کرلی تھی۔ اور جب شیر آگ سے ڈر کر بھاگا تو صوبی نے ایسے ’ٹھا‘ کر کے اس کی آنکھوں کی سیدھ کھوپڑی کا نشانہ لے کر بھیجہ اڑا دیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے تین فائر کیے اور شیر ڈھیر ہوگیا! ابو اور انکل کو یقین نہیں آرہا تھا، لیکن خوش بھی تھے کہ اتنے ننھے منے سے بچوں نے بجائے ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کے ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔ اور وہ خوشی خوشی دوسرے روز ہی واپس جارہے تھے۔ا س پروگرام کے نمٹنے پر نہ انکل دکھی تھے نہ ابو پریشان، بلکہ سب خوشی خوشی واپس آگئے۔
امی نے اچانک انہیں جو دیکھا تو وسوسوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ ”کیا ہوا؟ پروگرام مختصر کیسے کرلیا؟“ بہت سے سوالات وہ ان کے اترنے تک کرچکی تھیں۔ ”اے لو، اماں جی! دیکھا میرے بچے میرے کمبل کے لئے واقعی شیر کی کھال لے آئے نا۔“
وہ ان کی بہاردری کے کارنامے سنتی، ان کے ماتھے چومتی، بھیگی پلکوں کے درمیان رب کا شکر ادا کرتے بولیں۔

حصہ