پردہ تو اک متاع ہے

294

اسلام وہ آفاقی دین ہے جو عورت کو قیمتی متاع جانتا ہے۔ مسلمان عورت چونکہ سب سے قیمتی ہے، وہ در در رلتی نہ رہے اس لیے اسے مستور کردیا۔ جو پھل جتنا قیمتی ہوتا ہے اس کا چھلکا اسی قدر مضبوط ہوتا ہے۔ قیمتی متاع کو محفوظ کرنا، ہر کس و ناکس کی بری بھلی نظروں سے محفوظ رکھنا… یہ قانونِ فطرت ہے۔ قرآن میں آیاتِ حجاب کے ساتھ ایک جملہ بہت پیارا ہے اور اہمیت کا احساس دلاتا ہے کہ جس رب نے ہمیں پیدا کیا ہے وہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہم پردہ کریں اور اس میں محبت بھی دیکھیں کہ فرمایا ’’تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔‘‘
وہ جانتا ہے کہ یہ جو میری بندیاں ہیں یہ بے حد نازک ہیں، ان کو ستائے جانے سے محفوظ رکھنے کے لیے پردہ فرض کردیا۔ شاہانہ انداز سے باادب باملاحظہ ہوشیار کہ بنتِ حوا آرہی ہے، اپنی نظروں کو جھکا دو! پروٹوکول دیا ہے ناں ہمیں۔ پردہ عورت کو نہ صرف تحفظ کا احساس دیتا ہے بلکہ خوب صورتی کی بھی علامت ہے۔ مسلمان عورت کی پہچان ہی پردہ ہے۔ اپنے آپ کو قیمتی بناتی، سب سے چھپاتی مسلمان حیادار عورت۔
آیاتِ حجاب سے پہلے اس معاشرے میں پردے کا کوئی رواج نہ تھا، مگر جب حکم آتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ صحابیات نے فوراً وہ مان لیا اور گھر میں موجود بستر کی چادریں اوڑھ لیں۔ انتظار نہیں کیا کہ نئے ڈیزائن کا عبایا خریدیں گی تو پردہ شروع کریں گی۔ ان کی فکر تو یہ تھی کہ ایک لمحہ بھی اللہ کی نافرمانی میں نہ گزرے۔ وہاں حیل و حجت نہیں تھی، بلکہ سمعنا و اطعنا تھا۔
پھر وہ پہچان لی گئی ! زمین پر بیٹھے ان کی ندا عرش پر بھی سنی گئی۔ وہ پردہ کرنے کے بعد مجبور اور بے چاری نہیں ہوئیں بلکہ ہر جگہ وہ اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ زخمیوں کی مدد کرتی نظر آتی ہیں، کبھی وہ شہسواری میں مردوں سے بڑھ کر پھرتیلی نظر آتی ہیں۔ وہ محافظ کے طور پر کھڑی ہیں اور قلعے میں جھانکتے یہودی کا سر اتار کر پھینکتی ہیں۔ خلیفۂ وقت سے بھرے مجمع میں اختلافِ رائے کرتی ہیں۔ جنگ میں مسلمان پسپا ہوکر پیچھے پلٹنے لگتے ہیں تو خیموں کی چوبیں نکال کر آگے بڑھ کر حملہ کرنے پر مجبور کرتی نظر آتی ہیں۔ علم کے میدان میں صحابہ کو تعلیم دیتی نظر آتی ہیں۔ یہ سب کرتے ہوئے پردے پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے۔ نہ پردہ بوجھ بنا، نہ رکاوٹ بنا۔
آج نہ جانے کیسی ہوا چل پڑی ہے کہ ماڈرن ہونے کے نام پر لباس کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ماڈرن ہونے کے لیے سب سے پہلے پردہ ہی اتر رہا ہے۔ سب نے تاریخِ اسلام پڑھی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کے دور کو کیا کہا جاتا تھا؟ ’’زمانۂ جاہلیت‘‘۔ کیا ہوتا تھا تب؟ یہ بھی سب کو علم ہے۔ عورت میراث کی مانند تقسیم ہوتی، حیا کا تصور مفقود، کعبہ کا طواف برہنہ کرنا عین رکنِ عبادت تھا۔ پھر اسلام آیا اور آیاتِ حجاب، سورہ النساء آیاتِ میراث آئیں تو وہی بیٹی جو باعثِ شرمندگی تھی، زندہ درگور کردی جاتی تھی، جنت میں جانے کی ضامن بن گئی۔ وہی عورت جس کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے، میراث کے ساتھ تقسیم کی جاتی تھی خود وارث قرار پائی۔ ماں کے قدموں کے نیچے اولاد کی جنت رکھ دی۔ یوں وہ معاشرہ زمانۂ جاہلیت سے نکل کر جدیدیت کی طرف بڑھ گیا۔ دنیا کا اگر کوئی جدید مذہب ہے تو وہ اسلام ہے۔
اب پھر سے زمانۂ جاہلیت کی طرف لوٹا جارہا ہے، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے مضحکہ خیز نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ جو پردہ تحفظ دیتا ہے اسے وبال گردانا جارہا ہے۔ ترقی کی راہ میں حائل محسوس ہوتا ہے۔ یاد رکھیں پردہ عورت کی وہ متاعِ بے بہا ہے جو اس کو شاہانہ شان عطا کرتی ہے۔ اس کو انفرادیت عطا کرتی ہے۔ اسے پہچان عطا کرتی ہے… پردہ تو اس جہاں میں عورت کی اک متاع ہے۔

حصہ