تاریخِ اسلام کے سمندر میں غوطہ زنی سے قاری پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اسلام کا دامن انقلابی سرگرمیوں، ایثار و قربانی، حلم و تواضع اور شجاعت و بہادری کے محیر العقول نظائر سے معمور ہے۔ یہ قابلِ دید منظر اسلامی کیلنڈر کے پہلے مہینے محرم الحرام میں ہی کھل جاتا ہے۔
بلاشک و شبہ محرم الحرام کے گوناگوں فضائل ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اہم ترین تکویناتِ الٰہیہ اسی ماہِ مقدس میں ظہور پذیر پائیں۔
جبکہ اسلامی انقلابات کے ضمن میں دو واقعات سنگِ میل ہیں جو کہ اسی مقدس مہینہ میں روپذیر ہوئے: ایک حادثۂ کربلا جس نے اسلام کے دوام کا حتمی فیصلہ کر دیا؛ اور دوسرا واقعہ سیدنا حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپؓ کی تدفین، جو کہ یکم محرم الحرام24 ہجری کو ہوئی۔
شہادتِ عمرؓ تاریخِ عالم میں کوئی عام واقعۂ شہادت نہیں، بلکہ دُور رس اثرات کا حامل ہے۔ کیونکہ آپؓ کی شہادت اسلامی تقویم کے ایسے سنگم پر ہوئی جہاں ایک سن ہجری (23 ہجری) کا آخری دن اور دوسرے سنِ ہجری (24 ہجری) کا عین آغاز ہے۔ سیاسی و معاشرتی اور مذہبی اعتبار سے اسلامی انقلابات کے ایک سنہری عہد کا اختتام اور ایک عکسی عہد کا آغاز ہے جو صرف چند سالوں بعد ہی شہادتِ حسین علیہ السلام پر منتج ہوا۔
تاریخِ عالم کا اگر غیرجانبدارانہ مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ عہدِ فاروقی وہ زرّیں دورِ اسلامی ہے جس نے دنیائے رنگ و بو میں ایک نیا آفاقی نظام (New World Order) صرف متعارف ہی نہیں کروایا بلکہ اس کی تشکیل و تکمیل بھی کر دی جس کی بدولت سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ حضور سید الانبیائؑ کی اْس معنی خیز دعا کا حقیقی مصداق ٹھہرے جو آپؓ نے حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کی بابت فرمائی تھی۔
ذرا اس دعائے عظیم کے الفاظ پر غور فرمائیے:۔
’’اے اللہ! ان دونوں ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے پیارے بندے کے سبب اسلام کو عزت عطا فرما۔‘‘ (ترمذی)۔
اس دعائے روح پرور کے نتائج سے دو باتیں واضح ہو گئیں: ایک یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انتخابِ الٰہی ہیں؛ اور دوسرا کہ یہ انتخابِ الٰہی اعزازِ اسلام کے لیے ہے اور حق یہ ہے کہ آپ اس قدر بالغ نظر، صائب الرائے اور زیرک تھے کہ بارگاہِ رسالت مآب ؐ میں جو مشورے پیش فرمائے انھیں نہ صرف دربارِ الٰہی میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بذریعہ وحی امتِ محمدیہ پر لاگو فرما دیا۔ مثلاً اذان کا طریقہ، خواتین کے لیے پردے کا حکم، حرمتِ شراب، براء تِ سیدہ عائشہ علیہاالسلام، بدر کے اسیروں کے متعلق فیصلہ سمیت دیگر معاملات میں ۷۲ آیات آپ کی رائے کے موافق نازل فرمائی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضور سید المرسلین ؐ نے صرف آپ رضی اللہ عنہ کو ہی یہ اعزازِ بے مثال بخشا کہ: ’’بیشک اللہ نے عمر کی زبان و قلب پر حق رواں فرما دیا ہے‘‘ (ترمذی)۔
آپ رضی اللہ عنہ کی لسان و قلب پر نزولِ حق کے برملا اظہار کا نظارہ کرنا ہو تو آپ رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت کی مندرجہ ذیل جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے:۔
آپ نے اپنے سنہری دور میں کئی تاریخ ساز شعبہ جات کی داغ بیل ڈالی۔ وفاقی سطح پر آپ ہر علاقہ میں محکمہ فوج اور پولیس کے دفاتر کا قیام عمل میں لائے اور فوج اور پولیس کے ملازمین کی باقاعدہ بھرتی کرنے کا طریقہ کار متعارف کروایا۔ محکمہ عدالت اور قاضیوں کا تقرر، ڈاک رسانی کا نظام، بیت المال کا قیام، محاصل کی وصولی سے متعلق اداروں کا قیام، جیل کا قیام، محکمہ زراعت و آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کو قائم و مستحکم کیا گیا اور ان میں مربوط نظام کا نفاذ کیا گیا۔ اس سے قبل یہ محکمے موجود نہ تھے۔ تمام محکوں کے افسران اور ملازموں کی تنخواہیں ان کے کام کے مطابق مقرر کیں۔
نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ ڈیم اور نہریں بنائی گئیں مثلاً: نہر ابوموسیٰ، نہر معقل، نہر سعد اور زمینوں کو مزارعین میں تقسیم کردیا گیا۔
شعبہ جات کے باقاعدہ حساب کتاب کے لیے آپ نے حضرت عثمان بن حنیف، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت عمار بن یاسر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو مختلف شعبوں میں سربراہ متعین فرما کر ایک مضبوط وفاقی سیکرٹیریٹ کی تشکیل کی جسے قوانین کے نفاذکے لیے سخت ہدایات دیں۔
٭ آپؓ ہی کے دور حکومت میںحضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے ’’جریب‘‘ کے ذریعے زمین کی پیمائش کی اور اجناس پر ٹیکس مقرر کیا۔
٭ سن ہجری کا آغاز کیا گیا۔
٭ باقاعدہ باجماعت نمازِ تراویح کی ابتداء کی گئی۔
٭ حرم اور مسجد نبوی ؐ کی توسیع کی گئی۔
٭ جہاد کے لیے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش اور تربیت کا اہتمام کیا گیا۔
٭ آپ ہی نے سب سے پہلے امیرالمومنین کا لقب اختیار کیا۔
٭ تاریخ عالم میں پہلی بار مردم شماری کی گئی۔
٭ نئے شہروں اور صوبوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
٭ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت مرحمت کی گئی۔
٭ فوجی چھائونیوں کا قیام اور ان کی تعمیر کروائی گئی اور فوجیوں کے لیے سالانہ چھٹیوں کا شیڈول مرتب کیا گیا۔
٭ پرچہ نویسوں کا تقرر کیا گیا۔
٭ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لیے سرائیں اور چوکیوں کا قیام کیا گیا۔
٭ بچوں کے لیے وظائف کا اجراء کیا گیا۔
٭ مفلوک الحال مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے وظائف مقرر کیے گئے۔
٭ مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔
٭ فتوحات کی وسعت سے اسلامی ریاست کے طول و عرض میں اضافہ ہو گیا تھا۔ مختلف اقوام حلقہ اسلام میں قدم رکھ رہی تھیں جس کی بدولت قیاس کا اصول رائج کیا گیا۔
٭ فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ کیا گیا۔
٭ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء کیا گیا۔
٭ آپ کے دورِ حکومت میں 400 مساجد تعمیر کی گئیں۔ امام اور مؤذن کی تنخواہ مقرر کی۔ مساجد میں روشنی اور وعظ کا طریقہ جاری ہوا۔
٭ عشر اور زکوٰۃ کے علاوہ عشور کی اصطلاح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متعارف کرائی۔
مندرجہ بالا مختصر بیان سے ہی آپ رضی اللہ عنہ کی مذہبی، معاشرتی، عسکری، معاشی و اقتصادی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی اثرانگیز اور وسیع بصیرت کا علم ہو جاتا ہے۔ یہی وہ ہمہ جہت بصیرت ہے جوعالمِ ہست و بو میں آپ رضی اللہ عنہ کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اگرچہ آپ کی خلافت کی ابتداء22جمادی الثانی 13 ہجری کو ہوئی اور تقریباً ساڑھے دس سال کی قلیل مدت تک قائم رہی، مگر اس دورانیے میں آپ نے ایسے کائناتی تدبر کا مظاہرہ کیا کہ سلاطینِ عالم کو حیران کر دیا۔ ہر طرف عدل و انصاف کا بول بالا ہو گیا، جہاں کہیں بھی اسلامی ریاست کا علم بلند ہوتا وہاں راست بازی، ایمان داری کا سکہ رائج ہو جاتا۔
آپؓ کی شانِ عدل و انصاف کی ایک ہلکی سے جھلک ملاحظہ ہو کہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہیں جا رہے تھے راستے میں ایک لونڈی کو روتے ہوئے دیکھا، پوچھا:کیوں رو رہی ہو؟ عرض کرنے لگی:۔
’’مجھے ٹھوکر لگی اور میں گر گئی میرا تیل بہ گیا ہے۔ میری مالکن بہت ظالم ہے مجھ پر تشدد کرتی ہے۔‘‘۔
آپ رضی اللہ عنہ نے زمین پر درّہ مارا اور فرمایا:کیا میں نے تجھ پر انصاف نہیں کیا؟‘‘۔
اس پر زمین نے فوراً تیل کو باہر نکالا اور لونڈی نے اسے اپنے پیالے میں ڈال لیا۔ ہیبت ِ فاروقی کی یہی وہ شانِ عدل تھی کہ آپ کے عہدِ خلافت میں ظلم و تعدی کا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا۔
یہ سب کچھ حقیقت کی اِس آغوش میں ہوا کہ مملکتِ اسلامیہ حیرت انگیز توسیع سے مشرف ہوئی۔ اس کے باوجود آپ نے نظامِ حکومت کو اس تدبّْر سے مربوط و مستحکم کیا کہ جہاں آپ نے اسلام کے خلاف ابھرنے والی فتنہ انگیزیوں اور سورشوں کا قلع قمع کیا وہاں اسلامی ریاست کو بھی نا قابلِ تسخیر اس طرزِ ندرت سے بنایا کہ نئے اسلامی آفاقی نظام (New Islamic World Oder) کی بہررنگ تشکیل کر دی، حتیٰ کہ اسلامی سلطنت ایک مستحکم قوتِ عظمیٰ (Superpower) کے صفحۂ ہستی پر نمودار ہوئی، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی حق آماج حکمت و بصیرت کا دائرہ صرف ایک سیاسی حکمتِ عملی تک محدود نہ تھا بلکہ معاشی، علاقائی، سماجی اور بین الاقوامی مذہبی و معاشرتی جہتوں کی تشکیلِ نو اور تکمیلِ ہموار تک پھیلا ہوا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی شاہینوں نے صرف کفار کی مضبوظ ترین ریاستوں روم و ایران کو پیوندِ خاک ہی نہ کیا بلکہ عالمِ انسانی کو کفر و شرک کے گھٹاٹوپ سے نکال کر انسانی معاشرت کی ہر سطح پر دینِ متین کے عالمگیر نظام سے منور کر دیا۔ اور ان مقاصدِ الٰہی کی تکمیل کر دی جن کی تعیین کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:۔
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو ناپسند ہی ہو۔‘‘ (سورۃ التوبۃ)۔
یہی وہ لطیف نکتہ تھا جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینا۔‘‘۔
شہادتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مابعد اثرات میں دو نکات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں:
اوّل: وہ سنہری دور ختم ہو گیا، جس میں اسلام کے معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی قومی و بین الاقوامی نظام نے ترتیب پایا اور جس کی بدولت سطحِ زمین پر نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل ہوئی اور اسلامی سلطنت سپر پاور بن کر ابھری۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد میں حضرت عثمان اور حضرت مولا علی رضی اللہ عنہما نے اس نظام کو اپنی فراست اور تدبر سے جاری رکھا خاص طور پر اس نظام کے مدبرانہ جمہوری نظام کے اجرا میں استقامت اختیار کی۔ مگر مختلف وجوہات کی بنا پر ’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘۔
دوم: یہ کہ مابعد خلفائے راشدین کے ادوار میں عربوں کی قدیم روایتی نسلی عصبیات اور خاندانی تعصبات نے بہت سے ایسے فتنوں کو جنم دے دیا جن کی وجہ آخری خلیفۂ راشد حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے یہی مناسب سمجھا کہ سلطنت فتنہ انگیزوں کے حوالے کر دی جائے تاکہ مسلمان باہمی قتل و غارت سے محفوظ ہو جائیں۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ عین اس حدیثِ رسول ؐ کے مطابق تھا کہ:’’میری امت میں خلافت تیس سال تک رہے گی۔ پھر اس کے بعد بادشاہت ہو گی‘‘ (ترمذی)۔
لہٰذا اس حدیثِ صحیح کے حقیقی مصداق پرخلافت کا خاتمہ ہو گیا اور امیر معاویہؓ کی سربراہی میں بادشاہت قائم ہو گئی جس کے نتیجہ میں نہ صرف اسلامی جمہوری نظام ہمیشہ کے لیے اختتام پذیر ہو گیا بلکہ اسلامی امورِ حکمرانی اور اعتقادات و اعمال میں وہ فتنہ و فساد برپا ہوا جس کی انتہا معرکۂ کربلا اور شہادتِ حسینؓ پر ہوئی۔