کراچی کو اس کا حق دلانے کی بازگشت میں اضافہ!۔

792

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہ اس وقت متحدہ قومی موومنٹ فعال ہے، نہ اس کے دھڑے، اور نہ ہی کوئی ایسی تحریک۔ اس کے باوجود کراچی کے مسائل کے سدباب اور کراچی کو اُس کا حق دلانے کی آوازیں بلند ہورہی ہیں۔
شہر کے مسائل کے حل اور شہریوں کو اُن کے حقوق دلانے کے لیے حقیقی طور پر کل بھی جماعت اسلامی سرگرم تھی اور آج بھی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کراچی میں مسلسل پائی جانے والی بے چینی کیسے ختم ہوگی اور کون خاتمہ کرے گا؟
فی الحال تو صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ بات ہی غلط تھی کہ کراچی میں بننے والے پاکستان کو ایک چھوٹے صوبے سندھ کے ساتھ جوڑ کر اسے صوبے کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ یہ امر فطری لحاظ سے بھی نامناسب تھا، کیوں کہ جو پاکستان کا دارالحکومت ہو، اُسے کس طرح، کس نیت اور سازش کے تحت سندھ کا دارالحکومت بنایا جاسکتا تھا؟ مگر سازشی عناصر کمزور ہونے کے باوجود عددی لحاظ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے طاقت ور تھے، جب کہ پاکستان بنانے والے اور ان کی اولادیں اپنے نئے ملک کے استحکام کے لیے مصروف تھے۔
انہیں معلوم تھا کہ نئی زمین پر نیا ملک بناکر اسے ترقی دینا آسان نہیں۔ ان کے اس اخلاص کو سازشی عناصر نے کمزوری سمجھا، نتیجے میں محض 26 سالہ ملک کے خلاف اس کی یک جہتی کے خاتمے کی سازش کی گئی، پھر ملک کو لسانی صوبوں میں تقسیم کرکے اسے مسلم ملک سے زیادہ لسانی ملک بنانے کی بھی کوشش کا آغاز کیا گیا۔
اگرچہ پاکستان بنانے والے مہاجروں کو اپنے اس ملک کو نظریاتی طور پر اسلامی ہی بنانا تھا اور بنانا ہے، مگر لسانی قوتیں ایک پیج پر نظر آئیں تو پورے ملک کو اسلامی بنانے کا خواب اس تیزی سے مکمل نہیں ہوا جس تیزی سے اسلام دشمن قوتوں نے مختلف مسائل پیدا کرکے اسلام کے چاہنے والوں کو ان مسائل میں الجھا دیا۔ ان میں ایک مسئلہ لسانی بنیادوں پر چار صوبوں کی تخلیق بھی تھی۔
ایسا ہوا تو سب کچھ بدل گیا۔ ملک کا دارالحکومت کراچی سے پنجاب کی زمین اسلام آباد منتقل کرکے اسے ملک کا دارالحکومت بنادیا گیا تھا۔ اس طرح پنجاب کو اہم صوبہ قرار دے دیا گیا، جو آج تک آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اہم ہے۔ جبکہ جو ملک کا دارالحکومت تھا اُسے سندھو دیش کے حامیوں کے حوالے کرکے سندھ کا دارالحکومت بنادیا گیا۔ اس طرح انگریزوں کا ساتھ دینے والوں کو خوب نوازا گیا۔
جب نوازنے میں ناانصافی ہو تو اس کے نتائج کس طرح اچھے نکل سکتے ہیں! ساٹھ کی دہائی میں مہاجروں کے حقوق کے لیے شروع کی جانے والی تحریک کو پوری قوت سے ڈرا دھمکا کر غیر فعال کردیا گیا، کیوں کہ آگے کراچی کو سندھ کے حوالے کرنا تھا، پھر 1970ء میں ویسا ہی کیا گیا۔
چند روز قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ملک کی سب سے بڑی عدلیہ میں مقدمات کی سماعت کی۔ انہیں کراچی کی صورتِ حال پر تشویش ہے، وہ کہتے ہیں کہ کراچی یتیم بنا ہوا ہے۔ ملک کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خاں نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے مختلف آپشنز پر غور کررہی ہے۔ اٹارنی جنرل کے عدالتِ عظمیٰ میں اس بیان کے بعد سندھ کے حکمران بے چین ہوگئے۔ انہیں معلوم ہے کہ کراچی اگر ان کے کنٹرول سے باہر گیا تو وہ اپنے سندھی لوگوں کے ساتھ بھوکے مرجائیں گے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ سندھی قوم پرست اپنے لوگوں کو بھی بہکا سکتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادیں کبھی بھی سندھی ہی کیا کسی کو بھی بھوکا مرنے نہیں دے گی۔
مگر آج کے سندھ کے حکمران نہ تو اپنے سندھی لوگوں سے مخلص ہیں اور نہ ہی کراچی والوں اور کراچی سے۔
کراچی سندھ اور اس کے حکمرانوں و اراکین اسمبلی کی کفالت کے لیے 92 فیصد ریونیو دیتا ہے، جب کہ یہی کراچی پورے ملک اور اس کے عوام کو 74 فیصد روپیہ دیتا ہے، مگر بدلے میں کراچی کو 5 سے 7 فیصد بھی نہیں ملتا۔ آخر کیوں؟ 1973ء سے کراچی اور کراچی والوں کے ساتھ کوٹہ سسٹم کے نام پر زیادتی کی گئی اور اب جعلی ’’اربن ڈومیسائل‘‘ بناکر ان کا بچا کھچا حق بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔ کراچی کے ادارے تو پہلے ہی قبضے میں کرلیے گئے۔ کراچی کے نوجوانوں سے تعلیم اور روزگار کا حق چھینا جاچکا ہے۔ کراچی کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی تو اس کی غلط مردم شماری ہے۔ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور محکمہ شماریات کے مطابق 2013ء￿ کراچی کی آبادی 2 کروڑ 14 لاکھ سے زائد تھی۔ پھر یہ 2017ء میں ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار 352 کیسے ہوگئی؟ دل چسپ امر یہ کہ اس مردم شماری کے نتائج کا نوٹیفکیشن آج تک نہیں نکالا گیا مگر اسے درست تسلیم کرکے رائج کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بارے میں بھی سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا پڑے گا؟
کراچی کو اس کا حق دینے کے بجائے اس سے سب کچھ چھین لینے کی شروعات 2 اپریل 1970ء بروز جمعہ، ون یونٹ کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ کی گئی تھی، یہ یحییٰ خان کا دور تھا جب صدارتی حکم کے تحت کراچی کو چھین کر سندھ کا دارالحکومت بنایا گیا تھا، حالانکہ کراچی کو پاکستان کے قیام کے فوری بعد قائداعظم محمد علی جناح نے ایک آزاد علاقہ قرار دے دیا تھا۔ اس سے قبل یہ زمین انگریزوں کی مرہونِ منت سندھیوں کو ملی تھی، حالانکہ کراچی کا کنٹرول سندھ سے پہلے جام آف لسبیلہ کی لسبیلہ ریاست کے پاس بھی رہا، لیکن یہ سب قصہ بانیِ پاکستان نے جون 1947ء میں گورنر جنرل بن کر ختم کردیا تھا۔ گویا اسے سندھ کی زمین قرار دینا غلط ہے۔
اگر آج بھی کراچی بانیِ پاکستان کی خواہش کے مطابق پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تو اس کی یہ صورتِ حال نہ ہوتی کہ اسے ملک کا منصفِ اعلیٰ یتیم کہنے پر مجبور ہوتا۔
راقم نے کراچی کو الگ صوبہ بنانے یا انتظامی طور پر موجودہ نظام سے علیحدہ کرنے کے لیے فیس بک پر لوگوں سے رائے لی تو بعض لوگ انتہائی جذباتی ہوگئے۔ کسی نے سندھ توڑنے کا الزام لگا دیا تو کسی نے کچھ اور… حالانکہ دنیا کے کئی ملکوں میں نئے صوبے بنائے جانا ترقی کی علامت مانی جاتی ہے، مگر یہاں اس طرح کی کوشش کو سازشوں سے منسلک کیا جارہا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ سندھ میں کراچی صوبے کی بات کرنے پر شدت سے مخالفت کرنے والے، دیگر صوبوں کو مزید صوبوں میں تقسیم کرنے کی نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ پورے جوش سے اس کی حمایت کرتے ہیں۔ سندھ میں مزید صوبے بنانے کی بات پر سندھی سندھ توڑنے کا الزام لگادیتے ہیں، اس لیے کہ انہیں سندھ سے محبت بھی کراچی کی وجہ سے ہے۔ آج کراچی صرف سندھیوں کی ہی نہیں بلکہ دیگر تین صوبوں کے لوگوں کی بھی میزبانی کررہا ہے اور بغیر کسی معاوضے کے انہیں اپنے پاکستانی بھائی سمجھ کر کررہا ہے۔ حالانکہ کراچی، کراچی سے باہر کے ان لوگوں کو تعلیم، رہائش، روزگار اور تفریحی سہولیات فراہم کرنے کی مد میں متعلقہ صوبوں سے زرِ تلافی وصول کرنے کا حق رکھتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس مطالبے پر کون ہے جو کراچی کی حمایت کرے؟ کیونکہ اب تو پورا پاکستان ہی سال کے 11 مہینے کراچی پر قابض رہتا ہے۔
موجودہ حکومت اگر کراچی سے واقعی مخلص ہے تو دیگر صوبوں کے لوگوں کی مد میں متعلقہ صوبوں سے زرِتلافی وصول کرنے کا فیصلہ کرے، اور اس فیصلے کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ سینیٹ آف پاکستان سے بھی منظور کرائے۔ ایسا کرنے سے کراچی کے 60 فیصد مسائل حل ہوجائیں گے۔
یہاں تو سندھی قوم پرست شاید یہ بھول چکے ہیں کہ سندھ ماضی میں خیرپور اسٹیٹ تھا۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی مخالفت کرنے والے دراصل اپنی اور بیرونِ کراچی کی کمزوریوں سے واقف ہیں، انہیں کراچی کے الگ ہونے سے پیدا ہونے والے بے تحاشا مسائل کا خوف ہے اور اسی وجہ سے یہ ایسی آواز پر چراغ پا ہوجاتے ہیں۔ لیکن مجھے عمران خان کی حکومت پر یقین ہے کہ وہ نہ صرف کراچی کو اس کا حق دلائے گی بلکہ بھاولپور کو بھی پنجاب سے الگ کرکے ایک نیا صوبہ بنائے گی۔

حصہ