”بھیا بھیا ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ گھر میں کوئی ہے“ شفق نے سرگوشی والی آواز میں بلال کو اٹھاتے ہوئے کہا ”شفق کوئی نہیں ہے یار سونے دو مجھے اور تم بھی سو جاؤ ، بلال شفق کو ڈپٹ کر پھر دوبارہ سو گیا ، مگر نیند شفق کی آنکھوں سے اب دور جا چکی تھی اسے اب سیڑھیاں چڑھنے کی آوازیں آ رہی تھیں اس میں اتنی ہمت بھی نہیں رہی تھی کہ اٹھ کر برابر والے کمرے میں اپنے امی ابو کے پاس چلی جائے یا انہیں اٹھا دے ، بھیا نے تو ڈانٹ دیا ،چھوٹی سی شفو اب بہت پریشان تھی۔
کل ہی نمرہ نے بتایا تھا کہ برابر والا گھر کب سے خالی پڑا ہے اس لئے اس میں بھوت ہوگئے ہیں ”اوہ کہیں ہمارے گھر میں برابر والوں کا بھوت تو نہیں آنے لگا “ شفو نے ڈر کے مارے سوچا ، اس کے پسینے چھوٹنے لگے تھے ،دادی کہتی ہیں جب بھی ڈر لگا کرے تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو شکر ہے قاری صاحب صاحب نے اسے آیت الکرسی یاد کروا دی تھی ، شفو دل ہی دل میں آیت لکرسی پڑھنے لگی، مگر یہ کیا بیچ میں اٹک گئی، درمیان میں تھوڑی سی بھول گئی تھی ، اب کیا کروں کہیں بھوت ہمارے گھر میں نہ آجائے ، بیچاری شفو بہت خوفزدہ ہو گئی تھی۔
اچانک اسے چھت پر سے کچھ کھٹر پٹر کی آوازیں آنے لگیں ۔
”بھیا بھیا “شفو دوبارہ بلال کو اٹھانے لگی ، ”کیا ہوا ہے“ بلال نے کھا جانے والی نظروں سے شفو کو گھورا ” بھیا آپ کو کچھ آوازیں آ رہی ہیں چھت پر سے “ ۔
شفو نے ہلکی آواز میں بلال سے اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں آرہی“ بلال آوازوں پر غور کے بغیر دوبارہ سونے کے لئے لیٹ گیا ”اب نہ اٹھانا کل ویسے بھی میرا اسکول ہے ،اور اسکول میں ٹیسٹ ہے“ بلال نے خفگی سے کہا ”ہاں اور اگر یہ بھوت کمرے میں آکر تم کو کھا گیا تو کیسا اسکول اور کیسا ٹیسٹ “ شفق نے ناراضی سے سوچا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی سچ مچ نیند کی وادیوں میں کھوگئی ۔
”کیا ہوا پیاری شفو کیا پڑھ رہی ہو ؟؟ دادی کی جان“۔
”دادی جان میں اپنا سبق یاد کر رہی ہوں ، آپ سن لیں“ شفو نے آیت لکرسی دادی کو سنائی تو دادی نے پیار سے شفو کو گلے لگا لیا ”واہ بھائی میری شفو کو تو پوری آیت الکرسی یاد ہے “۔
” ارے واہ دادی اب دیکھیے گا میں برابر والوں کے گھر کے بھوت کو کیسے ان کے گھر میں واپس پہنچاتی ہوں ، بڑے آئے ہمارے گھر میں گھومنے والے “ ۔
شفو نے خوشی سے جھوم کر کہا تو دادی حیراں رہ گئیں ” کیا مطلب شفق “۔
” دادی ہمارے گھر میں کل رات برابر والوں کے گھر کا بھوت آیا تھا، وہ پہلے ہمارے گھر میں ٹہلتا رہا پھر سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر چلا گیا اور پتا نہیں اوپر کیا کرتا رہا “ شفو نے دادی کو دھیمی آواز میں پوری بات بتائی ” پیاری شفق کیا وہ بھوت آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا “دادی نے پیار سے شفق کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئی پوچھا ۔
”نہیں دادی مگر میں نے اس کی آواز سنی تھی“ شفو نے معصومیت سے کہا ” مگر بیٹا کسی بھی چیز کو دیکھے یا جانے بغیر اپنی رائے قائم کرلینا تو بڑی ہی بری بات ہے“۔
” کیا مطلب دادی “شفق کچھ سمجھ نہ پائی” ارے بیٹا ہوسکتا ہے کوئی اور ہو جسے آپ بھوت سمجھ رہی ہوں“۔
” لیکن دادی اتنی رات میں تو سب سو رہے ہوتے ہیں پھر کوئی چھت پر کیوں جانے لگا “شفو نے دادی سے سوال کیا۔
” ارے ہاں کل ہی کی تو بات ہے تم لوگ چھت کی لائٹس کھلی چھوڑ آئے تھے، نیچے کچن کی بھی لائٹس کھلی ہوئی تھی تو تمہارے دادا ابو نے تمہارے پاپا سے تمام لائٹس بند کرنے کے لیے کہا تھا جنہیں آپ برابر والوں کا بھوت سمجھ رہی ہو، ہو سکتا ہے وہ تمہارے پاپا ہی ہوں “ دادی نےننھی شفق کو سمجھاتے ہوئےکہا۔
” آں ٠٠٠ ہو سکتا ہے آپ صحیح کہہ رہی ہوں دادی مگر میں تو بہت ڈر گئی تھی“
شفق نے معصومیت سے کہا تو دادی نے ڈھیر سارا پیار کرتے ہوئے کہا کہ ”اب کیسا ڈر اب تو پیاری شفق کو آیت الکرسی بھی یاد ہو گئی ہے اب جب شفق رات کو آیت لکرسی اور ساری دعائیں پڑھ کر سویا کرے گی تو بالکل بھی نہیں ڈرے گی، ہے ناں شفق “دادی نے پیار سے شفق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو گول گول آنکھوں والی شفق گردن ہاں میں ہلاتے ہو ئے مسکرا دی۔