بلادِ شام کا بیروت میدانِ جنگ کیوں؟۔

856

خلافتِ عثمانیہ کے اختتام، جنگِ عظیم اوّل میں اتحادی افواج کی فتح اور قومی ریاستوں کے قیام کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے صدیوں پرانا ’’ملتِ اسلامی‘‘ کا جغرافیہ ’’محو‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِِ حکیم اور سید الانبیاءؐ نے اپنی احادیث میں جن علاقوں کا تذکرہ کیا ہے، اُن کی وسعت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے انہیں مخصوص نام دے کر ان کی وہ شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی جو احادیثِ رسولؐ میں ملتی ہے۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا نشانہ ’’بلادِ شام‘‘ ہے۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے سات ہزار سال پرانا ہے، آج کی موجودہ چار قومی ریاستوں اردن، لبنان، شام اور فلسطین (اسرائیل) پر مشتمل ہے۔ قدیم رومن اس علاقے کو ’’لیونٹ‘‘ (Levant) کہا کرتے تھے، جس کا مطلب ہے ’’اُبھرتے ہوئے سورج کی سرزمین۔‘‘ اسی سرزمین کے متعلق اللہ فرماتا ہے ’’اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، وارث بنا دیا، اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا ہے۔‘‘ (الاعراف: 137)۔ ’’یہ بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کے بعد اس خطے میں آبادی کا ذکر ہے۔‘‘ اسی سرزمین کے مرکز یروشلم کی ’’مسجدِ اقصٰی‘‘ کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ نے کہا ’’پاک ہے وہ ذات جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی، جس کے قرب و جوار کے علاقے کو ہم نے بابرکت بنایا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: 1)
سید الانبیاءؐ نے تین دفعہ فرمایا ’’یاطوبیٰ للشام‘‘ یعنی ’’شام کی سعادت کا کیا کہنا۔‘‘ کہا صحابہؓ نے پوچھا کیونکر‘ فرمایا ’’رحمت کے فرشتوں نے اپنے پر و بازو شام پر پھیلا رکھے ہیں۔‘‘ (ترمذی، مسند احمد، مستدرک الحاکم)۔ اسی سرزمینِ شام کو ہی اللہ نے آخری معرکۂ خیر و شر کے لیے منتخب کیا ہے۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کی وہ حدیث جو اس قدر جامع ہے اور جسے حاکم نے شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اس حدیث میں رسولِ اکرم ؐ کے یہ الفاظ ’’الشام ارض الحشر والمنشر‘‘ شام محشر و منشر کی سرزمین ہے۔ (مسند احمد، ابنِ ماجہ، ابنِ عساکر، حاکم)۔ یہ اور دیگر لاتعداد احادیث سے بات عیاں ہوتی ہے کہ قیامت کے نزدیک اہلِ ایمان اس خطے میں جمع ہوتے چلے جائیں گے، اس لئے کہ حضورؐ نے خود یہاں کوچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ کی وہ حدیث کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا، ’’آخری زمانے میں تمہاری مختلف فوجیں ہوں گی، شام میں، عراق میں اور یمن میں، پوچھا گیا ہم کس سمت جائیں، فرمایا تم لوگ شام کی فوج میں شامل ہو جانا اور جو یہ نہ کرسکے تو وہ یمن کی فوج سے جا ملے اور ان کے چشموں کا پانی پیئے۔‘‘ (بخاری، مسند احمد، ابودائود، حاکم)۔ اسی سرزمینِ شام سے ہی ایک لشکر امام مہدی کے مقابلے کے لیے نکلے گا اور مکہ کے نزدیک ’’بیداء‘‘ کے مقام پر زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ (بخاری، مسلم)
احادیث کی کتب میں یہ امام مہدی کی شناخت کے لیے دی گئی سب سے واضح علامت ہے۔ اسی لشکر کے دھنسائے جانے کے بعد امام مہدی کا بڑی عالمی جنگوں کے دوران ہیڈکوارٹر دمشق کے پڑوس میں واقعہ مقام ’’غوطہ‘‘ میں ہوگا۔ سید الانبیاءؐ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف ایک ہی ہجرت کی پیش گوئی کی ہے، فرمایا ’’ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی، پس بہترین شخص وہ ہوگا جو اس جگہ ہجرت کرکے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم ؑ ہجرت کر کے گئے تھے۔‘‘ (ابودائود)۔ یہی ’’بلادِ شام‘‘ ہے جہاں سیدنا عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول ہونا ہے، یہیں دجال کا قتل اور اسی علاقے کے مرکز ’’بیتِ مقدس‘‘ سے اُس لشکر نے ترتیب پانا ہے، جس نے اس خطے میں آکر یہاں کے لوگوں سے مل کر ’’غزوۂ ہند‘‘ برپا کرنا ہے۔
جس خطے کی اس قدر اہمیت ہو‘ اسے کیسے متحد رہنے دیا جا سکتا تھا۔ زوالِ خلافتِ عثمانیہ تک یہ خطہ اس سلطنت میں دل کی طرح دھڑکتا رہا۔ جو لوگ ’’ارطغرل غازی‘‘ ڈراما آج کل دیکھ رہے ہیں، انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ وہ تمام معرکے اسی بلادِ شام میں منعقد ہوئے تھے۔ ان سے پہلے نو صلیبی جنگیں جو 1145ء سے 1268ء تک لڑی گئیں، اُن کا میدانِ جنگ بھی یہی شام کا علاقہ تھا۔ اسی سرزمین کے شہر دمشق میں ایک شخص ’’یوحنا الدمشقی‘‘ (John Of Damascus) پیدا ہوا، جس نے اسلام کے خلاف جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد رکھی جس میں توہینِ رسالت اور توہینِ اسلام کے وہ تمام پہلو شامل تھے جن کی بنیاد پر آج بھی مغرب میں اسلام اور رسولِ اکرمؐ کی شخصیت سے نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ اس قدر اہم اور مبارک سرزمین کو پہلی ہی جنگِ عظیم کے بعد شام، اردن، لبنان اور برطانوی فلسطین نامی ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔
لبنان کا علاقہ ایسا تھا جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ آباد تھے۔ یہ خطہ یکم ستمبر 1920ء میں فرانس کے حصے میں آگیا۔ یہاں میرونائٹ (Maronite) عیسائی، یونانی آرتھوڈوکس عیسائی، سنی مسلمان، شیعہ، دروز جو شیعہ سے علیحدہ ہوئے اور اپنے عقائد کی وجہ سے ایک نئی شناخت ہیں، سب موجودہ تھے۔ اس کے علاوہ رومن کیتھولک عیسائی اور یہودی غرض کون ہے جو آج بھی یہاں آباد نہیں ہے۔ اس وقت لبنان میں تقریباً اٹھارہ مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔ یہ خطۂ اس قدر اہم تھا کہ بیروت شہر میں امریکن یونیورسٹی 1866ء میں قائم ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بیروت ابھی خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا اور امریکا تو ابھی تک ان عالمی طاقتوں میں شمار ہی نہیں ہوتا تھا جو دنیا کے معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں، مگر یورپ کے صہیونی یہودی، امریکا کی معیشت اور حکومت دونوں پر اپنا قبضہ جما چکے تھے۔ بلادِ شام سے علیحدہ کیے جانے والا یہ خطہ جو آج ’’لبنان‘‘ کہلاتا ہے، اسے جب عالمی طاقتوں نے مکمل آزادی دی تو 1943ء میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا جو تحریر نہیں کیا گیا تھا، لیکن وہ آج تک لبنان میں نافذ العمل ہے۔
اس معاہدے کے مطابق لبنان میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہوگا، جس کے تحت لبنان کا صدرہمیشہ میرونائٹ (Maronite) عیسائیوں میں سے ہوگا، وزیر اعظم سنی مسلمان، سپیکر اسمبلی شیعہ، ڈپٹی سپیکر پارلیمنٹ اور ڈپٹی وزیر اعظم یونانی آرتھوڈوکس عیسائی ہوں گے۔ لبنان کے قیام کے فوراً بعد اور 14مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ لبنان وہ واحد عرب ملک تھا جو اس جنگ میں شامل نہ ہوا، لیکن لبنان کے مسلمان اپنے طور پر اسرائیل پر حملے کرتے رہے۔ لبنان میں فلسطینی مہاجروں کی اکثریت آئی اور اس وقت ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔ بیروت کا یہ خوب صورت شہر اور لبنان کا ملک گزشتہ ایک صدی سے مستقل فساد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مگر یہ ملک 13 اپریل 1975ء میں ایسی قتل و غارت اور خانہ جنگی کا شکار ہوا جو 17 سال تک چلتی رہی اور 26 اگست 1991ء کے عام معافی کے اعلان پر ختم ہوئی۔ اسی خانہ جنگی کے دوران جنوری 1976ء میں شام نے لبنان کے ایک علاقے پر قبضہ کرلیا تاکہ وہ شیعہ امل ملیشیا اور دروز کی حمایت کر سکے۔ شامی افواج لبنان سے 2009ء میں ’’وزیراعظم رفیق حریری‘‘ کے قتل کے بعد واپس گئیں۔ اسی طویل خانہ جنگی کے دوران 1982ء میں اسرائیل نے بھی اپنی افواج لبنان کے بیشتر علاقوں، خصوصاً بیروت شہر میں اتار کر ان پر اس لیے قبضہ کر لیا تاکہ وہ عیسائی آبادی پر مشتمل جنوبی لبنانی فوج کی مدد کرسکے۔ اسرائیل کی افواج وہاں مئی 2000ء تک رہیں۔ اسی دوران صابرہ اور شتیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں اسرائیل فوج نے عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔
بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے اس دھماکے نے دنیا بھر کے سامنے لاتعداد سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سترہ سالہ ’’سول وار‘‘ نے لبنان کی معیشت کو اتنا تباہ نہیں کیا ہو گا جس قدر دوررس اور تباہ کن اثرات اس دھماکے سے مرتب ہوں گے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ چند سو افراد کی جانیں گئی ہیں، چند ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں اور چند کلو میٹر کے علاقے کی عمارات تباہ ہوئی ہیں۔ اس سے کئی گنا زیادہ تباہی تو 2006ء میں ہوئی تھی جب ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ میں جنگ ہوئی تھی۔ حزب اللہ تو اپنے ٹھکانوں میں محفوظ و مامون رہی لیکن اسرائیل نے پورا بیروت راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اس چونتیس روزہ جنگ کے بعد بیروت کے شہریوں نے اسے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ لیکن اس دفعہ بحران سے نکلنا مشکل ہے۔ پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لبنان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جو بیرونِ ملک آباد لبنانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم پر چلتا ہے۔ اس وقت اندازاً سینتالیس لاکھ لبنانی اپنے ملک میں رہتے ہیں اور ایک کروڑ اسی لاکھ بیرونِ ملک قسمت آزمائی کر کے رقوم گھر بھیجتے ہیں جو لبنان کی جی ڈی پی کا 17 فیصد ہیں۔
بیرونی ملک سے آنے والی اس قدر رقوم کے باوجود بھی لبنان بدترین قرضوں کی لپیٹ میں ہے۔ لبنان میں غلّہ نہیں ہوتا کیوں کہ سب تو ملک چھوڑ گئے، فصلیں کون اُگائے، اس لیے غلّہ باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ دھماکے کے قریب ہی خوراک کا گودام تھا، جس میں لبنان کا 85 فیصد غلّہ پڑا ہوا تھا جو جل کر راکھ ہو گیا۔ دھماکا جس گودام میں ہوا ہے اس میں ایمونیم نائٹریٹ کی موجودگی میں بھی پراسراریت ہے۔ روس کی کمپنی کا جہاز MV Rhosus دوہزار سات سو پچاس ٹن ایمونیم نائٹریٹ لے کر موزمبیق جا رہا تھا کہ کچھ مالی مشکلات کی وجہ سے بیروت کی بندرگاہ پر رک گیا۔ بیروت کے کسٹم ڈائریکٹر ’’بدری داہر‘‘ کا کہنا ہے کہ بار بار اس جہاز کو وہاں سے جانے کے لیے کہا گیا، لیکن یہ وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہ ایک تیرتا ہوا بم تھا۔ کسٹم کے افسران نے عدالت کو لکھا کہ اس ایمونیم نائٹریٹ کو اتار کر کسی دوسرے ملک بیچنے کی اجازت دی جائے تاکہ یہ بندرگاہ محفوظ ہو جائے۔
جج کی عدالت میں روسی مالکان بھی جا پہنچے اور پھر جیسے عدالتوں میں ہوتا ہے، معاملہ لٹکتا گیا۔ سامان اٹھا کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا تاکہ پورٹ کی برتھ خالی ہو سکے اور یہ مٹیریل گودام میں چھ سال سے پڑا ہوا تھا۔ ایمونیم نائٹریٹ در اصل کھاد بنانے کے کام آتا ہے، لیکن اپنی آتش گیری اور آتش زدگی کی صلاحیت کی وجہ سے بموں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسے بڑی پلاننگ سے نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک تو 85 فیصد غلّہ جل کر راکھ ہو گیا اور دوسرا یہ کہ واحد بندرگاہ تھی جو بالکل تباہ ہو کر رہ گئی، یعنی اب گندم منگوانے کے سمندری راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ لبنان میں غلّہ اب صرف دو ممالک کی بندرگاہوں کے راستے آسکتا ہے ایک اسرائیل اور دوسرا شام۔ کس قدر صفائی سے یہ کھیل کھیلا گیا ہے کہ وہ لبنانی حکومت جو پہلے ہی معاشی بدحالی کی بدترین مثال تھی، اسے ان دونوں ملکوں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔
دھماکے سے پہلے لبنانی معیشت کا عالم یہ تھا کہ لبنان کے بیشتر علاقوں میں صرف تین گھنٹے سے بھی کم بجلی میسر تھی۔ صرف اس ایک ماہ میں لبنانی کرنسی کی قیمت ساٹھ فیصد گری۔ روٹی کی پورے ملک میں شدید قلت تھی، کیوں کہ حکومت کے پاس باہر سے گندم منگوانے کے لیے زرمبادلہ ہی نہیں تھا۔ فیس بک اکائونٹس ایسے اشتہاروں سے بھرے ہوئے تھے جن میں لوگ خوراک کے لیے گھر کا سامان بیچ رہے تھے۔ مشکلات کے اس عالم میں حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر بھیک مانگنے کے لیے کھڑی تھی اور دھماکاہ ہو گیا۔ آج سے چودہ سال پہلے 2006ء کی تباہی کے بعد تمام عرب ممالک نے بیروت کی تعمیرِِنو کے لیے بیشتر سرمایہ فراہم کیا اور صرف چند ماہ میں بیروت دوبارہ روشنیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ لیکن اس تعمیرِ نو کے بعد بیروت کو بدترین فرقہ وارانہ بدمعاشی کا شکار کر دیا گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے پورے لبنان کو حزب اللہ نے امن قائم کرنے کے نام پر یرغمال بنا لیا ہو۔ ان دنوں حزب اللہ لبنان میں بیٹھ کر شام اور عراق میں لڑائی لڑتی ہے اور نتیجے میں لبنان کا غریب ملک شام و عراق سے آئے چودہ لاکھ مہاجروں کو پالتا ہے۔
گزشتہ ایک دہائی میں حزب اللہ کے جانبازوں نے اسرائیل کا تو ایک بھی سپاہی جہنم رسید نہیں کیا لیکن شام اور عراق میں مسلمانوں کے گلے ضرور کاٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سال بعد کوئی ایک عرب ملک بھی لبنان کی ویسی مدد کرنے کو تیار نہیں جیسی انہوں نے 2006ء میں کی تھی۔ یہ ہے وہ بدترین بحران جس میں لبنان اس وقت گرفتار ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مسقط اور بحرین اور دیگر ممالک ایک ایسے ملک کی مدد کو تیار نہیں جو حزب اللہ کا یرغمال ہو۔ دوسری جانب بدقسمتی دیکھیے کہ اس لبنان میں ایران کا اسلحہ تو دھڑا دھڑ برسوں سے آرہا ہے، لیکن دھماکے کے بعد ایران سے جو جہاز آئے ہیں، اُن میں زیادہ تر زخمیوں کے علاج کے لیے دوائیاں اور تھوڑی سی خوراک تھی جو لبنان کے مسئلے کا حل نہیں۔ آیت اللہ خامنائی کی ہمدردی کا ٹوئٹ تو موجود ہے لیکن کیا کیا جائے، ایران تو خود اپنی ضروریات کے لیے غلّہ باہر سے منگواتا ہے۔ ایران شام کی بندرگاہ ’’لتاکیہ‘‘ سے غلّہ بھجوا تو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس غلّے کی قیمت کون ادا کرے گا؟ لبنان حکومت کے پاس تو سرمایہ نہیں ہے اور اس کا حلیف ایران کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ عرب ممالک خاموش تماشائی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ 2006ء￿ 2006 میں انہوں نے لبنان کو جو امداد دی تھی، اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ یمن سے لے کر کتیف تک ہر جگہ فرقہ وارانہ فساد کو بھڑکا کر پورے خطے میں آگ لگا دی گئی۔ یہ ہے وہ المیہ، جس کا شکار بلادِ شام کا یہ ملک بنا ہوا ہے۔
صلاح الدین ایوبی کے 12اکتوبر 1187ء میں بیت المقدس میں فاتحانہ داخلے سے لے کر 1920ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک 623 سال بلادِ شام کے مسلمانوں کی عظمت، سربلندی اور سرفرازی کے سال تھے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور یروشلم میں یہودیوں کی واپسی سے اس دورِ فتن کا جو آغاز ہوچکا ہے اور سید الانبیاءؐ کی پیش گوئیوں کے مطابق اس کا مرکزی مقام بلادِ شام ہوگا۔ یہ علاقہ آخری بڑی جنگ میں امام مہدی کا ہیڈکوارٹر ہوگا، لیکن اس سے پہلے شام ہی وہ خطہ ہے، جس نے امام مہدی کے خلاف منظم ہونا ہے۔ اسی خطے سے ایک لشکر برآمد ہوگا جسے رسولِ ا کر مؐ نے ’’سفیانی‘‘ کا لشکر بتایا ہے۔
روایات کے مطابق سفیانی بلادِ شام کا حاکم ہوگا جو ابتداء میں بہت متقی و پرہیزگار ہوگا، یہاں تک کہ اس کے نام کا خطبہ مسجدوں میں پڑھا جائے گا، پھر وہ ظلم پر اتر آئے گا اور مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے گا۔ یعنی بلادِ شام کے ان تینوں ممالک میں کوئی ایسا رہنما مسلط کیا جائے گا جو بظاہر نیک و پرہیزگار نظر آتا ہوگا، لیکن جب اسے حضرت امام مہدی کی خانہ کعبہ میں بیعت کا علم ہوگا تو وہ ان سے مقابلے کے لیے مکہ کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا۔ (مستدرک، فیض القدیر، قرطبی) احادیث میں امام مہدی کی پہچان کی دیگر علامتوں میں اصل بنیادی اور سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ ان کے مقابلے میں شام سے آنے والے سفیانی کے اس لشکر کو اللہ تعالیٰ بیدا کے مقام پر زمین میں دھنسا دے گا۔ (بخاری، مسلم)۔ اس لشکر کے دھنسنے تک شام خون رنگ ہے، اس لیے کہ یہاں سے امام مہدی کے مخالف لشکر نے منظم ہونا ہے۔ یہ سب قتل و غارت اسی لشکر کے انتظام کے لیے کی جارہی ہے۔

حصہ