آج ہمارا دل بہت دکھی اور غمگین ہے۔ کورونا نے ہم سے نہ جانے کتنے حسین اور خوب صورت دوست چھین لیے کہ جن سے ہمارا حلقہ احباب گل و گلزار رہتا تھا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے کہ جب ہم عزیز آباد میں رہتے تھے۔ ایک دن نماز کے لیے نکلے تو ہماری پچھلی گلی کے ایک نوجوان نے آواز دی ’’ظفر بھائی‘‘۔ شاید ہم سے پہلے ہمارے افسانے اُن تک پہنچ چکے تھے۔ خیر ہم نے مڑ کر دیکھا تو چہرہ کچھ شناسا اور اپنا اپنا سا لگا۔ سلام دُعا کے بعد تعارف ہوا تو پتا چلا کہ موصوف اسلام الدین ظفر ہیں اور ہم دونوں میں ’ظفر‘ قدرِ مشترک ہے، اور صرف یہی نہیں بلکہ جمعیت سے تعلق، رکنیت… ایک بڑی جامعہ کی نظامت اور شعرو سخن، نظریات، خیالات اور عقائد بھی ایک جیسے ہی ہیں۔ خیر ہمارے اکثر دوست احباب ہم دونوں کو ظفر بھائی کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔
ظفربھائی طلبہ سیاست میں بھی بہت سرگرم رہے اور اس سلسلے میں جیل کی ہوا بھی کھائی۔جمعیت سے فراغت کے بعد آپ جماعت اسلامی سے بھی منسلک رہے اور رکن بھی رہے، اورجماعت کے ساتھ دامے درمے سخنے قدمے ہر طرح سے تعاون کرتے رہے۔
خیر ہم قریب ہی ایک مسجد میں نماز کے لیے گئے۔ نماز کے بعد ہی ہمارا تفصیلی تعارف ہوگیا۔ موصوف جمعیت کے رکن اور NED یونیورسٹی کے ناظم رہ چکے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے انتہائی پُ آشوب دور میں جمعیت کے مکمل پینل کو جامعہ NED کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا، حالانکہ اس دور میں جمعیت کا نام لینا بھی ’آ بیل مجھے مار‘ کے مترادف تھا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوچکا تھا، مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ خوش قسمتی سے ایک پروفیسر صاحب نے انہیں اپنے کمرے میں چھپا دیا تھا۔ اور اس طرح ان کی جان بخشی ہوئی۔
ظفر بھائی نے مکینکل انجینئرنگ میں گریجویشن کیا اور مختلف کمپنیوں میں ملازمت کے ساتھ ساتھ این ای ڈی سے ماسٹرز بھی کیا اور مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں میں فری لانس درس وتدریس بھی جاری رکھی۔
آہستہ آہستہ ہم دونوں قریب ہوتے گئے اور ہم نوالہ و ہم پیالہ بن گئے۔ ہم اکثر ایک ہی مسجد، صفہ مسجد میں نماز پڑھتے۔ اسی دوران ایک اور مصروفیت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی یعنی درسِ قرآن کی ہفتہ وار محفل، جو مغرب سے عشاء تک جاری رہتی تھی۔ ثروت جمال اصمعی بھائی مدرس کے فرائض انجام دیتے تھے۔
یوں تو ظفر بھائی ہم سے عمر اور جمعیت میں پانچ چھ سال چھوٹے تھے مگر ہماری گفتگو اور ہنسی مذاق اور جملے بازی بلا تکلف جاری رہتی تھی۔ وہ بھی بہت خوش گفتار، ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ ان کا خاندانی پس منظر کچھ یوں تھا کہ وہ بہار سے ہجرت کرکے ڈھاکا میں آباد ہوئے، اور بعد ازاں 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام پر انتہائی پُرآشوب دور میں دوبارہ ہجرت کی آزمائش سے گزرے اور کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں رہائش اختیار کی۔ اس دوران ان کے ماموں نے جو کہ ہندوستان میں ہی رہ گئے تھے، ان کے خاندان کو سہارا دیا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی شادی اپنی ماموں زاد سے ہوگئی جو تقریباً 25 سال چلی۔ اس دوران کئی نشیب و فراز آئے اور بالآخر یہ شادی ختم ہوگئی۔
پہلی بیگم سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی ہوگئی لیکن چھوٹا بیٹا پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ جو بقول ڈاکٹروں کے دس لاکھ میں کسی ایک کو ہوتی ہے اور لاعلاج ہے، جس میں بچہ آہستہ آہستہ معذوری کی طرف چلا جاتا ہے۔
علیحدگی کے باوجود ظفر بھائی نے پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ انتہائی حُسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا۔ دوسری شادی نسبتاً ایک نوجوان خاتون سے ہوئی جن سے ان کے دو بیٹے ہیں، جو کہ ابھی کافی چھوٹے ہیں۔
بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے۔کبھی اپنی دلی کیفیات کو زبان پر نہ لائے۔ ہر وقت چہرے پر ایک شرارتی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔کبھی ان کی پیشانی پر بل نہیں آیا، اور نہ ہی کوئی شکوہ شکایت زبان پر… مگر حق بات پر ہمیشہ ڈٹ جاتے تھے اور باطل سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
ظفر بھائی عزیزآباد سے مختلف علاقوں میں منتقل ہوتے رہے جس کی وجہ سے درمیان میں ان سے ملاقات اور رابطہ کم کم رہا۔ ایک دن بہت عرصے کے بعد ہمارے مشترکہ دوست جناب سکندر صاحب سے اچانک ہماری ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ظفر بھائی کہاں روپوش ہیں۔ لہٰذا سکندر بھائی سے ہم نے ظفر بھائی سے ملنے کی خواہش کی جو فوراً قبول ہوگئی۔ اور ایک دن بہادرآباد میں ان کے گھر پہنچ گئے۔ وہ حیرت زدہ رہ گئے، یوں اچانک ملاقات پر ان کی باچھیں کھل گئیں، بہت ہی خوشی کا اظہار کیا اور پُرتکلف خاطر تواضع کی۔ ہم لوگ خاصی دیر گپ شپ کرتے اور پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔
اسی دوران اُن سے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ چونکہ وہ بزم شعروسخن کے بھی بہت ہی فعال رکن تھے۔ ان سے آخری سے پہلی ملاقات 23 مارچ کے حوالے سے ہونے والے مشاعرے میں ہوئی جس میں وہ اپنی بیگم کے ساتھ شریک ہوئے۔
ظفر بھائی نے ’’تبادلہ خیال فورم‘‘ کے نام سے بھی ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا جس کے وہ صدر بھی تھے۔ اس فورم پر اکثر پاکستان اور اسلام کے حوالے سے پروگرامات ہوتے تھے جن میں ادبی، سیاسی اور سماجی شخصیات کو بلایا جاتا تھا۔
ان سے فون،واٹس ایپ اور فیس بک کے ذریعے بھی رابطہ رہتا تھا۔ اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر افتخار کی یاد میں جو خاکہ ہم نے لکھا تھا اس پر ان کا تبصرہ ہماری پوسٹ پر آخری اور یادگار تبصرہ تھا۔ کیا پتا تھا کہ کچھ عرصے بعد ہم کو ظفر بھائی کا خاکہ بھی لکھنا پڑے گا۔
ظفر بھائی سے ہماری آخری ملاقات جامعہ کراچی کے ایک شعبے کے آڈیٹوریم میں ہوئی جس میں مولانا سلیمان ندوی مرحوم کے صاحبزادے جناب مولانا سلمان ندوی کا ایک لیکچر تھا، اور بعد ازاں سوال و جواب کی نشست بھی ہوئی، ہم دونوں اتفاق سے پہلی صف میں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔
ہمیں یاد آیا کہ اس موقع پر ظفر بھائی نے ہمیں ہماری پرانی مرگلہ کار کو تبدیل کرنے کا مشورہ بھی د ے ڈالا اور کہا کہ یہ بہت پرانی ہوگئی ہے۔ ہم نے کہا اس سے پرانی تو ہماری بیگم صاحبہ ہیں،کہیں ایسا نہ ہو آگے چل کر آپ بیگم بدلنے کا مشورہ بھی دے ڈالیں۔ انہوں نے ہماری اس بات پر بھرپور قہقہہ لگایا۔
ظفر بھائی قابل انجینئر تھے۔ آٹوموبائل اور مکینکل انڈسٹریز میں ان کا بڑا نام اور بڑی خدمات تھیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کئی غیر ملکی دورے بھی کیے تھے اور دنیا گھوم چکے تھے۔ انہوں نے NED یونیورسٹی میں درس وتدریس کا کام بھی انجام دیا۔ مگر بہت جلد انہیں یونیورسٹی سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ دورانِ امتحان ایک طالب علم نقل کررہا تھا۔ ظفر بھائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اس کی کاپی لے کر اپنے سینئر پروفیسر کو دے دی، مگر پروفیسر صاحب نے فوراً ہی کاپی متعلقہ طالب علم کو واپس کردی۔ ظفر بھائی کے لیے یہ صورتِ حال ناقابلِ برداشت تھی، لہٰذا انھوں نے فوراً ہی استعفیٰ دے دیا۔
ظفر بھائی ایک زمانے میں ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے اور ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے تھے ۔ اس پر مزید یہ کہ سخت مصروفیت کے باوجود روزانہ باقاعدگی سے مغرب اور عشاء کے درمیان درسِ قرآن بھی دیتے تھے۔ انہوں نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری اور ان کی شخصیت بہت ہی عملی تھی۔
جون میں ایک دن ہمیں فیس بک سے اطلاع ملی کہ ظفر بھائی کو بھی کورونا ہوگیا ہے اور انہوں نے خود کو گھر ہی میں قرنطینہ کیا ہوا ہے۔ ہم نے فوراً ہی ان سے فون پر رابطہ کیا۔ شام کا وقت تھا۔ ظفر بھائی سے بہت امید افزا گفتگو رہی۔ ہم نے بھی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورونا سے متعلق سارے مشورے ایک ہی سانس میں دے ڈالے۔ اور کیوں نہ دیتے؟ آخر ہم اپنے جگری دوست کو کھونا جو نہیں چاہتے تھے۔
پھر ہم نے دوسرے دن اسی وقت پر فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ علامات بھی موجود ہیں، ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے، اور دیگر علاج اور پرہیز کا بھی ذکر کیا اور دعائوں کی درخواست کی جو کہ ہم پہلے ہی کررہے تھے، اب دعائوں میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ اسی دوران انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ صاحبہ بھی گر گئی ہیں اور سر میں چوٹ آنے کی وجہ سے کومے میں ہیں۔ خیر والدہ کے لیے بھی دعا کی۔
تیسرے دن پھر فون کیا تو بمشکل بات ہوسکی، کیوں کہ طبیعت مزید بگڑ چکی تھی۔ ہم نے مزید زحمت دینا مناسب نہ سمجھا اور پھر ایک دن کے وقفے کے بعد فون کیا تو ان کی بیگم نے اٹھایا اور بتایا کہ وہ انڈس اسپتال کے ICU میں ہیں اور وینٹی لیٹر پر ہیں، اور دعاکے لیے کہا۔
اتفاق سے ان کے معالجین میں ان کے دوست احباب اور جمعیت کے ڈاکٹر حضرات بھی شامل تھے جو وقتاً فوقتاً فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپ ڈیٹ بھی دے رہے تھے اور دعائوں کی اپیل بھی کررہے تھے۔ ان کے ڈاکٹروں نے ان کے علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دل و جان سے علاج کیا اور محبت اور دوستی کا حق ادا کردیا۔ ان کے ڈاکٹروں کی بعض پوسٹوں نے ہم جیسے کمزور دل دوستوں کو وقت سے پہلے ہی رونے پر مجبور کردیا۔ اسی دوران ان کی والدہ کا بھی انتقال ہوگیا جس کی خبر ظفر بھائی کو نہیں دی گئی۔
ان کو وینٹی لیٹر پر پندرہ دن ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر حضرات کہہ رہے تھے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا ہم نے کرلیا، اب اللہ سے دعا کی ضرورت ہے کہ وہ ہمارا بھائی ہمیں لوٹا دے۔آمین
مگر یہ ہو نہ سکا، ایک دن ہم نے فون کیا تو ان کی ساس نے اٹھایا، ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور بس انھوں نے دعا کے لیے کہا اور لائن کٹ گئی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا…ظفر بھائی ہم سب کو روتا چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلے گئے جہاں ان کے لیے جنت الفردوس سجائی گئی تھی۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ظفر بھائی نے انتقال سے قبل فیس بک پر ایک پوسٹ ڈالی تھی جس میں انہوں نے اپنی غلطیوں، گناہوں، حقوق العباد اور دیگر معاملات کے سلسلے میں دوست احباب، رشتہ داروں اور ہر ایک سے معافی مانگی تھی۔ اے اللہ ہم گواہ ہیں کہ ظفر بھائی بہت ہی نیک اور شریف النفس انسان تھے، ہم سب نے خوش دلی سے معاف کیا اور تجھ سے بھی معافی کے طلب گار ہیں۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ جس دن منور حسن صاحب کی نماز جنازہ ہورہی تھی اُسی دن بارہ بجے کے بعد ظفر بھائی کا انتقال ہوا، اور وہ سارا مجمع جو ظہرمیں منور صاحب کے جنازے میں شریک تھا، عشا میں ظفر بھائی کے جنازے میں بھی شریک تھا اور سراج الحق صاحب نے ظفر بھائی کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب گناہ گاروں کو بھی اپنے ان پیاروں کے ساتھ اپنی جنتوں میں ملوائے، آمین ثم آمین۔